وجود

... loading ...

وجود
وجود

شہباز شریف اور آصف زرداری کا اگلا قدم

اتوار 29 مئی 2022 شہباز شریف اور آصف زرداری کا اگلا قدم

ؑٓ
سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بعد سے اب تک پاکستان سیاسی محاذ آرائی ، عدم استحکام اور معاشی بحران میں مبتلا ہے زوال پزیر معیشت کو سنبھلنے کے لیے پندرہ سے بیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں پاکستان کے دوست ممالک نے قرضہ فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرط عائد کررکھی ہے حکومت نے ابتدائی پچاس روز ضائع کرنے کے بعد نیم دلی سے پٹرول کی قیمت میں جو اضافہ کیا ہے وہ آئی ایم کی شرط کے مطابق ناکافی ہے ابھی پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا اور سخت ترین بجٹ پیش کرنا ہوگا جس میں نئے ٹیکس ہونگے اور عوام پر شدید دبائو ہوگا دوسری جانب پی ٹی آئی کے مارچ کے شرکاء کے خلاف پولیس کی پر تشدد کارروائیوں کے دنیا بھر کے میڈیا میں پیش کردہ مناظر سے پاکستان کی ساکھ اور خراب ہوگئی آئی ایم ایف پر بھی اس سے اچھے اثرات نہیں ہونگے۔
سیاسی محاذ آرائی موجودہ حالات میں خطرناک ہوگی تما م جماعتوں کے اس سے گریزکرتی نظر نہیں آتی ہیں۔ ان حالات میں قوم سے وزیر اعظم کا پھیکا پھیکا سا خطاب بھی بے اثر ثابت ہوا اس پر جو تنقید ہو رہی اس سے حکومت مزید دبائو کا شکار ہے اب یہ لرزتی ہوئی حکومت خودحکمران اتحاد کے لیے اتنا بڑا مسئلہ بن گئی ہے کہ شایدان کے رفقاء اور مسلم لیگ ن کا ایک اہم حلقہ بھی شدید پریشان ہوگا کہ وہ کس مشکل میں مبتلا ہو گئے ہیںایسا محسوس ہوتا ہے کہ کثیر الجماعتی حکومتی اتحاد کے کرتا دھرتا افراد کو اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں عوام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشانی،اور حکومتی اقدامات سے نفرت بڑھ رہی ہے ہر نیا قدم مزید مسائل کو جنم دے رہا ہے یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس میں فیصلہ سازی کا کوئی نظام نہیں ہے ہر مرحلے پر نواز شریف ، آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمان اور دیگر اتحادی رہنمائوں کی اجازت کی ضرورت رہتی ہے امیر جماعت اسلامی شاہ سراج الحق کے مطابق یہ ایک ایسی سواری ہے جس کے کئی ڈرائیور ہیں بحرانی حالات کا فائدہ حاصل کرکے جلسے جلوسوں کے ذریعے عمران خان کی پی ٹی آئی دنیا بھر میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ وہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جس کا واضح اور نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ جب وزیر خارجہ بلاول بھٹونے ایک معروف غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیا اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے کی کوشش کی تو نہ صرف انٹرویولینے والی شخصیت نے انہیں ٹوک دیا بلکہ بلاول بھٹو کو ان کے جلسوں کے مناظر دکھانا شروع کر دیے اور کہا کہ ان کی مقبولیت دیکھ لیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے اس سے پاکستان پر منفی اثرات کا اندیشہ ظاہرکیا جارہا ہے۔
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری موجودہ حکومت کو آئندہ سال اگست تک قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں پاکستان کی سیاست میں وہ مرحوم جام صادق علی کے بعد دوسرے سیاستدان ہیں جو پاکستان کے طاقتور ترین سیاستدان کی صورت میں سامنے آئے ہیں جا م صادق علی اکیلے سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بنا کر وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اور طاقت کے تمام مراکز سے ان کے بہترین تعلقات تھے جگر کی خرابی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ورنہ وہ وزیر اعظم بھی بن جاتے اور انہیں اقتدار سے نکالنا ناممکن ہوجاتا آصف زرداری بھی جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں لیکن موجودہ مہنگائی اور معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے بھی ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے وہ فوری طور پر دس پندرہ ارب ڈالر کا انتظام نہیں کرسکتے یقیناً اس وقت وہ ملک کی سیاست کے مرکز و محور ہیں انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی بساط بچھا کرتمام سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم کرلیا موجودہ سیاسی ڈھانچے میں انہیں بنیادی اہمیت حاصل ہے اب وہ اس حکو متی اتحاد کے مرکزی کردار ہیںحال ہی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بھرپور رابطہ مہم سے مسلم لیگ ن پر انتہائی منفی اثرات ہوئے ہیں اور وہ شدید دبائو میں ہے اس دبائو اور کمزوری کی وجہ سے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے وہ آصف زرداری کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی ہے اور اس کاجھکائو پیپلز پارٹی کی جانب بڑھتا جا رہاہے ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مریم نواز آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی خواہش کا اظہار کر تی ہیں تاکہ مسلم لیگ ایک ایسی طاقتور قوت کے طور پر سامنے آئے جو آزادانہ طور پر بغیر کسی دبائو اور مجبوری کے خو د ہر قسم کے فیصلے کرسکے البتہ مسلم لیگ ن کی کوشش یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پاکستان آکر سیاست کریں گے تو مسلم لیگ زیادہ بہتر مقام حاصل کرے گی حکومتی اتحاد میں اس کی برتری ہوگی آصف زرداری کے بجائے نواز شریف کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی اور رفتہ رفتہ سیاسی طور پر پورے نظام کو گرفت میں لے لیں گے موجودہ حکومت کے سامنے سب سے اہم مسئلہ مالی بحران اور حکومت کی روز بروز گرتی ہوئی ساکھ ہے عوام ایک بڑے ریلیف کی توقع کررہے تھے اور حالات یکسر مختلف ہوگئے اگر بڑے پیمانے پر مالی وسائل مہیا نہیں ہوئے تو غربت ،بے روزگاری ،مہنگائی کے علاوہ ایسا بحران بھی سامنے آسکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں انتشار کی صورت پیدا ہوجائے خطے کے حالات کے پیش نظر اندرونی استحکام کی اشد ضرورت ہے ان حالات کا فوری حل سامنے نہ آیا اورموجودہ کشیدگی کی کیفیت کو طول دیا گیا تو کئی سال تک بحرانی کیفیت رہے گی ا س وقت نقصان مسلم لیگ ن کا ہے مہنگائی اور بے روزگاری کاطوفان دیگر جماعتوں کوبھی لپیٹ میں لے سکتاہے۔
شہباز شریف اور آصف زرداری کا اگلا قدم عہدوں کی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے ہو سکتا ہے کہ خود آصف زرداری وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیں اور کوئی راہ تلاش کریں اس کے لیے نواز شریف تیار ہو سکتے ہیں لیکن شہبازشریف اور ان کے بعض قریبی ساتھی تیار نہیں ہونگے البتہ اگر شہباز شریف مکمل بے بس ہو جائیں گے تو وہ اپنا عہدہ آصف زرداری کو دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر