وجود

... loading ...

وجود
وجود

غم و شرمندگی

بدھ 08 دسمبر 2021 غم و شرمندگی

رحمت العالمین کے پیروکاروں نے سیالکوٹ میں جس سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے وہ خاتم النبیین ؑسے محبت اور عقیدت نہیں بلکہ ذاتی نفرت ورنجش ہے مگر عقیدت و محبت کا پیراہن پہناکر انسانیت کو رونداگیا اسلام تو امن وآشتی کا دین ہے جوکسی بھی جاندار کو تکلیف دینے سے منع کرتا ہے یہاں لوگ مار پیٹ کرتے ہیں اور انسانی جان لیکر نعش کو سرعام آگ لگا دیتے ہیںاور یہ سب کچھ رحمت العالمین سے عقیدت کے نام پر کیا گیالیکن یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہونے وا لا ایسا قتل ہے جس کے ذمہ داروں کو قرارِ واقعہ سزا نہ دی گئی تو کوئی بھی جتھے بنا کر کہیں بھی عدالت لگا کر بے گناہوں کا خون بہاکر مذہبی لبادہ اوڑھ لے گا اِس لیے ریاست کو ریاستی اِداروں کو اور تمام مکاتب فکر کو مل کر ظلم کی آگ کو روکنا ہو گا کیسی ستم ظریفی ہے زاتی رنجش کو اسلام سے نتھی کردیاجاتا ہے اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے ملک میں ہی اسلام کو کیوں خطرہ ہے؟ دنیا بھر میں درجنوں اسلامی ممالک ہیں مگر ایسے واقعات نہ ہونے کے برابرہیںسب سے ذیادہ کیس پاکستان میں ہی کیوںسامنے آتے ہیں؟ اِس میںکوئی ابہام نہیں کہ الزامات کے پسِ پردہ پیارے نبیؑ سے الفت کا جذبہ کم اور مخالف کو سزا دینے کی آرزو ہوتی ہے۔
اسلام میں سود خوری حرام ہے کسی کامال کھانے ،ملاوٹ کرنے ،جوا کھیلنے ،جھوٹ بولنے ،شراب پینے ،زنا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے لیکن ہمارا سارانظام ہی سود پر قائم ہے کسی کا مال کھانے سے لیکر جائیداد پر قبضے کر لیے جاتے ہیں جوابھی کثرت سے کھیلا جاتاہے امیروں کی محافل کا شراب لازمی حصہ ہے جبکہ زنا اور جھوٹ بھی عام ہے ستم یہ کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی جنسی حملوں سے محفوظ نہیں زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہمارے پیارے نبیؑ کا یہ درس ہے یااِسلام مزکورہ افعال کی اجازت دیتاہے؟ہر گز نہیں ۔صفائی کو نصف ایمان قراردیا گیا ہے لیکن کیا وطن کی کسی بستی کو صفائی کے حوالے سے مثالی کہہ سکتے ہیں؟ملک بھر میںدن رات اسلامی تعلیمات کی نفی ہوتی ہے مگر کہیں اعلان ہوجائے کہ توہینِ رسالت کے مجرم کو سزا دینی ہے تو سود خور ،ملاوٹ کرنے اور جوا کھیلنے والے،شراب پینے اور زنا کرنے والے حقیقت جاننے کی بجائے تشدد کو ثواب سمجھ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے کیا تشدد کرنا ہی حبِ رسولﷺہے؟حبِ رسولﷺتو یہ ہے کہ اخلاقی حوالے سے اِتنا اچھا کردار ہوکہ غیر مسلم خود اسلامی تعلیمات میں دلچسپی لیں مگر ہم تو ایسی ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ غیر مسلم تو ایک طرف مسلمان بھی خوفزدہ ہیں یہ رویہ کسی حوالے سے بھی قابلِ قدر ،قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید نہیں ۔
کوئی مسلمان توہینِ رسالتؑ برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پیارے آقاؑ کی حرمت پر خوشی خوشی جان قربان کرنے کوسعادت سمجھتا ہے لیکن ہم پیاارے آقاؑ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بجائے منافی چلتے ہیں مگر شرمسار نہیں ہوتے توہین کاجھوٹا الزام لگا کر کسی کی جان لینے پر فخرکرتے ہیں تعجب ہے پیارے مدنی آقاؑ نے فرمایا کہ تم اُس وقت تک ہر گز مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک وہی چیز اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند نہ کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔اورہاں غیر مسلموں کاتحفظ مسلمانوں کی زمہ داری ہے اور ہم ساری دنیا کا محاسبہ اپنی پسند کے مطابق کرنا اپا حق سمجھتے ہیں لیکن خودکیا کرتے ہیں کوئی پوچھنے کی جسارت کرلے تو عدالت اورگواہ خودہی بن کرانسانی جان لینا کو کارنامہ کہتے ہیں ۔
سانحہ سیالکوٹ کا سبق یہ ہے کہ اب مصلحت نہیں بڑے فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے ایسے فیصلے جن سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اگر جھوٹے الزامات لگانے کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی اور جتھے اسی طرح اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے کرنے کی روش پر چلتے رہے توتشدد کے رجحانات کو تقویت ملے گی جس سے معاشرت اورریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اگر ریاست کی رَٹ اور قانون کی عملداری ہوتی تو سانحہ سیالکوٹ ہر گز رونمانہ ہوتا ریاست کی نرمی سے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں کیونکہ اُنھیںپکڑ یا سرزنش کا خوف وخطرہ نہیں ہوتا سواموارکوسیاسی و عسکری قیادت کے مشترکہ اجلاس میں سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کو نہ قابل برداشت قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کرنے اور تمام مجرموں کو سخت سزائیں دلوانے کا عزم کی گیا ہے امید ہے یہ عزم تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ عملی طور پر بھی کچھ ہوتا نظر آئے گاکیونکہ ہر مکتبہ فکر میں تشویش جڑیں پکڑچکی ہے لوگو ں کے دلوں سے خوف نکالنا اور شدت پسند ی اور انتہا پسندی کے تاثر کو دور کرنا ہے تو مزہبی بلیک میلنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔
پریانتھا کمارا بطور مینجر ایک ذمہ دار اور فرض شناس شخص تھا اگر کام چور اور نالائق ہوتا تونو برسوں تک منیجرکی ملازمت برقرارنہ کھ پاتاالبتہ فیکٹری میں کام کرنے والوں سے اُجرت کے عوض بہتر کارگزاری کے لیے سختی ضرورکرتارہا جس سے کام چور اور لاپرواہ مزدور نا خوش تھے مینجرکیونکہ اُردو یا عربی سے لاعلم تھا اسی لیے غیر ملکی وفود کے آنے سے قبل فیکٹری میںصفائی وغیرہ کرائی توناراض مزدوروں کوشیطانی چال چلنے کا موقع مل گیا حالانکہ مذہبی پوسٹر اُتارنے پر منیجر نے نہ صرف سپروائزر کی سرزنش کی بلکہ خود بھی معافی مانگی لیکن فیکٹری ملازمین نے معافی قبول کرنے کی بجائے توہینِ رسالت کا الزام لگا کر مارپیٹ شروع کر دی الزام لگنے کی دیر تھی کہ منیجر کو زدوکوب کے ساتھ فیکٹری کو بھی نقصان پہنچایا جانے لگا مضروب نے چھت پر چڑھ کر جان بچانے کی کوشش کی تو حملہ آوروں نے چھت سے گرادیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنا کر جان لے لی اور پھر آخر میں نعش کو بھی آگ لگا کر جلا دیا یہ جاہل یہاں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ پل پل کو سوشل میڈیا کی بھی زینت بناتے گئے اب ساری دنیا مذمت کر رہی ہے اور پورا ملک شرمسار اور سوگوار ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سانحہ بھی چند دنوں کے بعد عوام کی یاد سے محو ہو جائے گا؟ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں لیکن ہمارے ذہن سے محو ہو بھی جائے تو دنیا جلد نہیں بھولے گی بلکہ برسوں تک اِس کے اثرات رہیں گے اگرسیالکوٹ میں مارے جانے والے دونوں بچوں کے ورثا انصاف سے محروم نہ رہتے، کراچی کے بینک گارڈ کے ہاتھوں مارے جانے والے منیجر کے لواحقین کو انصاف مل جاتا یاتھانہ سمبڑیال کے ایس ایچ او سلطان گاڑا کی ہجوم کے ہاتھوں اینٹوں سے ہونے والی موت پر ہی ایکشن لے لیا جاتا تو آج صورتحال کچھ مختلف ہوتی اور وزیرِ اعظم عمران خان کوسری لنکن صدر گوٹابایا راجا پاکسے سے ندامت کی نوبت نہ آتی ۔
سانحہ سیاکوٹ سے دنیا میں بدنامی کے ساتھ سری لنکا سے خوشگوار تعلقات کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے وہی ملک جس نے بھارت کی طرف سے فضائی حدود کی بندش پر پاکستان کے لیے اپنے فضائی راستے کُھلے رکھے اور طیاروں کو ایندھن لینے کی سہولت دی پاکستان نے بھی جواب میں تامل علیحدگی پسندوں پر قابو پانے میں کولمبو حکومت کی مدد کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے باوجود سری لنکا نے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا اب اُسی ملک کا صدر کہنے لگاہے کہ وحشیانہ قتل پر صدمے میں ہوں اور واقعے پر گہری تشویش ہے مزید یہ کہ باقی سری لنکن کارکنوں کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں چند شرپسندوں نے ملک کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے مفتی تقی عثمانی نے قتل کو وحشیانہ اور حرام کہہ دیاہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ شدت پسندی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے دیگر علمائے دین بھی فعال ہوں تاکہ مزیدایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر