وجود

... loading ...

وجود
وجود

جنگ کی تباہ کاریوں میں سفارتی عیاریاں

پیر 14 مارچ 2022 جنگ کی تباہ کاریوں میں سفارتی عیاریاں

یوکرین پر روسی حملے میں شدت کے ساتھ امریکہ، فرانس، اسرائیل اور ترکی نے تنازعے کے سفارتی حل کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔روسی قیادت اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر چکی ہے کہ ’کیف اگر کسی بھی لمحے ماسکو کے مطالبات تسلیم کر لے تو یوکرین پر روسی حملہ روکا جا سکتا ہے ‘۔
سفارت کاری کا آغاز کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے مالڈووا سمیت نیٹو کے اتحادی ملکوں پولینڈ، لتھونیا اور لیٹویا کا دورہ کیا۔انہوں نے خبردار کیا کہ روس اگر یوکرین کے خلاف جارحیت سے باز نہ آیا تو ماسکو پر مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ امریکہ، روس سے تیل خریدنے پر پابندی پہلے ہی لگا چکا ہے ۔ادھر ترکی کا یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ رواں ہفتے کے اواخر میں روس اور یوکرین کے وزرائے خارجہ ترک شہر انطالیہ میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ فرانس اور اسرائیل کی قیادت بھی روسی صدر سے بات چیت کر رہی ہے۔دریں اثنا فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے روسی صدر ولادی میر پوتن سے اتوار کے روز دو گھنٹے فون پر بات کی۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد پوتن سے میکروں کا یہ چوتھا رابطہ تھا۔میکروں نے بین الاقوامی قانون جنگ کا احترام کرتے ہوئے انسانی بنیادوں پر فوجی کارروائی روکنے کے مطالبے کے ساتھ یوکرین میں ایٹمی تنصیبات کی حفاظت پر زور دیا۔فرانس کے پاس روس کو مائل کرنے کے لیے اگرچہ کوئی تیر بہ ہدف گیدڑ سنگھی نہیں، تاہم مغربی دنیا کی اہم فوجی طاقت ہونے کے باعث ماسکو سے برابری کی سطح پر بات کر رہا ہے ۔
روسی صدر کی نفسیات کو سمجھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ پوتن صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ میکروں روسی صدر سے رابطہ فرانسیسی صدر کی حیثیت میں کرتے ہیں، وہ یورپ کے نمائندہ بن کر روس سے بات نہیں کرتے ۔دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے بھی روس یوکرین تنازع حل کے لیے جاری سفارت کاری مہم کے سلسلے میں ہفتے کے روز ماسکو کا خفیہ دورہ کیا۔کریملن میں تین گھنٹوں پر محیط نفتالی ۔ پوتن ملاقات روس اور اسرائیل کے درمیان اچھے تعلقات کی غمازی کرتی ہے ۔یوکرینی صدر زیلنسکی خود بھی یہودی ہیں، تاہم ان کے متعدد مقربین خاص کی اسرائیلی شہریت انہیں صہیونی ریاست کی آنکھوں کا تارا بنانے کے لیے کافی ہے ۔
اسرائیل کو یوکرین میں بسنے والے دو لاکھ سے زائد یہودیوں کا تحفظ بھی عزیز ہے ، جسے وہ ثالثی کے شوق میں قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ادھر ماسکو اور تل ابیب کو شام میں ایرانی رسوخ کے خلاف مشترکہ اقدام کی خاطر ایک دوسرے کا تعاون درکار ہے ۔ کئی معاملات میں اسرائیل کا روس پر انحصار ہے ۔شام میں سکیورٹی رابطہ کاری ہو یا ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات، اسرائیل اس حوالے سے روس کے ساتھ میز پر بیٹھا نظر آتا ہے ۔ جنگ کے دوران ایک ثالث کے طور پر سامنے آنا، خود اسرائیل کے لیے بھی بارودی سرنگ ثابت ہو سکتا ہے ۔
یوکرین اور روس تنازعے کے حل کی خاطر جاری سفارتی کوششوں کا تیسرا اہم پڑاؤ انقرہ ہے ۔ ترکی کے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انقرہ نے حال ہی میں یوکرین کو ڈرون فروخت کیے ، جس پر ماسکو نے ناک بھوں چڑھائی۔
سفارتی کوششوں کے ضمن میں جس فون کال کے ذریعے صدر پوتن کے ذہن میں پکنے والی کھچڑی سے متعلق آگاہی ملتی ہے ، وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے اپنے روسی ہم منصب کو کی گئی تھی۔صدر اردوغان نے ولادی میر پوتن پر زور دیا کہ وہ ترک میزبانی میں انسانی راہداری کھولنے کے لیے امن معاہدے پر دستخط اور فائر بندی کا اعلان کریں۔کریملن نے صدر پوتن کے جواب سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا:اس جنگ سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ یوکرین ہتھیار پھینک کر سپر ڈال دے ۔ کریملن کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کی ضمانت دی جائے ۔ یوکرین نیوٹرل رہنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اعلان کرے کہ وہ نیٹو کا ممبر کبھی نہیں بنے گا‘۔پوتن چاہتے ہیں کہ کرائمیا کے 2014 میں روس میں انضمام کے بعد سے اسے روس کا حصہ تسلیم کیا جائے ۔ترکی کو شام میں روس کے ساتھ بھی اپنی تال میل برقرار رکھنا ہے تاکہ وہاں شامی کردوں کے حوالے سے کسی متوقع صورت حال سے نمٹا جا سکے ۔مزید برآں ترکی یوکرین پر روسی تسلط اس لیے بھی نہیں دیکھنا چاہتا کیوں کہ اس طرح ماسکو کو بحیرہ اسود تک رسائی ملنے سے انقرہ کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔
ادھر لیبیا اور کاکیشیا میں بھی روس اور ترکی کے مفادات کا ٹکراؤ ایک لٹکتی تلوار ہے ۔ گذشتہ برس انقرہ اور ماسکو کے درمیان تجارتی توازن 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا اور رواں برس اس میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے ۔یوکرین کو نیٹو کا رکن بنانے سے متعلق روسی خدشات میں یہ نقطہ اہمیت کا حامل ہے کہ کیا امریکہ، میکسیکو کو روس یا چین کے فوجی یا سکیورٹی اتحاد میں شمولیت کی اجازت دے گا؟ یقیناً نہیں دے گا۔
ایسے میں یورپ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دلوانے کی جو کوششیں کر رہا ہے ، وہ ماسکو کی سکیورٹی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں اور رضاکارانہ سفارت کاری میں مصروف تمام ملک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
روس اور یوکرین حالیہ تنازع کے ضمن میں سفارتی کوششوں سے باخبر سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ سفارتی مذاکرات سے جنگ کی حدت کم کرنے میں مدد سکتی ہے لیکن جہاں تک یوکرین کے حوالے سے سیاسی نوعیت کے روسی مطالبات کا تعلق ہے ، انہیں سفارت کاری کا ڈول ڈال کر شاید حل کرانا ممکن نہیں۔قرائن بتاتے ہیں کہ یورپ خود بھی یوکرین کی مدد میں ایک خاص حد سے آگے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ نو فلائی زون جیسے اقدامات کو ماسکو اعلان جنگ تصور کرتے ہوئے کہیں شورش کو یورپ کے دوسرے ملکوں تک نہ پھیلا دے ۔سفارت کاری کے میدان میں فرانس، اسرائیل اور ترکی کی طرف سے دوڑائے جانے والے گھوڑے ہر ملک کے مخصوص مفادات کی وجہ سے سرخ ریچھ کی یوکرین میں بڑھتی پیش قدمی روکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں کیا روسی اور یوکرینی صدر کے درمیان براہ راست ملاقات کوئی معجزہ دکھا سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں!
بعض سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ صرف ولادی میر پوتن اور جو بائیڈن کے درمیان براہ راست ملاقات ہی یوکرین میں جنگ کی تباہ کاریاں رکوا سکتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ پس پردہ رہتے ہوئے جس نوعیت کی چال چل رہا ہے اس کے نتیجے میں یوکرین روس کے لیے دوسرا افغانستان بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر