وجود

... loading ...

وجود
وجود

لاثانی سیاست سے لسانی سیاست تک

جمعرات 16 دسمبر 2021 لاثانی سیاست سے لسانی سیاست تک

 

ہم سمجھتے تھے کہ بانی ایم کیو ایم کی سیاسی موت کے بعد سندھ میں’’ لسانی سیاست ‘‘ مکمل طور پر دَم توڑ چکی ہے اور اَب آئندہ سے صوبہ سندھ میں ’’لاثانی سیاست‘‘ کا سنہری دورِ دوراںرواں ہوجائے گا، مگر جب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی کے ایوان میں ببانگ دہل ’’ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں ‘‘ کا نعرہ لگا یا تو احساس ہوا کہ سندھ کے سیاسی منظرنامہ سے وابستہ ہمارے سارے خیالات کس قدر خام اور ہماری تمام اُمیدیں کتنی موہوم و بے معنی تھیں۔پاکستان پیپلزپارٹی جس کے ساتھ ’’پاکستان کی زنجیر ،بے نظیر ‘‘ کے قابل فخر لقب کو بھی منسوب کیا جاتاہے ،اُسی سیاسی جماعت کے سب سے ذمہ دار ریاستی نمائندہ کی جانب سے ’’ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں ‘‘ کا عامیانہ اور تحکمانہ بیان سامنے آنا ،سمجھ سے یکسر بالاتر ہے۔ یقینا وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان کی جانب سے ملک بھر کی عوام کو سید مراد علی شاہ کے دیے گئے متعصبانہ بیان کی مختلف وضاحتیں اور سیاق و سباق بھی سمجھائے جا رہے ہیں لیکن غالب امکان یہ ہی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی زبانِ اقدس سے سندھ اسمبلی کے ایوان میں ریاست کی شان میں کہے گئے دھمکی آمیز الفاظ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے،جبکہ عام لوگ اُن کے ترجمانوں کی طرف سے پیش کی جانے والی وضاحتوں کو فراموش کردیں گے۔
سب سے بڑا لمحہ فکر! تو یہ ہے کہ آخر وزیراعلیٰ سندھ ،سید مرادعلی شاہ نے ’’ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں ‘‘کا نعرہ لگایا کس مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے ہے۔ کیونکہ بالعموم یہ سمجھا جاتاہے کمزور سیاسی جماعتیں لسانی سیاست کا مہلک ہتھیار،صرف اس لیے استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ چور راستے سے اقتدار کی راہ داریوںتک پہنچ سکیں یا پھر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرکے اپنی عوامی مقبولیت کو بڑھاسکیں ۔بادی النظر میں پاکستان پیپلز پارٹی کو نہ تو سندھ میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے کسی شارٹ کٹ راستے کی ضرورت ہے ،کیونکہ گزشتہ مسلسل بارہ برس سے وہ بلاشرکت غیرے سندھ کے اقتدار ِ اعلیٰ پر قریب قریب دوتہائی کی جمہوری اکثریت سے فائز ہے ۔جبکہ نہ ہی پیپلزپارٹی کو سندھ میں سستی شہرت حاصل کرنے کی کوئی حاجت ہے ۔کیونکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی عار نہیں ہونی چاہیئے کہ بلحاظ عوامی مقبولیت بھی پاکستان پیپلزپارٹی ہی صوبہ سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اِن دو بڑی سیاسی حقیقتوں کی موجودگی میں آئندہ بھی کم ہی امکان ہے کہ کوئی دوسری سیاسی جماعت صوبہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی جگہ سندھ کے اقتدار اعلیٰ تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ کے سیاسی منظر نامے میں اتنی مضبوط سیاسی پوزیشن میں ہونے کے باوجود وزیراعلی سندھ ،سید مراد علی شاہ کا اچانک ہی لسانیت سے آلودہ بیان ’’ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں ‘‘ جاری کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔ شاید اسی لیے بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بیان کے الفاظ ضرور سید مراد علی شاہ کے اپنے ہیں لیکن، جاری کردہ بیان کا سارا، نفس مضمون پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے فراہم کیاگیا ہے اور وزیراعلی سندھ نے سندھ اسمبلی کے ایوان میں اپنے بیان میں بین السطور ڈھکی، چھپی سیاسی دھمکی کو ریاست کے ذمہ دار حلقوں تک پہنچانے میں فقط ایک ’’سیاسی ڈاکیے ‘‘ کا کردار ،اداکیا ہے۔ یہ تجزیہ اس لیے بھی عین قرین قیاس لگتاہے ، سید مراد علی شاہ اپنی گفتگوبہت ناپ تول ، تمام تر سیاسی نتائج و عواقت ذہن میں رکھ کر خوب چھان پھٹک اور سوچ سمجھ کر کرتے ہیں ۔جبکہ عملی طور پر بھی وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک ایسے سرکردہ رہنما کی شہرت ِ عام رکھتے ہیں ، جو تمام سیاسی اور غیرسیاسی طبقات کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کے سیاسی اُصول پر کامل یقین رکھتا ہے ۔
مثال کے طورپر رواں ہفتے کراچی آرٹس کونسل میں ہونے والی عالمی اُردو کانفرنس ، کے لیے وزیراعلی سندھ سید مرادعلی شاہ کا دامے ،ورمے اور سخنے تعاون بے مثال رہا ہے ۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اس عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد کو کامیاب بنانے میں جس قدر کردار ملک بھر کے اُردو داں طبقے نے ادا کیا تو وہیں سید مرادعلی کی ذاتی و عملی دلچسپی بھی دو آتشہ رہی اور انہوں نے عالمی اُردو کانفرنس کے منتظمین ،مہمانانِ گرامی اور شرکاء کو ہر سہولت بہم پہنچانے میں اپنی تمام تر انتظامی صلاحتیں جھونک دیں ۔ جس کا اعتراف اور ستائش آرٹس کونسل کراچی کے سربراہ ،احمد شاہ بھی باربار کرتے نظر آئے ۔یعنی ایک طرف سید مرادعلی شاہ ،فروغ اُردو کے لیے شبانہ روز پوری تن دہی کے ساتھ مصروف تھے تو دوسری جانب اُسی شام سندھ اسمبلی کے ایوان میں ’’ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں ‘‘ کا معتصبانہ بیان داغ دیتے ہیں ۔ یہ قول و فعل کا ایک ایسا واضح اور کھلا تضاد ہے ، جس کے پیچھے یقینا اُن کی اپنی شعوری مرضی سے کہیں زیادہ، کسی طاقت ور سیاسی شخصیت کی ’’تائید غیبی ‘‘ پر لبیک کہے جانے کا احتمال پایا جاتا ہے۔
بہرکیف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ’’ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں ‘‘ کی بات کرنے کا جس نے بھی مشورہ یا حکم دیا ہے ،بلا شک و شبہ اُن کے ساتھ ’’عذرگناہ، بدتر از گناہ ‘‘ والا ہی معاملہ کیا ہے۔ حالانکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک حلقے میںبھی یہ قوی تاثر پایا جاتاہے کہ اُن کی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے باربار، ذو معنی سیاسی مقاصد ظاہر کرنے والے بیانات جاری کرنے کی روش، پیپلزپارٹی کے لیے سیاسی فوائد سے زیادہ سیاسی نقصانات کا باعث بنتی جارہی ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سندھ کی اپوزیشن جماعتوں بشمول وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کا بلدیاتی ترمیمی قانون مسترد کردیا ہے تو اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ضرورت سے زیادہ سیخ پا ہوکر اُلٹا سیدھا بیان جاری کرنے کی اس لیے قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی کہ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پاس واضح اکثریت ہے اور آئین کی رو سے سندھ بھر میں قانون تو وہی نافذ العمل ہوگا ،جسے سندھ اسمبلی پاس کرے گی۔ لہٰذا،اپوزیشن کی ایک خراب بال پر بالکل غیر ضروری شاٹ مار کر جہاں ساری تنقیدی توپوں کا رُخ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی طرف کرلیا ہے ،وہیں صوبہ سندھ میں چند برس قبل لاثانی سیاست کی جانبِ منزل شروع ہونے ولا سفر ایک بار پھر سے لسانی سیاست کی گم کردہ راہ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر