وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کا "عیدی امین"

پیر 14 فروری 2022 پاکستان کا

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس کے آڈیٹوریم میں ایک پر وقار تقریب جاری تھی جس میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران احمد خان اپنی کابینہ کے 10 اہم ارکان میں “کارکردگی” کی بنیاد پر تعریفی اسناد تقسیم کر رہے تھے۔ تقریب جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی میں یادوں میں گم ہوتا جا رہا تھا۔ جیسے ہی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے سب سے”محنتی” وزیر مراد سعید کو پہلے انعام کا مستحق قرار دیا۔ میری آنکھوں کے سامنے افریقی ملک یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا کے صدارتی محل میں منعقدہ تقریب گھومنے لگی وہ بھی اسی طرح کی “پر وقار” تقریب تھی جس میں عیدی امین اپنے 6 سالہ بچے کو اعلیٰ کارکردگی پر ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نواز رہے تھے ۔ 6 سالہ بچے کی اپنے باپ یعنی عیدی امین سے بے پناہ محبت “میرٹ” ٹھہری ۔
قارئین ! آپ کی یاد دہانی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ عیدی امین کون تھا اور اس کا ہمارے وزیراعظم یا ہمارے ملک سے کیا تعلق یا نسبت ہے۔ عیدی امین افریقی ملک یوگنڈا کا آمر تھا وہ 1925 میں یوگنڈا کے ویسٹ نائل صوبے کے ایک علاقے کوبوکو میں پیدا ہوا۔ وہ اپنے دور کا اچھا کھلاڑی تھا اس نے 1946 میں آرمی میں شمولیت اختیار کی وہ 1951 میں یوگنڈا کا ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن بنا اور یہ اعزاز اس کے پاس 9 سال تک رہا۔ یوگنڈا کا سب سے معروف کھلاڑی وہ نوجوانوں خصوصا ًخواتین کے دلوں کا راجہ تھا ۔ 1965 میں وہ اپنے ملک کے وزیراعظم کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور اسی وجہ سے ترقی کے زینے چڑھنے لگا ،اور صرف پانچ سال میں ہی وہ اپنے ملک کی آرمی کا سربراہ بن گیا۔ جیسے ہی وہ اس اہم ترین منصب پر فائز ہوا اس نے اپنے محسن وزیراعظم کے اقتدار پر شب خون مارتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ قبضے کے وقت وہاں کے عوام نے اس کا پر تپاک استقبال کیا ،وہ سمجھ رہے تھے کہ عیدی کے آنے سے ان کی تقدیر بدل جائے گی۔ یہ ملک ترقی کے زینے طے کرتا دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر لے گا 1972 میں عیدی امین نے اسرائیلی اور ایشیائی افراد خصوصا ًکاروباری طبقے کو اٹھا کے باہر پھینک دیا ۔ یوگنڈا کی معیشت دھڑام سے نیچے جا گری ۔ وہی عوام جس نے عیدی کے آنے پر خوشیوں کے شادیانے بجائے تھے اب سڑکوں پر آ گئے اب یہاں سے عیدی کا وہ “چہرہ” سامنے آتا ہے جو دنیا کے خوفناک آمروں کا خاصہ رہا ہے اس نے ہلاکو کی یاد تازہ کر دی ۔ لاشوں کے انبار لگا دئیے۔ کشت و خون اس کی پہچان بن گیا وہ اپنے دور میں انسانی حقوق کی پامالی کے معاملے میں بد ترین حکمران قرار پایا ۔ وہ ظلم کرتا رہا اور پھر وہ قدرت کے انتقام کا نشانہ بنا ۔ یہ مکافات عمل ہی ہے کہ ظلم کی سیاہ رات بالآخر ڈھل جاتی ہے یہی کچھ عیدی امین کے ساتھ ہوا ۔ وہ جو اپنے ملک پر بلا شرکت غیرے حکمران تھا جس کے اشارہ ابرو سے سر تن سے جدا کر دئیے جاتے تھے، خود کو فیلڈ مارشل قرار دینے والا عیدی 11 اپریل 1979 کو اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھا اور دنیا بھر کے ڈکٹیٹرز کی طرح اپنے ملک سے فرار ہوگیا ،وہ پہلے لیبیا پہنچا بعد ازاں وہ سعودی عرب میں پناہ گزین ہوا اور مرتے دم تک وہیں رہا ۔شاہ فیصل اسپتال میں اس کی زندگی کا چراغ گل ہوا۔ قارئین ! فیلڈ مارشل عیدی امین کی سوانح عمری پڑھتے ہوئے یقینا آپ کی آنکھوں کے سامنے پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان کا چہرہ گھوم گیا ہوگا ایوب خان بھی عیدی امین کی طرح خود ساختہ فیلڈ مارشل تھا لگتا ہے کہ عیدی امین کو یہ “راستہ” دکھانے والا بھی ایوب خان تھا۔ پاکستان نے تو آمریت کی ساری حدیں ہی پار کردیں ،ایوب خان کے بعد یحییٰ خان۔ جنرل ضیا ء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے آمروں نے انسانی حقوق کی پامالی میں اپنے ہی پیش رو کے ریکارڈ توڑے۔ یہ بھی کیسا حسن اتفاق ہے کہ یوگنڈا اور پاکستان دونوں ہی مسلم ملک ہیں۔ دونوں کے حالات بھی تقریبا ًایک جیسے ہی دونوں جگہ کرپشن ۔ بد انتظامی۔ غیر ممالک پر انحصار ۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار سمیت کئی وجوہات میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ معیشت کی بربادی میں بھی یوگنڈا”فارمولا” آزمایا گیا۔ معیشت سے یاد آیا مصر بھی تو ہماری طرح مسلم ملک ہے جس کی معیشت ہماری طرح ایک ڈکٹیٹر اور ہمارے ہی ملک کے ایک شہری رضا باقر کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہوئی ۔ اتفاق سے وہی رضا باقر اب آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ ہیں اور مصر “فارمولے” پر عمل پیرا ہیں۔ جو “سفر” 1971 میں یوگنڈا سے شروع ہوا تھا وہ مصر سے ہوتا ہوا پاکستان تک آن پہنچا ہے ۔ یہاں آ کر اس نے اپنی “شکل” تبدیل کی ہے اب دنیا بھر میں ننگی آمریت کو برا جانا جاتا ہے اب اس کو شوگر کوٹڈ کے طور پیش کیا گیا ۔ یہاں بھی عیدی امین کی طرح ایک مشہور کھلاڑی کو پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر بٹھا دیاگیا ۔ اس نے آتے ہی اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے ،ان کا جینا دوبھر کرنے کو کامیابی سمجھ لیا لیکن وہ یوگنڈا اور پاکستان کے عوام کے مزاج میں فرق کو نہ سمجھ پایا ۔ یوگنڈا کے عوام کی آنکھ 9 سال بعد کھلی تھی پاکستان کے عوام 3 سال میں “جاگ” گئے ہیں۔ اب یہاں پر مسلط حکمران کا “اصلی” چہرہ دکھائی دینے لگا ہے۔ اپوزیشن سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکی ہے اگر اسے لانے والوں کی آنکھ نہ کھلی تو یہ ملک عیدی امین کے “دور” میں داخل ہو جائے گا جس ملک کی معیشت پہلے ہی برباد ہو چکی ہو کیا وہ اس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ وہاں ایک بار پھر بد امنی کا دور لوٹ آئے ۔ ایک جانب لوگ بھوک ۔ افلاس سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں تو دوسری جانب چین کی بانسری بجاتے حکمران مراد سعید کو “کارکردگی” کی بنیاد پر نمبر ون قرار دینے میں مصروف ہیں اگر آمروں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو وہ “حق بجانب” ہیں کہ ہر دور کے عیدی امین اپنے “بچوں” کو ہی ایوارڈ کے حقدار قرار دیتے ہیں۔ اب فیصلہ ان کو مسلط کرنے والوں کو کرنا یا اس ملک کے عوام کو اس “فیصلے” کی گھڑی آن پہنچی ہے اب دیکھیں پاکستان کا ” عیدی امین ” کب انجام کو پہنچتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر