وجود

... loading ...

وجود
وجود

لجپال لاجک

جمعرات 10 فروری 2022 لجپال لاجک

1985 میں پروفیسر لجپال سیال نے ملتان سے قومی اسمبلی کیالیکشن میں حصہ لیا.
تو اسے صرف 3 ہی ووٹ ملے تب اس نے حکومت سے سیکورٹی کا مطالبہ کیا تو اسے اس وقت کے ایس ایس پی ملتان نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو صرف 3 ہی ووٹ ملے ہیں.
پھر ہم آپ کو سیکورٹی کیسے دے سکتے ہیں؟
اس پر پروفیسر لجپال سیال نے کہا کہ جس شہر میں اتنے سارے لوگ میرے خلاف ہیں کیا مجھے سیکورٹی نہیں ملنی چاہیئے. پروفیسر صاحب کو سکیورٹی ملی یا نہیں البتہ سیاسی حلقوں میں ان کی یہ توجیح “لجپال لاجک” کے طور پر ہمیشہ کے لیے “مثال” بن گئی۔ اسی طرح کا ایک کردار شہزادہ عنبر لاہور میں بھی ہے جو خود کو نیم کرپٹ کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے خود کو نیم کرپٹ سمجھنے والا یہ کردار دراصل اس معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ عام انتخابات ہوں یا وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ یا پھر صدارتی انتخاب وہ ہر الیکشن کے لیے خود کو پیش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے وزٹنگ کارڈ پر بھی سابق امیدوار برائے صدر پاکستان لکھوا رکھا ہے۔ ہمارے بچپن میں بہاولپور کے نواحی علاقے میں سلیم کرلا نامی ایک شخص بھی ہر الیکشن میں امیدوار کے طور پر سامنے آتا تھا۔ اس کا اصل نام تو محمد سلیم تھا لیکن قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوگ اسے سلیم کرلا کے نام سے پکارتے تھے لوگوں نے جو نام اس کی تحقیر کے لیے رکھا اس نے اسے اپنی مقبولیت سمجھ کر اپنے نام کا حصہ بنا لیا وہ مرتے دم تک اپنے پوسٹرز پر اسی نام سے اپنی انتخابی مہم چلاتا رہا۔ پروفیسر لجپال ہو یا شہزادہ عنبر یا پھر سلیم کرلا یہ آج بھی کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی سیاسی کردار کے طور پر آج بھی زندہ ہے وہ اسی “فلسفے” پر کاربند ہے جو لجپال لاجک کے نام سے مشہور ہے۔ آج کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو آپ کو “یو ٹرن” تو اچھے ہوتے ہیں جیسی “لاجک” کے حامل سیاست دان انتہائی اہم منصب پر دکھائی دیں گے۔
ہم سے پہلی نسل اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اس “فلسفے” پر فخر محسوس کرنے والے وہ کردار کبھی اقتدار میں نہ آئے اس لیے وہ ان تکالیف سے بچ گئی جو آج ہماری نسل اٹھا رہی ہے۔ آج ہمیں ایسے حکمران سے پالا پڑا ہے جس میں بقول خواجہ آصف کوئی شرم ہوتی ہے کوئی ہوتی ہے نامی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی وہ کل تک جسے اپنا چپڑاسی بھی نہیں رکھنا چاہتا تھا وہ آج اس کا وزیر داخلہ۔ جسے وہ پنجاب کا سب بڑا ڈاکو کہا کرتا تھا آج وہ اس کا اتحادی ہے۔ جسے وہ قاتل قرار دیتا تھا وہ آج اس کی کابینہ میں شامل ہیں۔ ایک بہت ہی مشہور محاورہ ہے “جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے” اس پر یوں صادق آتا ہے جہاں بھی گئے “نظام” لے آئے۔ سعودی عرب کے دورے پر جائیں تو سعودی نظام پسند۔ چین جائیں تو چینی طرز سیاست کے گرویدہ۔ بات صرف کہیں جانے تک ہی محدود نہیں کوئی یہاں آ بھی جائے تو اس سے بھی “متاثر” ہوئے بنا نہیں رہتے وہ ایران اور ترکی جیسے نظام کو بھی لاگو کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں غرض دنیا کا کوئی بھی نظام ہو جس میں وہی “گھنٹہ گھر” ہو انہیں پسند ہے۔ وہ یو ٹرن کو بڑے لیڈر کی پہچان قرار دیتے ہیں۔ آج ہم اگر کسی سیاسی بحران کا شکار ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی “سوچ” ہے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔ ہماری مقتدرہ نے یہی سوچ کر انہیں مرزے کا یہ “کردار” نبھانے کا پورا پورا موقع دیا۔ آج جب ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد پلے ککھ نہیں تو وہ “تڑی” لگاتے ہیں کہ میں عوام میں جاؤں گا۔ میں بہت خطرناک ہو جاؤں گا۔ انہوں نے جو حشر عوام کا کیا ہے انہیں واقعی “لجپال لاجک” کے مطابق سکیورٹی کی ضرورت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر