وجود

... loading ...

وجود
وجود

معاشی اور آبی بحران

هفته 14 مئی 2022 معاشی اور آبی بحران

سیاسی کشیدگی میں اِداروں کو بھی ملوث کیا جارہا ہے حالانکہ ملک کا بڑامسلہ سیاسی نہیں معاشی اور آبی بحران ہیں اِن بحرانوں نے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے لیکن سیاسی قیادت فیصلوں میں گومگو کا شکار ہے جو ملک میں بے یقینی اوربے چینی بڑھانے کا باعث ہے ایک طرف معاشی اور آبی بحرانوں کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں تو عمران خان نے فوری انتخابات کے لیے حکومت پر دبائو بڑھا دیا ہے یہ دبائو ہی پیٹرول کی قیمتوں کو استحکام دینے کی وجہ ہے کیونکہ پیٹرول کی قیمت بڑھانے کے عوض کوئی بھی سیاسی قیمت چکانا نہیں چاہتا اسی لیے شہباز شریف مسائل کے متعلق عوامی مزاج کے خلاف نیا فیصلہ لینے میں محتاط ہیں اسحاق ڈار اور خواجہ آصف جیسے لوگوں کی طرف سے اتفاق کے باجود آصف زرداری اصلاحات سے قبل انتخابی میدان میں اُترنے سے گریزاں ہیں جس معاشی حالت خراب ہونے کے ساتھ سیاسی مسائل اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اب وزیرِ اعظم کو ایک طرف عمران خان کے دبائو کا سامنا ہے معیشت دگرگوں الگ پریشانی ہے حکومت نے رواں ماہ مئی میں پانچ ارب ڈالر اوراگلے ماہ جون میں پھرپانچ ارب ڈالرقرض کی ادائیگی کرنی ہے لیکن زرِ مبادلہ کے زخائر دس ارب ڈالر رہ گئے ہیں سیاسی کے ساتھ معاشی بے یقینی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرگراوٹ کا شکارہے ایک طرف آئی ایم ایف قرض پروگرام معطل ہے کیونکہ پیٹرول کی بڑھانے اور ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس کی وصولی جیسا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جارہا تو ساتھ ہی چین نے بھی مزید مالی مدد سے نہ صرف انکار کر دیا ہے بلکہ سابقہ قرض واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاملات سدھارنے کی ہدایت دی ہے سکھر اور ملتان موٹر وے تعمیر کرنے والی کمپنی نے کرپشن الزامات لگانے پرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کوا لگ ادائیگی کانوٹس دے رکھاہے جبکہ چینی آئی پی پیز نے فوری طور پر تین سو ارب کی عدم ادائیگی کی صورت میںبجلی کی پیدوار بند کرنے کا انتباہ دیا ہے اِن حالات میں اگر تصور کرلیتے ہیں کہ حکومت بھاگ دوڑکے زریعے کہیں سے دس یا پندرہ ارب ڈالر نیا قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تو بھی چھ سات ماہ سے زیادہ ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ حالیہ ادائیگی کے بعد درآمدات کے لیے رقوم پھر چند ماہ میں ہی ناکافی رہ جائیں گی اِن حالات میں غیر ضروری درآمدات پر فوری پابندی کا فیصلہ ضروری ہے علاوہ ازیںصنعتی اور زرعی پیدوار بڑھانے پر توجہ دیکر زرِ مبادلہ پر دبائو کم کیا جا سکتا ہے فیصلوں میں جتنی تاخیر ہوگی اتناہی مسائل میں اضافہ اورپھر اُن کا حل مشکل ہوتا جائے گاایسا ہونے سے صرف بے یقینی ،بے چینی اورافراتفری میں ہی اضافہ ہوگا۔
معاشی کی طرح آبی بحران بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدیدتر ہوتا جارہا ہے روہی کے ریگزاروں کی بات کریں یا اندرونِ سندھ کی، یا بلوچستان پر نگاہ دوڑائیںحالات بہت خراب ہیں اِس بارموسمِ گرما چولستان میں موت کا پیغام بن کر آیا ہے بھیڑیں ،بکریاں اور دیگر جانور جابجا پیاسے تڑپتے جانیں دے رہے ہیں غریب لوگ جانوروں کی اموات سے مزیدغربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں لیکن حکومت کو اِس کی شاید کوئی پرواہ ہی نہیں اسی لیے فوری طورپر بہتری کے کوئی آثارنظر نہیں آتے ستلج،راوی ،سندھ تو خشک ریت بن چکے چناب اور جہلم بھی جلد ہی ایسا روپ دھانے والے ہیں سیاسی قیادت آبی جارحیت کا احساس کرنے کی بجائے بے نیاز دکھائی دیتی ہے معاشی تباہی کے ساتھ آبی بحران کاجلد حل نہ نکا لا گیاتو ملک جو پہلے ہی خوراک میں خود کفیل نہیں قحط سالی کا شکار ہو سکتا ہے سیاسی قیادت کو چاہیے کہ زاتی مفادپر قومی مفاد کو مقد م سمجھیں اور ملک کو سری لنکا جیسے حالات کی طرف دھکیلنے سے گریزکریں وگرنہ دنیا کا پہلا جوہری اسلامی ملک انتشار و افراتفری کا شکار ہو سکتاہے مرکز سمیت پنجاب کی صوبائی حکومت نے پانی کی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے اخبارات میںہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی خبر شائع کرانے کے سوا عملی طورپر کچھ نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو بھارت سے آبی جارحیت پر دوٹوک بات کی جاتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے کابینہ لندن جا کر میٹنگیں کر رہی ہے ایسی مصروفیات کسی صورت حکومت کی نیک نامی کا باعث نہیں بن سکتیں ۔
پاکستان آنے والے زیادہ تر دریا ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں جن کا منبع بھارتی علاقہ ہے اسی لیے قائدِ اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن اُن کے بعد آنے والی قیادت نے غیر زمہ داری دکھائی جس کی بنا پر بھارت نے یو این او میں کیے وعدوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے نہ صرف کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کر دی بلکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے 1960 کے فوجی دور میں صدر ایوب خان اور ہندوستانی وزیرِ اعظم نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے تاکہ دونوں ممالک میں پانی کی مساوی تقسیم ہو جس کے تحت جہلم ،سندھ اور چناب تنیوں مغربی دریا پاکستان جبکہ ستلج ،راوی اور بیاس کا پانی بھارتی تصرف میں دے دیا گیااِس معاہدے کی شرائط تسلیم کرانے میں عالمی بینک نے کلیدی کردار ادا کیااور کسی فریق کی طرف سے شرائط کی عدم پاسداری کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی گارنٹی دی مگر پاکستان نے جب بھی بھارتی ناانصافی کے لیے گارنٹر سے رجوع کیا تو عالمی بینک نے عدم دلچسپی ظاہر کی اسی بنا پر بھارت آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا اور پاکستان شدید آبی قلت کا شکار دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں شامل ہوگیا ہے اگر عالمی بینک غیر جانبداری اور انصاف سے کام لیتا تو آج اتنی حق تلفی نہ ہو رہی ہوتی۔
بھارت کو آبی جارحیت کا موقع خود سیاسی قیادت نے نااہلی ،غیر ذمہ داری اور تساہل سے دیا ہے جو آبی ذخائر کی تعمیر میں مسلسل کوتاہی کی مرتکب ہوئی اگر آبی ذخائر کی تعمیر میں کوتاہی نہ کی جاتی تو سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب آج پانی کے لیے ایسے نہ تڑپ رہے ہوتے پاکستان نے جب بھی کسی عالمی اِدارے سے رجوع کیا تو بھارت کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ پاکستان تو پانی استعمال کرنے کی بجائے سمندر میں پھینک دیتا ہے اِس لیے ضائع جانے والا پانی اگر ہم استعمال کرلیتے ہیں تو کیا مضائقہ ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدے کی ایک شرط یہ ہے کہ کوئی بھی فریق تقسیم شدہ دریائوں پر یکطرفہ منصوبہ نہیں بنا سکتا بلکہ دوسرے فریق کو اعتماد میں لے کرہی منصوبہ شروع کرسکتا ہے لیکن کشمیر پر کیے وعدوں کی طرح بھارت سندھ طاس معاہدے کی پاسداری سے بھی انکاری ہے اور بات چیت کے زریعے وقت حاصل کرتا ہے اسی بناپر آج پاکستان کے کئی علاقوں میں قحط کی نوبت آگئی ہے سندھ کے زرعی علاقوں میں کاشت کاری کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا ۔
کچھ منصوبوں پر بھارت نے کا م شروع کیا تو پاکستان نے اعتراض کرنے میں ہی اتنی تاخیر کر دی کہ عالمی بینک نے مداخلت غیر ضروری سمجھ کر شکایت نظر انداز کر دی مگر پاکستانی قیادت کواب الارمنگ صورتحال کاادراک کرنا چاہیے وگرنہ میدانِ جنگ میں شکست نہ دینے والا بھارت آبی جارحیت سے پاکستانیوں کو بھوکا مارنے میں کامیاب ہو جائے گا نیوریارک میں منعقد ہونے والی غذائی کانفرنس میں بلاول بھٹو کو لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک انداز میں بھارتی چیرہ دستیوں پر با ت کرنی چاہیے کیونکہ ملک کے کئی علاقے پانی کی قلت کا شکار ہیں جس سے زرعی پیداوار متاثر ہورہی ہے علاوہ ازیں پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر کالا باغ ڈیم پر کام شروع کر دینا چاہیے خوش قسمتی سے یہ قدرتی طور پر بنا بنایا ڈیم ہے جس کے لیے ایک سے زائد عالمی اِدارے فنڈز دینے پر آمادہ ہیں اگر مزید عرصہ سمندری پانی کے اوپر آنے ، بدین ،سجاول اور ٹھٹھہ کی زمینوں کے متاثر ہونے جیسی باتیں ہی ہوتی رہیں تو حالات مزید خراب ہو تے جائیں گے آج تو کالاباغ ڈیم جیسا قابلِ عمل منصوبہ ہے کل کو کہیں یہ موقع بھی کھو دیاتو آنے والی نسلیں سیاسی قیادت کو معاف نہیں کریں گی ہم ایک ڈیم بناتے بحث میں الجھ کر کئی دہائیاں ضائع کر چکے جبکہ دشمن ہماری غفلت سے فائدہ اُٹھا کر لداخ اور جموں و کمشیر میں دریائے سندھ پر مزید آٹھ آبی منصوبے شروع کر رہا ہے جن پر وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پر اعتراض کرنے کی ضرورت ہے یادرکھیں جو بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اب معترض ہے سمجھ لیں اُسے پاکستان یا پاکستانیوں سے سروکار نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر