وجود

... loading ...

وجود
وجود

بڑھتا آئینی و سیاسی بحران

بدھ 06 اپریل 2022 بڑھتا آئینی و سیاسی بحران

شام کے وقت28اپریل 1977کوپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم زوالفقار علی بھٹو نے انکشاف کیاکہ عربوں کو ہتھیار دینے اور ویت نام کے مسلہ پر ساتھ نہ دینے کی بناپر ہاتھی(امریکا) مجھ سے ناراض ہوگیا ہے ایٹمی پروگرام کو ہدایات کے مطابق ختم نہ کرنے کی پاداش میں ہنری کسنجر پہلے ہی اُنھیں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دے چکے تھے پھر جلدہی پاکستان سیاسی بحران کا شکارہوگیا پی این اے کی تحریک کے تانے بانے بیرونِ ملک مل رہے تھے اسی بحران کی آڑمیں جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھال کیا اورچار اپریل کو معزول وزیرِا عظم زوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ عالمی طاقتیں دنیاپرغلبہ رکھنے کے لیے ترقی پزیر ممالک میں آزادنہ فیصلے کرنے والی قیادت کی بجائے ایسی ہمنوا قیادت کی متمنی رہتی ہیں جو اُن کی مرضی و منشا کے مطابق داخلی و خارجی پالیسیاں تشکیل دے اِس کے لیے مالی معاونت بھی کی جاتی ہے پی این اے کی تحریک کے دوران ایک تیس لاکھ کا چیک حکومتی اِداروں کو ملا جوایک بیرونی حکومت کی طرف سے ایک مزہبی جماعت کے سربراہ کو ملنا تھا اسی طرح واشنگٹن سے ایک ایسا ٹیلی گرام بھی آیا جس میں فوجی آفیسران کی تعیناتیوں کے متعلق کچھ ہدایات تھیں نہ صرف تعیناتیوں بلکہ ریٹائر منٹ تک کے متعلق تجاویز درج تھیں جن کی مفصل تفصیلات آئی ایس آئی کے بریگیڈئر ارشاد ترمذی نے اپنی لکھی کتاب حساس اِدارے میں لکھ دی ہیں اِس لیے یہ دریافت کرناکہ کسی ملک کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کی کیا ضرورت ہے؟ایک احمقانہ سوال ہے پاکستان ایک حسا س خطے میں واقع ہے جہاں چین ایک ایسی اُبھرتی طاقت ہے جو امریکہ کو ناپسند ہے اسی لیے وہ چینی رسوخ کو محدود کرنے کے لیے ہردم کوشاں رہتا ہے لیکن ہنوز ہربارتمام کاوشیں ناکامی سے دوچار ہیںامریکہ کی اولیں کوشش ہے کہ بھارت دیگر اطراف کی بجائے اپنی توجہ صرف چین پر مبذول کرے مگر پاکستان کی صورت میں ایک طاقتور خطرہ بھارت کو ایسا کرنے سے روکتا ہے اِس لیے پاکستان میں ایسے حالات بنائے جارہے ہیں کہ بھارت سے تصفیہ طلب معاملات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی توجہ صرف معیشت پر دے لیکن باوجود کوشش کے پاکستان ایسا کرنے پر آمادہ نہیں۔
رواں برس 27اپریل کی شب عمران خان نے اسلام آباد میں بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں بھیجے گئے ایک خط میں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ برسرِ اقتدار رہتے ہیں تو پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے اگر عدمِ اعتماد کے زریعے ہٹادیا جائے توپاکستان کی تمام غلطیاں معاف کی جا سکتی ہیں شروع میں تو ملک کانام لینے سے گریز کیا گیا لیکن بعد میں ابہام دور کردیااور کہا کہ دھمکی آمیز خط امریکہ سے آیا ہے جس میں ملاقات کی تفصیلات درج ہیں پاکستان جہاں خط کے حوالے سے بڑی لے دے ہو رہی ہے امریکا نے محض ایک ڈھیلی ڈھالی تردید پر اکتفاکیاہے ابھی حال ہی میں امریکی عہدیدارانڈرسیکرٹری ڈونلڈلو نے خود تسلیم کیا ہے کہ روسی جارحیت کے خلاف ووٹ دینے سے گریز پر انھوں نے پاکستانی سفارتی حکام سے رابطہ کیا اور سفیر سے مل کر سخت باتیں کی ہیں بھارت کے دورے کے دوران ان سے میڈیا کے نمائندوں نے خط کے متعلق دریافت کیا تو تصدیق یا تردید کی بجائے خاموشی اختیار کرلی ظاہرہے یہ رضا مندی ہے اِس کا مطلب ہے کہ لکھا جانے والا خط درست ہے وگرنہ امریکہ تردید کرنے میں اتنی تاخیر ہر گز نہ کرتا سری لنکا نے بھی روس کے خلاف ووٹنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا تو وہاں آجکل حالات سخت کشیدہ ہیں اورمعیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ایسا لگتا ہے پاکستان سے بھی سری لنکا جیسا حربہ ہونے ولا ہے جس کی ابتدا سیاسی آئی ایم ایف کی طرف سے قرض پروگرام موخر کرنے سے ہوچکی ہے ۔
بتانے والی اصل بات یہ ہے کہ سات مارچ کو خط آتا ہے اور آٹھ مارچ کو تحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہوجاتی ہے یہ ٹائمنگ بڑی اہم ہے تحریکِ عدمِ اعتماد پر ووٹنگ سے قبل وزیرِ قانون و اطلاعات فواد چوہدری نے وقفہ سوالات شروع ہونے کے بعداسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی مداخلت سے عدمِ اعتماد کی تحریک لائی گئی ہے لہذا پہلے اسپیکر اِس سازش کا جائزہ لیں کہ کسی دوسرے ملک کی مداخلت سے حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے کیونکہ منتخب حکومت کو گرانے کے لیے آرٹیکل 5کے تحت بیرونِ ملک سے مدد حاصل کرنا غداری کے زمرے میں آتاہے جسے درست قرار دیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے عدمِ اعتماد کی تحریک مسترد کرتے ہوئے اجلاس ہی برخواست کر دیااِس کے چند لمحے بعد ہی وزیرِ اعظم حکومتی ٹی وی پر آتے ہیں اور صدر کو اسمبلی توڑنے کی اٰیڈ وائس بھیج کرعوام کو نہ گھبرانے کا مشورہ دیتے ہیں ایڈوائس ملتے ہی صدر عارف علوی حاصل اختیارات کے تحت اسمبلی توڑ کر وزیرِ اعظم اور کابینہ ختم کر دیتے ہیں ساتھ ہی نگراں سیٹ اَپ آنے تک عمران خان کو کام جاری رکھنے کا فرمان جاری کردیاجاتا ہے اب معاملات سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں اسمبلی بحال ہوتی ہے یا نہیں ہر دو صورتوں میں ملک میں آئینی و سیاسی بحران بڑھتا نظر آتا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے کافی تبدیلیاں کی ہیں اول امریکہ کے علاوہ روس سے بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے دوم یوکرین پر روسی حملے کی حمایت یا مذمت کی بجائے غیر جانبداری اختیار کی ہے سوم چین سے قریبی تعلقات میں وسعت پیداکی ہے جس سے امریکہ کو نظر انداز کرنے کا تاثر اُجاگر ہواہے ظاہر ہے مزکورہ تینوں اقدامات امریکی مفادات کے منافی ہیں روس یوکرین جنگ پر پاکستان کو پوزیش واضح کرنے کے لیے مغربی ممالک نے سفارتی زبان میں اپیل کرنے کی بجائے لکھے خط میں حکومت سے جنگ کی مذمت کر نے کاحکمیہ انداز میں مطالبہ کیا جس پر پاکستان نے شدید تشویش ظاہر کی جس پر خط لکھنے والے سفرا کو بعدازں معذرت کرناپڑی پاکستان نے قومی سلامتی کی میٹنگ میں امریکی ہدایات کے بارے لکھے خط کا جائزہ لے کر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ امریکی ناظم الا امور کو دفترِ خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ بھی تھمایا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے دبائو کاضرو سامنا ہے مگر پاکستان دبائو کو اہمیت نہیں دے رہا جس سے مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے حالیہ آئینی و سیاسی بحران میں قومی اسمبلی میں امریکا مخالف نعرے لگ چکے اور وہ کیا چاہتا ہے۔
امریکہ ایک عالمی طاقت ضرور ہے لیکن اُسے کسی ملک کی آزادی و خودمختاری پامال کرنے کی کوئی بھی اجازت نہیں دے سکتا صدر ٹرمپ نے سعودی فرمانروا کو دفاعی حوالے سے تضحیک کا نشانہ بنایا حالانکہ وہ امریکی بلاک کا حصہ ہے جبکہ پاکستان کی پالیساں امریکہ مخالف نہیں آزادانہ ہیں اور ترکی سے مماثلت رکھتی ہیں جو آزادانہ موقف رکھنے کے ساتھ واشنگٹن سے اچھے تعلقات رکھنے پر یقین رکھتاہے لیکن امریکہ پھربھی پاکستان سے غیر مطمئن ہے حالانکہ پاکستان نے روس افغان جنگ میں امریکی آلہ کار بن کر ڈھیروں مالی و جانی نقصان اُٹھایا ہے اگر پاکستان خدمات پیش نہ کرتا تو آج امریکہ ہر گز دنیا کی واحد سُپر طاقت نہ ہوتا امریکہ کو ہر گز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر شام اور ایران کے حکمران امریکی مخالفت کے باوجود نہ صرف ثابت قدم اور اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں تو پاکستان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا اور پھر ثابت قدم رہنا بھی زیادہ مشکل نہیں اِس میں شائبہ نہیں کہ عرب بہار کے پسِ پردہ بھی امریکی منصوبہ اور ہاتھ تھا جس کا مقصد عرب حکمرانوں پر دبائو بڑھانا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا تھا
لیکن عرب ممالک اور پاکستان کی فوجی قوت میں فرق ہے پاکستان تمام تر معاشی کمزوریوں کے باوجود علاقے کی جوہری طاقت ہے جسے خطے میںمخالف بنا کرکسی اور کا نہیںامریکااپنے مفاد کا نقصان کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر