وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایٹمی جنگ کا خطرہ برقرار

پیر 07 مارچ 2022 ایٹمی جنگ کا خطرہ برقرار

روسی صدر پوتن نے جس وقت یوکرین کے خلاف ایٹمی فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا تو دنیامیں کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ تیاری ایک ایسے ملک کے خلاف کی جارہی ہی جو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے بہت پہلے دستبردار ہوچکا ہے۔صدر پوتن کے اعصاب پر جو جنگی جنون سوار ہے اس نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔یوکرین کے خلاف روسی جارحیت نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے تک پہنچادیا ہے اور اس میں سب سے بڑا خطرہ نیوکلیائی جنگ کا ہی ہے۔روسی وزیرخارجہ لاوروف نے بھی وارننگ دی ہے کہ اگر تیسری جنگ عظیم چھڑتی ہے تو یہ جنگ ایٹمی اور تباہ کن ہوگی۔خدانخواستہ اگر یہ جنگ اس انجام تک پہنچی تو دنیا کتنی بدصورت ہوجائے گی، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ روسی جارحیت کا مقابلہ کررہے یوکرین نے اقوام متحدہ اورروس کی نگرانی میں ہوئے ایک عالمی معاہدے کے تحت خود کو پوری طرح ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرلیا تھا۔ 1996سے 2001کے درمیان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کی جو کارروائی یوکرین نے انجام دی تھی، اس کے بارے میں اب بہت سے یوکرینی باشندوں کا خیال ہے کہ یہ ان کے ملک سے سرزد ہونے والی ہمالیائی غلطی تھی۔
جس وقت صدر پوتن یوکرین کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے رہے تھے تو انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال خود ان کے لیے بھی اتنا ہی تباہ کن ہوگا،جتنا کہ یوکرین اور باقی دنیا کے لیے۔ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت اور تباہ کن کارروائیوں نے اس وقت پوری دنیا کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر یوروپی ملکوں پر ہے، جو روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرین کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔گزشتہ اتوار کو جب روسی صدر پوتن نے اپنی ایٹمی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا حکم دیا تو ان تمام لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، جو ایٹم کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔بلاشبہ ایٹم دنیا کی تباہی وبربادی کا آخری ہتھیار ہے جس کی باقیات جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
اس دوران یوکرین کے خلاف جاری پوتن کے فوجی آپریشن کی زد ہندوستان پر بھی پڑی ہے اور وہاں ایک ہندوستانی طالب علم کی ہلاکت نے یوکرین میں زیرتعلیم ہزاروں ہندوستانی طلبا کے مستقبل پر سوالیہ نشان قایم کردیا ہے۔ حالانکہ یوکرین نے پہلے ہی ان خطرات سے دنیا کو آگاہ کردیا تھا اور بیشتر ملکوں نے اپنے شہریوں کو یوکرین سے واپس بلالیا تھا، لیکن ہماری حکومت چونکہ اسمبلی انتخابات میں مصروف تھی، اس لیے اسے یوکرین میں پھنسے ہوئے اپنے نوجوانوں سے زیادہ ان ووٹوں کی فکر تھی جو اسے تاحیات اقتدار میں رہنے کے لیے مطلوب ہیں۔ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 600سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ان میں ایک درجن سے زیادہ کمسن بچے بھی شامل ہیں۔یوکرین کے سینکڑوں فوجی روسی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں اور شہری علاقوں میں تباہی وبربادی کے دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف پر میزائل حملوں اور زبردست بمباری کے نتیجے میں زبردست تباہی مچی ہے۔یوکرین کے صدر نے روسی جارحیت کو کھلی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی سا لمیت کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے راجدھانی مسلسل خطرے میں ہے۔یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے اور تقریبا /لاکھ آبادی کے شہر خارکیف سے موصولہ ویڈیو میں صاف نظر آرہا ہے کہ رہائشی علاقوں میں بمباری ہورہی ہے۔ زوردار دھماکو ں سے اپارٹمنٹ اور عمارتیں مسلسل لرز رہی ہیں۔ آسمان پردھوئیں کا غبار نظرآرہا ہے۔ گھروں، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی دلدوز تصویریں منظرعام پر آنے کے باوجود روسی فوج نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ جنگ میں سب سے بڑا خون سچائی کا ہوتا ہے اور وہ ہمیں یوکرین میں نظر بھی آرہا ہے۔ روس اس بات سے لاکھ انکار کرے کہ اس نے یوکرین کے بے قصور باشندوں کو نشانہ نہیں بنایا ہے، لیکن یوکرین کے مختلف شہروں سے آنے والی درجنوں دلخراش تصویروں نے اس دعوے کو منہ چڑایا ہے۔روسی جارحیت کے نتیجے میں اب تک سات لاکھ یوکرینی باشندے نقل مکانی کرچکے ہیں۔پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے سربراہ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روس کے فوجی حملے جاری رہے تو یوکرین میں اپنے گھروں سے بھاگنے والے غیرمحفوظ لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔واضح رہے کہ یوکرین میں سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جنھیں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے کیونکہ بمباری سے پانی فراہم کرنے والی لائن، بجلی کی سپلائی اور بنیادی خدمات تباہ ہوچکی ہیں۔ اب تک چھ لاکھ 77 /ہزار لوگ یوکرین سے پڑوسی ملکوں میں بھاگ گئے ہیں۔ ان میں تقریبا آدھے لوگ فی الحال پولینڈ میں ہیں۔ سرحد پار کئی کلومیٹر لمبی قطاریں دیکھی گئی ہیں اور کچھ لوگ کئی روز سے انھیں عبور کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے جس سے جنگ کرنے والا بے خبر نہیں ہے۔
اس دوران اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ میں فریقین سے فوری طورپر جنگ بندی اور گفتگو سے حل نکالنے کی اپیل کی گئی ہے۔ یواین او کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ روسی ایٹمی فوجوں کو ہائی الرٹ پر رکھا جانا رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ ہے۔ایٹمی جنگ کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ اعلی فوجی حکام کے ساتھ اپنی میٹنگ میں روسی صدر پوتن نے وزیردفاع اور ملٹری اسٹاف کے سربراہ کو حکم دیا کہ ایٹمی فوجی ٹکڑیوں کو جنگ سے متعلق ذمہ داریوں کے لیے تیار رکھا جائے۔ ٹی وی پر نشر کیے گئے بیان میں پوتن نے کہا کہ معربی ممالک نہ صرف ہمارے ملک کے خلاف معاشی پابندیاں لگارہے ہیں بلکہ ناٹو کے اہم ممبران ملکوں کے اعلی افسران نے ہمارے ملک سے متعلق جارحانہ بیان بھی دئیے ہیں۔
دراصل پوتن نے ایٹمی ہتھیاروں سے آراستہ فوجی ٹکڑیوں کو تیار رہنے کا حکم دراصل ان سخت پابندیوں کے بعد ہی دیا ہے جن کے نتیجے میں روس معاشی بائیکاٹ جھیل رہا ہے اور وہ مغرب میں بالکل یکا وتنہا رہ گیا ہے۔ وائٹ ہاس کے ترجمان نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روسی صدر پوتن یوکرین کو شکست دینے کے لیے ممنوعہ کیمیائی اورایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عالمی جرائم کی عدالت یوکرین کے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر پوتن اور ان کی حکومت جنگی جرائم میں ملوث پائی گئی تو اسیسنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایٹمی حملہ کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، لیکن روس نے امریکہ، مغربی ملکوں اور ناٹو کی دھمکیوں کے بعد جس طرح کا جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے، اس سے خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے تک تو یوں لگ رہا تھا کہ اگر جنگ چھڑی بھی تو زیادہ نہیں چلے گی، لیکن روس کے دھاوا بولنے کے بعد پچھلے ایک ہفتہ میں حالات جس تیزی سے ابتر ہوئے ہیں، اس کے پیش نظر کوئی بھی قیاس آرائی آسان نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خوفناک نتائج دنیا پہلے ہی بھگت چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ نے جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گراکر دنیا کو اس کے حتمی انجام سے باخبر کردیا تھا۔ اس تباہی وبربادی کی دلخراش یادیں آج بھی رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں۔ وہ پہلا ایٹمی تجربہ تھا جس سے پوری دنیا لرز اٹھی تھی۔ پچھلے 75 برسوں میں دنیا کے کچھ ملکوں نے جس قسم کے مہلک ایٹمی ہتھیار بنالیے ہیں، ان سے ہونے والی تباہی وتاراجی کا تصور ہی محال ہے۔اکیلے اس وقت روس کے پاس تقریبا 6/ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ امریکہ کے پاس اس سے کچھ ہی کم ہیں۔چین اپنے پاس 350/ ایٹمی ہتھیار ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ فرانس، برطانیہ، ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک بھی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ شمالی کوریا کی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ بھی کم ڈرانا نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس کے پاس جتنے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں وہ خود کو اتنا ہی محفوظ تصور کررہا ہے، لیکن یہ محض خام خیالی ہے کیونکہ ایٹم دنیا کے لیے مکمل تباہی کا ہتھیار ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر