وجود

... loading ...

وجود
وجود

انتخاب کرلیں

بدھ 18 مئی 2022 انتخاب کرلیں

پاکستان اور سری لنکا دوالگ الگ ملک ہیں اِن میں چند برس پیشتر تک ترقی پذیر ہونے کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں تھی مگرآجکل دونوں کوہی معاشی بحران کاسامنا ہے اسی وجہ سے کافی عوامل اور مسائل ایک جیسے نظرآتے ہیں فرق بس اتنا رہ گیا ہے کہ سری لنکا جس قسم کے معاشی بحران سے دوچار ہے وہ دیوالیہ ہو چکا ہے مگر پاکستان میں ایسے حالات ابھی نہیں بنے لیکن ایسے حالات دو یا تین ماہ کی دوری پررہ گئے ہیں سری لنکا کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہو نے سے اُس کے عالمی سطح پر نادہندہ ہو نے کا اعلان ہوا زرِ مبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک تیل و گیس تو ایک طرف، کھانے پینے کی اشیاء تک درآمدکرنے سے قاصر ہے اندازہ کریں جس ملک کا خوردونوش کی زیادہ تر اشیا درآمد کرنے پر انحصار ہو وہ کِن حالات سے دوچارہوگا ؟کھانے پینے کی اشیا کی قلت سے یہ ملک خونی مظاہروں کی لپیٹ میںہے دوکروڑ اکیس لاکھ چھپن ہزار کی کُل ملکی آبادی چوبیس گھنٹوں میں صرف دووقت کھانا کھا رہی ہے عوامی غیض و غضب سے طاقتور حکمران خاندان اپنی حرکتوں سے قابلِ رحم حالت کو پہنچ چکا ہے معاشی بحران نہ صرف سیاسی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں خواندگی کے لحاظ سے سرفہرست ملک کے شہری تحمل ،شائستگی اور نفاست تک بالائے طاق رکھ چکے دراصل کویڈ19سے دنیا میں تبدیلیاں آئیں اِن تبدیلیوں سے سیاحت کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی لیکن سری لنکن قیادت نے حالات کا ادراک کرنے کی بجائے سیاحوں کی آمد، ترسیلاتِ زراورمحدودقسم کی برآمدات پر ہی تکیہ رکھا سیاحت ختم ہونے سے اخراجات کے لیے بیرونی قرض لینے شروع کردیے باقی کمی نوٹ چھاپ کردورکرناپڑی لیکن یہ معاشی پالیسی لے بیٹھی افراطِ زر اور مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا کیونکہ طاقتور حکمران خاندان نے رہنماکی طرح کام کرنے کی بجائے نااہل کی طرح اقتدارسے لطف اندوزہونے کا انتخاب کیا نااہل اقتدار سے الگ ہو چکے مگر ملک نے مستقبل میں آگے کیسے بڑھنا ہے؟بے یقینی ہنوزبرقرارہے ۔
پاکستان نے ابتدا میں ہی معاشی مسائل کی وجہ سے قرض لینا شروع کیا قرض حاصل کرنا بُری بات نہیں امریکا،روس اورچین جیسے ملک بھی قرض لیتے ہیں لیکن حکمران عیش و عشرت پر خرچ کی بجائے ایسے پیداواری منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں جن سے برآمدات میںاضافہ اور عام آدمی کی معیارِ زندگی بہتر ہو پاکستان نے بھی شروع میں معاشی و عسکری مجبوری کی وجہ سے قرض لیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعد میں قرض لیکرپیسہ غیر پیداواری منصوبوں کی نذر کیاگیا یوں نہ تو روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور نہ ہی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکاحکمران طبقے کو ڈالر کی ہوس جنون اور بیماری کی صورت اختیار کر گئی قومی معیشت کو قرض کے ڈالروں سے رواں رکھنے کا نتیجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے درآمدات میں اضافہ جبکہ برآمدات میں کمی ہوتی جارہی ہے توانائی بحران صنعتیں رواں رکھنے میں الگ رکاوٹ ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی بنا پر زرعی مصنوعات گندم ،چینی اور کپاس بھی درآمد کی جاتی ہے جس ملک کا حکمران طبقہ اِتنا نااہل ہو وہاں ترقی اور خوشحالی نہیں آتی یہ نااہلی کا نتیجہ ہے کہ باون ہزار ارب کے مقروض ہو چکے اگر ڈالروں کے حوالے سے حساب کریں تو یہ رقم 268 ارب ڈالر بنتی ہے اِ ن میں سے زیادہ تر قرض ملکی اور غیر ملکی ایسے مالیاتی اِداروں کا ہے جو امریکا اور مغربی ممالک کے زیرِ اثر ہیں ہم نے زرا سا روسی کیمپ کے قریب ہونے کی کوشش کی تو اِن مالیاتی اِداروں نے قرض دینے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور کسی وقت بھی ہم سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں آج پاکستان میں پیداہونے والا ہر بچہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اڑھائی لاکھ روپے کا مقروض بن جاتا ہے جس کا حکمران طبقے کو حکمت و تدبر سے حل تلاش کرنا ہو گا کوتاہی کی صورت میں نہ صرف ملک کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ یہی حکمران طبقہ سری لنکا کی طرح عوامی غیض و غضب کا شکار ہو سکتا ہے ملک کی ساکھ کے ساتھ اُن کی اپنی سیاست بھی دائو پر لگ چکی اب یہ حکمرانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو معاشی گرداب سے نکال کر طویل عرصہ اقتدار میں رہنا ہے یاکچھ کرنے کی بجائے تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہونا ہے ابھی وقت بھی ہے اورفیصلہ بھی اُن کے اپنے ہاتھ ہے دنیا کے ساتھ عوام کی نظریں اُن کے روزوشب کا جائزہ لے رہی ہیں اِس لیے جتنی جلدی رہنماکی طرح معاشی مسائل حل کریں وگرنہ نااہلی کے انتخاب سے تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیںگے۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر اِتنی تیزی سے کم کیوں ہو رہے ہیں وجوہات جاننا کوئی مشکل نہیں جب آمدنی سے اخراجات بڑھا لیے جائیں تو ضروریات پوری کرنے کے لیے قرض لینے کی نوبت آتی ہے اور پھر قرض دینے والے ملک یا اِدارے مجبوریوں کا فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں ایک طرف زیادہ شرح سود کے ساتھ قرض دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی ایسی کڑی شرائط بھی لگائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے قرض حاصل کرنے والی ریاست کو پابندکیا جاتا ہے اِ ن شرائط کی بناپر آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرناممکن نہیں رہتا پاکستان نے امریکا کی بجائے روس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تویہ مالیاتی اِدارے ناراض ہو گئے اور مزید قرض دینے کی بجائے پُرانے قرض کی ادائیگی پر بضد ہیں لیکن ملک کی معاشی حالت ایسی نہیں کہ فوری طور پر زرِ مبادلہ کے ذخائر سے اتنی بھاری رقم ادا کی جا سکے اگر ایسا کرتے ہیں تو تیل و گیس کی درآمدات کے قابل نہیں رہیں گے یوں صنعت و زراعت بھی متاثر ہوں گی اگر ماضی کے حکمران رہنما بن کر ملک کی معاشی بنیادیں مضبوط کرتے تو آج نہ صرف پاکستان کا شمار خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا بلکہ اُن کا تاریخ میں زکر اچھے ناموں سے ہوتا مگر انھوں نے رہنماکہلونے کی بجائے محض وقت گزارنے جیسی نااہلی کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں بدنامی کی عمیق گہرائیوں میں جا گرے۔
وقت تیزی سے گزررہا ہے لیکن اب بھی قیادت فیصلے کرنے کی بجائے دن گزارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے پاکستان کے پاس کچھ زیادہ مواقع نہیں رہے وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے کا آپشن درست نہیں اسی وجہ سے ملک کو موجودہ مسائل کا سامنا ہے دوسرا آپشن یہ ہے کہ درآمدات میں فوری کمی لاکر برآمدات بڑھاکر زرِ مبادلہ حاصل کیا جائے اور قرض کی ادائیگی سے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جائے تیسرا یہ کہ نہ صرف غیر پیدواری منصوبے ختم کیے جائیں بلکہ غیر ضروری اخراجات کا سلسلہ بھی ترک کیا جائے چند عالمی اِدارے اگر رضا مند نہیں ہوتے تو دوست ممالک سے ادائیگی میں توسیع لینے کے آپشن پر کام کیا جائے اہلیت ہوتو اِ ن راستوں کا انتخاب کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں صدقِ دل سے کوشش کی جائے تو اچھے نتائج بھی ممکن ہے اگر اقتدار سے لطف اندوز ہونا ہی مقصد ہے اورصرف اپنے خاندان کی آنے والی نسلوں کو خوشحال بنانا ہی ترجیح ہے تو پھر نیک نامی کی توقع مت رکھیں وقت محدود ہے اسی محدود وقت میں انتخاب کر لیں وگرنہ صرف پچھتاوارہ جائے گا۔ ََََ
َََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ََََََََََََََََََََََََََََََََََ ََََََََََََََِِِِِِِِِِ ََََََََََََََََََََََََََََََََََ
َََََََََََََََََََََ


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر