وجود

... loading ...

وجود
وجود

لانگ مارچ کے نتائج و اثرات

هفته 28 مئی 2022 لانگ مارچ کے نتائج و اثرات

لانگ مارچ کی کامیابی یا ناکامی پر تبصرہ کرنے یا نتائج و اثرات کا جائزہ لینے سے قبل کرنے والی اہم بات یہ ہے کہ مقتدر اِداروں نے پختہ اِراداہ کر لیا ہے وہ سیاست میں مداخلت کی بجائے غیر جانبدار رہیں گے علاوہ ازیں مظاہرہ ،دھرنا یا جلسہ و جلوس تمام سیا سی جماعتوں سمیت ہر شہری کا جمہوری حق ہے اِس لیے کسی کو آزادی اظہار کے اِس حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا مگر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور حکومت سے بزور استعفٰی طلب کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی پھر بھی کوئی ایسا کرتا ہے تو حکومت جو چاہے اُسے مناسب سبق دے سکتی ہے نوازشریف حکومت میں عمران خان نے 126دن دھرنا دیا اسی طرح عمران خان حکومت کے خلاف اکتوبر 2019 کے دوران مولانا فضل الرحمٰن اور پھر تحریک لبیک نے اکتوبر 2021میں لانگ مارچ کیا لیکن خوف وہراس اور بے یقینی پھیلانے کے باوجود حکومتی تبدیلی کے اہداف حاصل نہ کر سکے ہر لانگ مارچ اور دھرنے کی وجوہات الگ ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات مشترک ہے کہ سبھی اپنی عوامی طاقت سے اقتدار چھیننے آئے لیکن نئے حالات میںاب اسلام آباد پر چڑھائی سے حکومتیں رخصت کرنے کا امکان بلکل ہی معدوم ہو چکاہے۔
نواز شریف اور عمران خان کے دورِ حکومت میںہر لانگ مارچ اور دھرنے سے ریاستی کمزوری کا تاثر اُجاگر ہوا مگر حالیہ لانگ مارچ سے قائم اُس تاثر کی یکسر نفی ہوئی ہے بلکہ ریاست سب سے طاقتور ہے قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے بپھرے ہجوم کو اِس طاقت کا ثبوت دیا ہے اب اِسے کو ئی چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی قراردے یا آزادی اظہارکی نفی کہے ریاست نے اپنی رٹ منواکردکھائی ہے جس سے عالمی سطح پر کمزور ریاستی رٹ کا آموختہ پڑھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی کیونکہ عالمی طاقتیں اکثر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے بارے خدشات و اندیشوں کا ظہار کرتی رہتی ہیں کہ کوئی بھی گروہ اُٹھ کر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پرنہ صرف قبضہ کر سکتاہے بلکہ دنیا کو بلیک میل بھی کر سکتا ہے حالیہ لانگ مارچ روکنے کے لیے اختیا رکیے گئے حربے جائزہیں یا ناجائز ،اِس کی تفصیل میں جائے بغیر اختصار سے بات کریں تو ریاستی اِداروں نے ثابت کر دیا ہے کہ اُن میں اتنی استعداد ہے کہ وہ کسی بھی اندرونی گروہ یا قوت کو کچلنے پر قادر ہیں یہ ایک بہت اچھا پیغام ہے جس سے عالمی برادری کا پاکستا ن کے جوہری ہتھیاروں کے متعلق قائم کیے غیر محفوظ ہونے کے تاثرکو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
نتائج و اثرات کا جائزہ لیں تو بظاہر جو یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ بُری طرح ناکام ہو گیا ہے ایسی کوئی بات نہیں بلکہ یہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان والی بات ہے اقتدار کی تبدیلی کامقصد بڑی حد تک پہلے ہی حاصل ہو چکا ہے لیکن حکمران اِس طرح اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ نہ کہے کہ مسائل حل کرنے کی اُن میں صلاحیت ہی نہیں اور اُنھیں حریف سیاسی قوت نے زبردستی اقتدار سے بے دخل کیا ہے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں عوام بدظن ہو سکتی ہے عمران خان نے جلدبازی میں مارچ بھی اسی لیے شروع کیا تاکہ حکومت بدلنے کا کریڈٹ لیکر عوام کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں مگر رخصتگی کے لیے اِداروں سے فیس سیونگ چاہنے والے اب جانے کی جلدی میں نہیں اور اِداروں کے سوا تبدیلی کا کسی کو کریڈٹ لینے سے روکنے کا تہیہ کر چکے ہیں حال ہی میں خورشید شاہ نے بھی کہا کہ کسی اور کو کسی نے حکومت دینی ہے تو دے لیں ہم جانے کو تیار ہیں لیکن وہ بھی عمران خان کو دوبارہ اقتدار ملتا نہیں دیکھنا چاہتے اسی وجہ سے پہلے سے حاصل شدہ نتیجہ بھی جون کے آغاز تک ملتوی ہو گیا ہے۔
عمران خان کا اولین مطالبہ فوری عام انتخابات ہیں اِس مطالبے کی طرف عملی طور پر پیش رفت شروع ہو چکی ہے ٹیکنو کریٹ حکومت کے لیے سابق وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا نام گردش کر رہا ہے انتخابی اصلاحات ای وی ایم اوراوورسیز ووٹ کا خاتمہ کردیا گیا ہے نیب کے اختیارات بھی محدود کیے جاچکے خواجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر بناکر الیکشن کمیشن کے دونوں ممبران نامزد کر دیے گئے اب چیئرمین نیب کے عہدے پر فواد حسن فواد ،قمرالزمان اور بشیر میمن جیسے گھر کے فردکو لانے پر کام جاری ہے عجلت میں ہونے والی انتخابی ترامیم اور نامزدگیوں کی بناپر اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ حکمران اتحاد عوام کے پاس جانے کو آمادہ و تیارہے مگر یہ آمادگی اور تیاری لانگ مارچ سے خوف کا نتیجہ نہیں بڑی وجہ ملک کی خراب معاشی حالت ہے خرابی اِس حد تک پہنچ گئی ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض کی مزید قسط جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے تبھی حکومت نے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کافیصلہ کیا حالانکہ قبل ازیں پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے سے انکاری تھے اور مجبوری کی صورت میں اِداروں پر ساتھ دینے کی شرط عائد کررکھی تھی لیکن لانگ مارچ کو بزور طاقت کچلنے سے حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے میڈیا کی طرف سے حکومت پر تنقید کی بجائے مہنگائی پر حوصلہ افزائی کا تاثر ہے حالانکہ ڈیڑھ ماہ کی حکومت میں تین بار بجلی کی قیمت بڑھائی جا چکی اب اچانک پیٹرول کی قیمت میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ سے ملک میں مہنگائی کاطوفان آجائے گا خوردنی اشیا کے علاوہ تعمیراتی سامان جیسے سیمنٹ ،سریا وغیرہ کے نرخ بڑھ جائیں گے مزید خوفناک خبر یہ ہے کہ اگلے چند دنوں میں وقفے وقفے سے پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کی خبریںہیں جس سے ممکن ہے حکمران تو پُراعتماد رہیں لیکن عوامی اعتماد رخصت ہو جائے گاجس کا خمیازہ عام انتخابات میں حکمران اتحاد کو بھگتناپڑے گا۔
تحریک ِ انصاف کے بارے عمومی خیال یہ ہے کہ اِس کے کارکن مذہبی جماعتوں کی طرح سخت جان نہیں بلکہ پیزابرگر قسم کے نازک مزاج ہیں لیکن پچیس مئی کو پیش آنے والے واقعات نے ایسا سوچنے والوں کوپہلی بار اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے پرمجبور کر دیاہے اگر حکومتی اِداروں نے سفاکی و بربریت کا مظاہرہ کیا ہے تو کارکنوں نے بھی سرنڈر کرنے یا فرار ہونے کی بجائے ٹھیک ٹھاک ثابت قدمی دکھاتے ہوئے مقابلہ کیا ہے جس پر اب شاید ہی کوئی اِس جماعت کو آسان ہدف سمجھے عمر رسیدہ اور بیماریاسمین راشد جیسی خاتون تک نے کمزوری نہیں دکھائی نہ ہی پولیس تشددسے خوفزدہ ہوئیںعمر ایوب خان ،حماد اظہراور زبیر نیازی جیسے نازک اندام بھی تشدد کے باوجود نہیں لڑکھڑائے اور ثابت قدم رہے حالیہ لانگ مارچ سے پی ٹی آئی ہجوم کی بجائے جماعت بنتی نظر آئی ہے اِس لیے آئندہ اِسے آسان یا کمزور ہدف سمجھنے کی کبھی کوئی غلطی نہیں کرے گا۔
شہباز شریف عام انتخابات کی طرف جانے کوذہنی طورپر تیار میں ہیں اسی لیے فائدہ دینے والے کام سرعت سے کیے جارہے ہیں خراب حالات کے باوجود عمران خان کا فوری عام انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے چاہتے ہیں کہ کوئی اُنھیں اقتدار سے بے دخل کر دے تاکہ جب عوام کے پاس جائیں تومظلومیت اور ہمدردی کے ووٹ لے سکیں لانگ مارچ کے شرکا سے بہت زیادہ سختی کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کہیں اگر مداخلت کی کہیںسوچ پنپ رہی ہے تو انھیںجواز فراہم کیا جائے پولیس نے تحریک انصاف کے رہنمائوں کے ساتھ کارکنوں کی جی بھر کر دھلائی کی لیکن کسی طرف سے کوئی سرگرمی نہ ہوئی جس پر حکمران اتحاد کافی حیران ہے حالیہ لانگ مارچ سے اِداروں کا غیر جانبداری کا بیانیہ درست ثابت ہوا ہے لیکن ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ن لیگ ،پی پی اور جمعیت علمائے اسلام کے بعد تحریکِ انصاف بھی مقتدرہ سے بدظن ہو چکی ہے قوم پرست پہلے ہی ناقدہیں جس سے ممکن ہے اِدارے اپنی حدود وقیود کے تو مقید ہو جائیں لیکن عوامی پذیرائی سے محرومی اُن کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر