وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلدیاتی قیادت سے خوف

هفته 16 اپریل 2022 بلدیاتی قیادت سے خوف

عدالتی فیصلے کی رو سے الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا اعلان کردیاہے اِ س لیے جلد بلدیاتی اِداروں کے فعال ہونے کی توقع ہے تمام حکمران ہی شہریوں کو نچلی سطح پر اقتدار میں شرکت کا احساس دلانے کے لیے بلدیاتی اِداروں کو مضبوط اور بااختیار بناکر ترقیاتی رقوم دینے کے وعدے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کبھی نہیں ہوا ملکی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالیں یا تو کسی نے عوامی تحریک کارُخ موڑنے کے لیے مجبوری کے تحت بلدیاتی الیکشن کاسہارہ لیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر بلدیاتی نمائندوں کی بیساکھیاں استعمال کیں خوشی سے کسی نے بھی نچلی سطح پر اختیارات دینے کی کوشش نہیں کی حکومتیں بدلتی رہیں لیکن بلدیاتی نظام کی افادیت تسلیم کرنے کے باوجود کسی کو یہ اِدارے فعال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بلدیاتی اِداروں کو کمزور کرنے میں جمہوری اور غیرجمہوری حکمرانوں کا رویہ اورکردار ایک سارہا ہے حالانکہ اِن کے بغیرعوامی حکمرانی کا تصور نامکمل ہے۔
1911انگریز دورمیں پنجاب میں میونسپل ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت بلدیاتی اِداروں کاقیام عمل میں لاکر مقامی نوعیت کے محدود اختیارات تفویض کیے گئے قیامِ پاکستان کے بعداِن کی ڈسٹرکٹ بورڈ کی صورت میں موجودگی برقرار رہی اور ایوب خان نے اپنے حامی افراد کو نمایاں کرنے کا ذریعہ بنایا 1960کے میونسپل ایڈمنسٹریشن ایکٹ کے تحت بلدیاتی اِداروں کے وائس چیئرمین منتخب جبکہ چیئرمین سرکاری آفیسر ہوتے کمشنر کے پاس کارپوریشن کی چیئرمینی بھی ہوتی اے سی یا علاقہ مجسٹریٹ میونسپل کمیٹی کے چیئرمین جبکہ ضلع کونسل میں چیئرمین کا منصب ڈی سی کے پاس ہوتا یحیٰ خان نے بلدیاتی اِدارے توڑ کر الیکشن کرانے کی کوشش نہ کی زوالفقار علی بھٹو نے بھی بلدیاتی اداروں کے الیکشن کرانے میں دلچسپی نہ لی پنجاب پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1972پاس کرایالیکن خود ہی عملدرآمد نہ کیا 1975میں دوبارہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ بنایا جس کے تحت اِدارے کام ضرور کرتے رہے لیکن کبھی انتخابات نہ ہو سکے 1979 تک اسی ایکٹ کے تحت سرکاری ملازمین کے زریعے معاملات چلائے گئے جنرل ضیاالحق نے سیاسی قیادت کا خلا پُر کرنے اوراپنی عوامی حمایت بڑھانے کے لیے 1979 کے نئے نظام کے تحت الیکشن کرائے اور 17 جنوری 1980میں اِدارے فعال کیے 1983 میں دوبارہ الیکشن کرادیے پھر 1987اور 1991میں بھی اسی نظام کے تحت الیکشن ہوئے لیکن اسمبلیوں کی طرح کبھی مدت پوری نہ کرسکے۔
12اکتوبر 1999کو پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال کر اسمبلیوں کے ساتھ ہی بلدیاتی اِدارے بھی توڑ دیے جوں جوں سیاسی قیادت نے دبائو بڑھایاتو بلدیاتی اِداروں کی ضرورت محسوس ہونے لگی بڑے غوروفکر کے بعد ضلعی حکومتوں کے نظام کے تحت الیکشن کرائے گئے جنھیںچودہ اگست 2001کو چارج دیا گیااِس دور میں ضلعی ناظمین کو ضلعی سطح پراہم شعبوںصحت ،تعلیم ،ریونیوسمیت کئی اہم اختیارات دیے گئے بدقسمتی سے دوسری بار ضلعی ناظمین منتخب تو ہوئے مگر مدت پوری نہ ک سکے اگر یہ سلسلہ چند برس مزید قائم رہتا تو اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم سے عوامی مسائل بڑی حد تک حل ہوجاتے لیکن 2008کے عام انتخابات کے بعد شہباز شریف نے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوتے ہی نہ صرف بلدیاتی اِداروں کے اختیارات سلب کر لیے اور عملی طور پر انھیں معطل کیے رکھالیکن توڑنے کی جرات اِس لیے نہ کر سکے کیونکہ اِ س کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت تھی پنجاب اور مرکز میں اقتدار کے تین برس گزارنے کے بعدمسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے دبائو پر بلدیاتی الیکشن تو کرادیے لیکن اقتدار دینے میں بہت تاخیر کر دی منتخب بلدیاتی قیادت نہ ہونے کی بناپر پنجاب میں اب بھی بلدیاتی اِدارے عملی طور غیر فعال اورمحض نمودونمائش تک محدود ہیںجس کی بڑی وجہ ممبران اسمبلی ہیں جو کسی صورت مقامی اِداروں کو فعال نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر یہ فعال ہوجاتے ہیں تو ممبران اسمبلی کی ترقیاتی منصوبوں میں مداخلت ختم ہو سکتی ہے اسی لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ بلدیاتی اِداروں میں منتخب نمائندے نہ ہوں تاکہ اسمبلی ممبران کو فنڈز پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملتا رہے ۔
تحریکِ انصاف کی قیادت نے ہمیشہ بلدیاتی اِداروں کی افادیت کی وکالت کی لیکن اقتدار کے دوران پنجاب میں بلدیاتی اِداروں کو عضومعطل رکھاجس کی وجہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت کی وابستگی مسلم لیگ ن سے تھی اِس لیے بغیر سوچے سمجھے بلدیاتی قیادت کو غیر قانونی اقدام سے گھر بھیج دیا گیا حالانکہ سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان میں بلدیاتی نمائندے کام کرتے رہے خیر ملکی تاریخ میں آج تک کسی بھی حکومت نے بروقت بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے پی ٹی آئی بھی اسی روش پر گامزن رہی سابقہ حکومتوں کی طرح بلدیاتی قیادت سے پی ٹی آئی بھی خوفزدہ رہی حالانکہ عمران خان اکثر تقاریر میں گُڈ گورننس میں بلدیاتی اِداروں کی اہمیت پر بات کرتے یہ کہتے رہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات ہوگی لیکن چوالیس ماہ کے اقتدار میں اپنے عزم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔
مئی 2019میں پنجاب اسمبلی نے بلدیاتی نظام میں نیا ترمیمی قانون منظور کیا مگر بلدیاتی قیادت کے خوف نے حکومت کو انتخابی میدان میں اُترنے نہ دیاحالانکہ عثمان بزدار نے ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد خود یہ کہا تھا کہ مصلحتوں کی بنا پر سابقہ ادوار میں ایسے مفلوج بلدیاتی اِدارے تشکیل دیے جاتے رہے جن کے پاس عوامی مسائل کے حل کے لیے نہ تو اختیارات ہوتے اور نہ ہی انھیں مطلوبہ فندز دیے جاتے تھے مگر نئے نظام کے تحت تیس فیصد فنڈ زگائوں کی سطح تک دیں گے لیکن کہے کا پاس کرنے کی بجائے عملی طور پر بلدیاتی انتخاب نہ کرائے حالانکہ وہ خود بھی بلدیاتی اِداروں سے منسلک بطور تحصیل ناظم فرائض اداکرتے رہے ہیں اب نئے وزیرِ اعلٰی نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی تو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ نے جولائی 2021میں بلدیاتی اِداروں کی بحالی کا تفصیلی فیصلہ سنایا مگر حکومت نے عمل کی بجائے تاخیری حربے آزمائے اور بلدیاتی نمائندوں کو مکمل بحال کرنے کی بجائے ایڈ منسٹریٹرز بٹھا دیے جس کے خلاف دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا توبحالی کے نوٹیفکیشن کی عبارت پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے تحقیقات کرانے اور معاملے کی تہہ تک جانے کا عندیہ دیا تب جا کر مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کیا گیااب اگر پنجاب حکومت کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے تو توہینِ عدالت کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔
بلدیاتی اِداروں سے اسمبلی ممبران کا خوف بلاوجہ ہے کیونکہ اختیارات کی تقسیم سے مسائل ذیادہ تیزی سے حل ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر آج کل مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن پرائس کنٹرول کمیٹیاں عملی طورپر کہیں فعال نظر نہیں آتیں اکثر خودنمائی تک محدود ہیں یہ خلا بلدیاتی قیادت باآسانی پورا کر سکتی ہے قیمتوں پر کنٹرول سے لیکر مارکیٹ میں اشیا کی مصنوعی قلت ختم کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے کیونکہ گندم ،چاول ،چینی ،دالیں اور سبزیاں اور گوشت موجود ہے بس سپلائی چین بہتر بنانے کی ضرورت ہے لیکن بلدیاتی قیادت کی عدم موجودگی سے یہ ممکن نہیں ہورہا یادرہے جب تمام اِدارے اپنی حدود میں رہیں گے اور فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کے ارتکاب سے گریز کریں گے تو ہی بہتر طریقے سے مسائل پر قابو پا یا جا سکتا ہے لیکن اِس کے لیے ممبران اسمبلی کو ذہن پر طاری خوف سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر