وجود

... loading ...

وجود
وجود

سانحہ سیالکوٹ : غور و فکر کے چند پہلو

هفته 11 دسمبر 2021 سانحہ سیالکوٹ : غور و فکر کے چند پہلو

 

گزشتہ ہفتہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں بہیمیت اور درندگی کا جو سانحہ پیش آیا ہے اس نے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بْری طرح متاثر ہوئی ہے اور پاکستان کی بھی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازمین نے کمپنی کے جنرل منیجر کو ، جو سری لنکا کا شہری تھا ، بْری طرح مارا پیٹا ، اَدھ مرا کرنے کے بعد اسے کھینچتے ہوئے کمپنی سے باہر روڈ پر لے گئے اور اس کی نعش کو آگ کے حوالے کر دیا۔ وہاں موجود لوگوں نے نہ صرف اس کو بچانے اور اس سانحہ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، بلکہ وہ پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ تماشا دیکھتے اور جلتی ہوئی نعش کی ویڈیو گرافی کرتے رہے۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ اس درندگی کو جواز فراہم کرنے کے لیے توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا اور اس پر تشدد کرتے ہوئے ناموسِ رسالت کے حق میں نعرے لگائے۔ اس سانحہ پر کئی پہلوئوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے :
1۔ کسی سماج کے منظم ، پاکیزہ اور پْر امن رہنے کے لیے اسلام میں جو اخلاقی تعلیمات دی گئی ہیں ، افسوس کہ مسلم سماج ان سے عاری ہو رہا ہے۔ سستی ، بد عہدی ، بے ایمانی ، کام چوری ، عدم اطاعت ، خود غرضی ، عدم برداشت اور جذبہ انتقام اس کی پہچان بن رہے ہیں۔ مسلم عوام اپنی ذمہ داری کو کما حقہ پورا نہیں کرتے ، کوئی انہیں ان کی کوتاہی پر ٹوکے تو بپھر جاتے ہیں اور اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے روک ٹوک کرنے والے سے انتقام لینے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کمپنی کا جنرل منیجر اپنے ماتحتوں سے کام لینے میں ذرا سخت تھا۔ یہ سختی کمپنی کے ملازمین کو گوارا نہ ہوسکی ، چنانچہ انہوں نے انتہائی گھناو?نے طریقے سے اس کا انتقام لے لیا۔
2 – اس سانحہ میں ایک فرد کو بلا جواز قتل کرنے کے ساتھ جس درندگی اور حیوانیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ بہت زیادہ باعثِ تشویش ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں کس حد تک فساد سرایت کر گیا ہے اور افراد کے ذہن کس حد تک مسموم ہو گئے ہیں۔ کسی شخص کو قتل کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ لیکن قتل کرنے سے پہلے اس پر جسمانی تشدد کرنا ، مار مار کر اَدھ مرا کر دینا ، اس کے جسم کو اِدھر اْدھر گھسیٹنا ، اس کے بعد اسے آگ میں جلا دینا ، ان کاموں سے اس جرم کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اس کی شناعت میں لامحدود اضافہ ہوجاتا ہے _
3۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غلط کام کر رہا ہو تو سماج کے دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑیں اور اسے اس غلط کام سے روکنے کی کوشش کریں۔ اصطلاحی طور پر اسے ’نہی عن المنکر‘ کہا گیا ہے۔ اسلام میں نہی عن المنکر پر بہت زور دیا گیا ہے اور اسے مسلمانوں کا فریضہ اور مقصدِ وجود قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : ’’لوگ اگر کوئی غلط کام ہوتا ہوا دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں پر عذاب بھیج دے۔‘‘ (ابو داو?د: 4338، ترمذی: 2168) سیال کوٹ سانحہ کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا میں عام ہوئی ہیں ان میں دکھائی دیتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس جرم کو انجام دیا ، لیکن وہاں موجود بھیڑ میں سے کسی نے بھی ان لوگوں کا ہاتھ پکڑنے اور اس جرم کے ارتکاب سے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی نہیں ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ جلتی ہوئی نعش کی ویڈیو بناتے رہے اور اس کے پاس کھڑے ہو کر سیلفی لیتے رہے۔ اس سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ سماج کی اخلاقی حِس بالکل مردہ ہو چکی ہے۔
4۔ یہ واقعہ جس ملک میں پیش آیا ہے وہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا ، وہاں رہنے والوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ جس انسان کے ساتھ اس بہیمیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ دوسرے ملک کا رہنے والا تھا۔ بہ الفاظ دیگر ایک مسلم ملک میں مسلمانوں کے درمیان وہ ’مہمان‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ مزید برآں وہ غیر مسلم تھا۔ اس کی حیثیت ’معاہد‘ (وہ غیر مسلم جو معاہدہ کے تحت مسلم ملک میں آیا ہو یا رہتا ہو) کی تھی۔ اسلامی تعلیمات تو ایسے شخص کے ساتھ خصوصی برتاو? کی تلقین کرتی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے : ’’جس شخص نے کسی معاہد کو بلا جواز قتل کیا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے۔ وہ جنت سے اتنا دور ہو گا کہ اس تک جنت کی خوشبو بھی نہ پہنچ سکے گی۔‘‘ (ابو داو?د: 2760 ، نسائی: 4747)
5۔ کہا گیا ہے کہ مقتول نے مذہب کی توہین کی تھی ، جسے کمپنی کے مسلمان ملازمین برداشت نہ کر سکے۔ اس نے کیا توہین کی تھی؟ اس سلسلے میں اب تک کوئی تحقیقی بات سامنے نہیں آسکی ہے۔ کمپنی میں کام کرنے والے بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ ملازمین نے دیواروں پر مذہبی اسٹیکر اور پوسٹرس لگا رکھے تھے۔ کمپنی میں ایک تجارتی وفد آنے والا تھا ، جس کے استقبال کی تیاری میں صفائی ستھرائی کا کام ہو رہا تھا۔ جنرل منیجر نے ملازمین سے یہ اسٹیکرس اور پوسٹرس ہٹا لینے کو کہا۔ ملازمین نے ان سنی کر دی۔ اس پر جب منیجر نے سختی کی تو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ قوم کے علماء ، مفکرین اور دانش ور طے کریں کہ کن کن چیزوں کا اطلاق توہینِ مذہب پر ہوتا ہے اور کون سی چیزیں اس کے دائرے میں نہیں آتیں؟ تاکہ کوئی شخص یہ ہمت نہ کر سکے کہ کسی معمولی بات پر کسی شخص پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر اسے قابلِ گردن زدنی قرار دے۔
6۔ کسی انسان کو زندہ یا اسے قتل کرنے کے بعد آگ میں جلانا انتہائی گھنائونا اور غیر انسانی عمل ہے۔ کسی متمدن سماج میں اسے گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام تو اس کا سخت مخالف ہے۔ پھر کسی مسلمان سے کیسے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺنے ایک فوجی ٹکڑی بھیجی اور دشمنوں میں سے دو افراد کا نام لے کر فرمایا کہ اگر انہیں پکڑنا تو آگ میں جلا دینا ، لیکن فوجی ٹکڑی کے روانہ ہونے سے پہلے اسے بلا کر ہدایت دی : ’’ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو آگ میں جلا دینا ، لیکن اب میں تمہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہوں ، اس لیے کہ آگ کے ذریعے سزا دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تم بس انہیں قتل کر دینا۔ ‘‘ (بخاری: 2954)
7۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی فرد کو نہیں ہے۔ یہ ریاست کا کام ہے۔ کوئی شخص مذہب کی توہین کرے ، مذہبی مقدّسات کے بارے میں دریدہ دہنی کرے ، ناموسِ رسالت کی اہانت کا ارتکاب کرے ، یا کسی اور جرم کا مرتکب ہو ، لیکن کسی فرد کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود سے جرم کا تعین کرے اور اس کی سزا بھی نافذ کر دے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی عدالتیں بہت سست روی کا مظاہرہ کرتی ہیں ، ان کے ذریعے مجرموں کو قرارِ واقعی سزائیں نہیں مل پاتیں۔ اس بنا پر شہری قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہو تب بھی اس سے کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں مل جاتا۔ ضروری ہے کہ ایسے کسی مجرم کا معاملہ عدالت تک پہنچایا جائے ، اس کے ذریعے پوری تحقیق وتفتیش ہو ، پھر جرم ثابت ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی اس کی سزا نافذ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر