وجود

... loading ...

وجود
وجود

دوسرا لانگ مارچ اور عمران خان کی گرفتاری

جمعه 10 جون 2022 دوسرا لانگ مارچ اور عمران خان کی گرفتاری

وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ بیان کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہے اور ملک میں موجود تمام قوتوں کو مل کر میثاق معیشت کرنا ہوگا اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ پاکستان میں ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے حکومت معاملات کو سنبھالنے سے قاصر ہے اس بے بسی کو اگر کسی جا ل میں گرفتار ی سے تشبیہ دی جائے تو یہ سزا انہوں نے خود اپنے لیے تجویز کی ہے اس سزا میں ان کے پاس اعلٰی عہدہ ہے شان و شوکت ہے دولت ہے لیکن صرف مسئلہ یہ ہے کہ ان کی جماعت ہر گذرتے دن کے ساتھ غیر مقبول ہورہی ہے کارکن مایوس ہیںصرف میڈیا کہ ایک حصہ قصیدہ گو ہے جس کی نظر میں عوام میں پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے جشن کا سماں ہے اور وہ مٹھائیاں تقسیم رہے ہیں وزیر اعظم کے سیاسی عدم استحکام کے اس اعتراف کے بعدمختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں جاری ہیں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پس پردہ بہت کچھ ہورہا ہے کسی قابل عمل فارمولے کی تلاش جاری ہے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوجائیں بے یقینی ختم ہو استحکام کا آغازہو موجودہ حکومت کو قومی اور بین ا لاقوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں مل رہی ہے حکومت کے عہدیداروں پر اعتبار نہیں ہے کہ کہیں قرض ذاتی مفاد کے لیے استعمال تو نہیں ہوگا بیرون ملک حکومت کی نا پسندیدگی کی ایک اہم وجہ دنیا بھر میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے موجودہ حکومت کے خلاف مظاہرے ہیں جبکہ قومی سطح پر مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے عوام کاشدید غصّہ اور بے چینی کے علاوہ ملک میں عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شمولیت اورعالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے میں تاخیر دیگر وجوہات ہیں پاکستان کے سابق فوجیوں کی تنظیم نے بھی موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کردیا ہے اس تنظیم کے اراکین کی تعداد لاکھوں میں ہے ان حالات میں ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس لانے اور ملک میں آئندہ انتخابات کی تاریخ اور عبوری حکومت کے حوالے سے معاملات طے کرنے کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کے کارکن خاموشی سے دوسرے لانگ مارچ کی تیاری کررہے جس میں ایک تجویز یہ ہے کہ یہ مارچ ملک کے چند بڑے شہروں میں پانچ سو مقامات پر روزآنہ کی بنیاد پر مظاہروں کی صورت میں کیا جائے حکومت کی جانب سے بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں چند ارکین شرکت کرتے ہیں وزراء تک وہاں موجود نہیں ہوتے یہ صورتحال حکومت کے لیے خفّت اور شرمندگی کا باعث بن رہی ہے.
حکومت نے پی ٹی آئی پر دبائو بڑھانے کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتا ری کا منصوبہ بنایا تھا لیکن کسی بڑے عوامی ردّعمل کے خدشے کے پیش نظر اسے نظر انداز کردیاپاکستان میں گذشتہ مارچ سے جاری سیاسی محاذآرائی اور معاشی بحران روز بروز مزید شدت اختیار کررہا ہے اور اب اچانک بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اس کا بوجھ عوام پربراہ راست شدّت سے آگیا ہے کہ وہ تڑپ اٹھے ہیں ا ن میں شدید غم و غصہ پیدا ہوگیا ہے پٹرول کی قیمت میں دوسری مرتبہ اضافے کے بعدحکومت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوئے مسلم لیگ ن اقتدار میں آنے کے بعد اپنی عوامی حمایت سے مسلسل محروم ہورہی تھی اب اس کے اثرات رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی پر بھی آرہے ہیں بین الاقومی سطح پر حکومت کو ایک بڑا ڈھچکہ پی ٹی آئی کے گذشتہ لانگ مارچ کے دوران پولیس کی کارروائیوں کی وجہ سے بھی لگا ہے پی ٹی آئی نے اسے حکمراں جماعت کی جبر و تشدّدکے ذریعے سیاسی اختلاف کو دبانے کی کارروائیاں قراردیا ہے وہ ان واقعات کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور دنیا کے دیگر انسانی حقوق کے اداروںتک پہنچا چکی ہے بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی بڑی تعداد اسے مختلف اداروں تک پہنچارہی ہے خصوصاً عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے اس ساری صورت حال میں پاکستان کی معیشت شدید دبائو سے باہر نہیں نکل سکتی پٹرول ،بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات صنعت ،تجارت اورزراعت پر ہورہے ہیںزر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہور ہی ہے ملک کے انتظامی اخراجات کو چلانے کے لیے فوری قرضہ ملنا دشوار ہورہا ہے سیاسی کشیدگی کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا مزید دشوار ہوگابرطانیہ ،امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کے مظاہروں نے بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے دنیا کے اہم ممالک پاکستان میں موجودہ حکومت کی مقبولیت کا جائزہ اپنے نمائندوں کے ذریعے بھی لے چکے ہیں اور مسلسل حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیںحکومت کو عوامی حمایت کے لیے مہنگائی میں کمی کرنی ہوگی اس کے بغیرعوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے آئی ایم ایف کی شرائظ پوری کرنے کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جس کا دبائو معیشت اور عوام پر ہوگا مہنگائی پر قابو پانا انتہائی مشکل ہوگا .
موجودہ نئی حکومت کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرے ملک میں جاری کشیدگی اس میں رکاوٹ ہے یہ ایک ا یسا عنصرہے جسے شروع میں نظر انداز کیا گیا قرضے کے حصول کے بعد بھی حالات کے ٹھیک ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے معیشت کی کمزوری کے اثرات ملک کے دفاع پر ہورہے ہیں دوسری جانب افغانستان کی حکومت کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی بحالی شروع ہوچکی ہے ایک حلقہ اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہا کررہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ کسی گہرے روابط میں تبدیل ہوگا تو ایسی صورت میں مغربی سرحدوں پر خطرات بڑھ جائیں گے اس وقت سب سے اہم اور فوری مسئلہ تیزی سے زوال پذیر معیشت کو واپس بہتری کی جانب لانے کا ہے حکومت کے پاس عا لمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے سوا کوئی فوری حل نہیں ہے اس کے لیے سخت شرائط کو تسلیم کرنا ہوگا اور ملک میں سیاسی استحکام بھی پیدا کرنا ہوگا یہی ایک وجہ ہوگی جس سے حکومت آئندہ انتخابات کے فارمولے پر تیار ہوسکتی ہے ایک اور نیا اوراہم مسئلہ پاکستان میں پانی کی کمی کا ہے جس کا فوری حل انتہائی ضروری ہے بھارت سے اس سلسلے میںبات چیت کی گئی ہے کہ وہ عالمی معاہدے کے مطابق پاکستان کا پانی جاری کرے توقع کی جارہی کہ یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہوگا لیکن مکمل طور پر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا جس کے اثرات چاول اور دیگر فصلوں پر ہونگے پاکستان کے مسائل بہت پیچیدہ اور ہمہ جہت ہیں اس کے لیے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے موجودہ حالات میں سب سے پہلا قدم سیاسی کشید گی اور تصادم کی کیفیت کا خاتمہ ہے وزیر اعظم کا بیان کافی نہیں عملی طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
…………….


متعلقہ خبریں


مضامین
نازک موڑ وجود بدھ 22 مئی 2024
نازک موڑ

جو کرنا ہے خود کرنا ہوگا!! وجود بدھ 22 مئی 2024
جو کرنا ہے خود کرنا ہوگا!!

بھارت میں تبدیلی کی ہموار ہوتی راہ! وجود بدھ 22 مئی 2024
بھارت میں تبدیلی کی ہموار ہوتی راہ!

ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں۔۔۔۔(٢) وجود بدھ 22 مئی 2024
ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں۔۔۔۔(٢)

نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر