وجود

... loading ...

وجود
وجود

گوادر دھرنا اورابتر گورننس

بدھ 08 دسمبر 2021 گوادر دھرنا اورابتر گورننس

بلوچستان کے لا یخل مسائل اور اقتدار کی چار دیواری کے اندر مختلف النوع عنوانات کے ساتھ ضروریات کی رسہ کشی علیٰ حالہ موجود و جاری ہے۔ در حقیقت یہ عنوانات سیاسی جماعتوں و لوگوں کے نزدیک سیاسی و اصولی بیانیہ ٹھہرا ہے ۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے یہاں تک کہ عبدالقدوس بزنجو یا ان جیسے دوسرے جو صوبے کو لاحق مختلف عوارض کے اسباب میں سے تصور کیے جاتے ہیں نے بھی اقتدار ہاتھ میں لینے کے لیے صوبے کے مسائل یا گورننس کا حیلہ بیان کیا۔ یقینا محض فریب بیانی تھی کہ اب صوبہ ایک اور آزمائش سے دو چار ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جن کے سہارے حکومت ملی ہے، اپنی نجی محفلوں میں انہی کی برائیاں کی جاتی ہیں۔ حزب اختلاف کے افراد ملک سکندر ایڈووکیٹ جیسے صاف ستھرے لوگ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔ پر کرے کیا کہ سیاسی و جماعتی مجبوریوں نے حصار باندھ رکھا ہے، وگرنہ دل کی بات زبان پر ضرور لاتے ۔ حکومت کی کارکردگی بس نوٹسز لینے کے متواتر بیانات پر مشتمل ہے ۔محض جزوی و معمول کے سرکاری امور کو حکومت کی کارکردگی کہہ کر اخبارات کو مہنگے اشتہارات جاری کیے جاتے ہیں۔ سرکاری لکھاریوں سے کامیابیوں اور تعریفوں کے پل با ندھنے کی سعی ہو رہی ہے۔حکومتیں کب نمود نمائس اور سطحی اقدامات سے چلتی ہیں ۔شہر میں اگر صفائی کا نظام مفلوج ہے تو اس کے لیے استفسار و سوال وزیر بلدیات سے ہو نا چاہیے جو عضو معطل ہیں ۔ایڈمنسٹریٹر کی گوشمالی ہو،بلکہ میٹروپولیٹن کے اندر تط تطہیر کرائی جائے۔جس نے فی الواقع شہر کو تباہ کرنے میں مزید کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مناصب سے توقیر کا اظہار نہیں ہوتا ۔ بعض ملنے والے محکموں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔اور کئیوں کو گویا خزانے کی کلید تھمادی دی گئی ہیں۔
حال یہ ہے کہ حکومتی مؤقف بھی واضح نہیں ۔ جامعہ بلوچستان کے اندر دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ یکم نومبر2021کو لاپتہ ہوئے۔ اگلے روز جامعہ کے طلباء نے احتجاج شروع کیا۔ درس و تدریس کا عمل رودک دیا ۔ پھر یہ سلسلہ دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں تک پھیل گیا۔ طلبہ تنظیموں اور سیاسی لوگوں نے الزام قانون نافذ کرنے والوں پر ٹھہرا یا ہے۔ چناں چہ مواصلات و تعمیرات کے وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران جامعہ بلوچستان مذاکرا ت کے لئے پہنچ گئے۔ موصوف نے طلباء کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کی۔ فرمایا کہ’’ تعلیمی اداروں میں تعلیم کھلے ماحول میں ملنی چاہیے۔ طلباء میں صلاحیتیں ہیں مگر ان کی صلاحیتوں کو مختلف حیلے بہانوں سے روک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سے گزارش ہے کہ انہیں کھلے ماحول میں تعلیم کے مواقع د ے،ملک کے اداروں سے درخواست ہے کہ بلوچستان کے طلباء کا گلہ نہ دبایا جائے۔‘‘ یعنی بادی النظر میں کھیتران کی گفتگو نے الزامات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ساحلی شہر گوادر میں 15نومبر سے ’گوادر کو حق دوـ‘ تحریک کے نام سے دھرنا ہورہا ہے۔ خواتین اس بڑی تعدا دمیں نکلی ہیں کہ اس کی نظیر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس تحریک کی قیادت عام لوگ کررہے ہیں۔جماعت اسلامی بلوچستان ے سیکریٹری جنرل ولانا ہدایت الرحمان بلوچ پہلی رو میں کھڑے ہیں۔ وہاں کے عوام ان کی قیادت میں اکٹھے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمانغریب و مچھیرے خاندان کے فرد ہیں ۔ تعجب ہے کہ عبدالقدوس بزنجو سرکار نے ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔ اس مکروہ فعل میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا رکن اسمبلی حمل کلمتی اور صوبائی وزیر ظہور بلیدی کی رضا و منشا بیان کیا جاتا ہے ۔ دونوں بلوچستان اسمبلی میں گوادرا ور مکران سے منتخب نمائندے ہیں۔ گویا دوسروں کی طرح انہیں بھی عوامی احتجاج ایک آنکھ نہیں بھا ئی ہے۔ ٹرالنگ مافیا بھی یقینا پشت پر ہے۔
جام کمال کابینہ کے اکبر آسکانی مافیا کے شریک دھندہ رہے ہیں ۔حمل کلمتی کا بھی ٹرالنگ مافیا سے یاراں رہا ہے ۔جام کمال نے انہیں روکا تو ناراض ہوکر قدوس بزنجو کے حلقہ میں شامل ہوئے۔ افسر شاہی اور مقامی انتظامی عہدیداروں کے آگے بھی جام کمال کھڑے ہوئے۔ حال ہی میں جام کمال اس بارے میں گفتگو بھی کرچکے ہیں ۔عبدالقدوس بزنجو ایسا کچھ بھی روکنے کے حا می نہیں ہے ۔ ان کا روزگار حیات اسی سے جڑا ہے ،اورہوتے تو اپنی کابینہ میں پھر اکبر آسکانی کو فشریز کا محکمہ نہ دیتے۔ بات ذہن میں رہے کہ سندھ کے سمندر سے تین ہزار ٹرالر شکار کے لیے بلوچستان کے حدود میں آتے ہیں ۔ ہر ٹرالر میں نو ٹن مچھلی اٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ فی ٹرالر دو لاکھ روپے لیے جاتے ہیں ،جو ماہانہ ساٹھ کروڑ بنتے ہیں ۔یہ خطیر رقم اکبر آسکانی ،محکمہ ماہی گیری ، اوپر نیچے وردی بے وردی سب میں تقسیم ہوتی ہے ۔جبکہ مقامی ماہی گیر کے لیے کو متعین کردہ صوبائی حدود میں بھی طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاچکی ہیں ۔ گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات میں ٹرالنگ یعنی سندھ سے آنے والی بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام، پاک ایران سرحد پر مقامی سطح پر ہونے والی تجارت میں حائل رکاٹوں کو دور کرکے سرحد پر ٹوکن سسٹم اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مقامی ماہی گیروں کو سمندر تک آزادانہ رسائی دے کر ان کا روزگار بحال کیا جائے، کوسٹ گارڈ اور ایف سی کی طرف سے تنگ کرنے، کشتیوں اور گاڑیوں کو پکڑنے کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔ شراب خانوں اور منشیات کے اڈے بند کیے جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان مطالبات میں ایسا کونسا با غیانہ نکتہ شامل ہے کہ جس کی پاداش میں ایک محب وطن شہری اور سیاسی رہنماء کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جائے۔ اورخود حکومت ان مطالبات کو درست تسلیم کر چکی ہے۔اس بابت کچھ اقدامات کئے ہیں۔ مگر مولانا ہدایت الرحمان اور مظاہرین کو مطالبات پر عملدرآمد سے متعلق حکومت پر اعتماد نہیں ۔بات امن کی کی جائے تو جام کمال کی وزارت اعلیٰ کے بعد سیکورٹی فورسز پر حملوں کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ مخبر کے الزام کے تحت شہری ، مزدور اور سیاسی کارکن قتل ہوئے ہیں۔ نیزگورننس تہہ و بالا ہے۔ وزیراعلیٰ بزنجو ایک نجی ٹی وی کے اینکر کو بتاچکے ہیں کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ یا اپنے حلقہ انتخاب میں جام کمال دور کے کسی سرکاری عامل کا تبادلہ نہیں کیا۔ ان کی اس بات میں صداقت نہیںہے ۔ حالانکہ29اکتوبر کو حلف اٹھانے کے محض دو گھنٹوں کے اندر اندر سی ایم سیکریٹریٹ میں منظور نظر افرادلانے کے فرمان جاری ہو چکے ہیں۔ ایسا مختلف سطح اور جگہوں میں دوہرایا گیا۔ اگر اس کی تردید کی جاتی ہے تو جواب میں تفصیل پیش کرنے میں ہر گز کوئی دقت نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس سے کئیوں کے کاروبار پروان چڑھے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی تو ویسے بھی ملک کی بڑی تعمیراتی کمپنی کے پیٹی ٹھیکیدار کا خطاب لے چکے ہیں۔ چناں چہ وزیراعلیٰ ہائوس بھی ایسے دھندے روا ٹھہرچکے ہیں ۔ اخبارات و ٹی وی چینل کے وابستگان تک افسران و سرکاری عاملین کو پر کشش سیٹ اور اضلاع میں تبادلوں کے فائل پیش کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ کوئی بلا عوض تو نہیں کرتا۔ محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کے منصب کے لیے پسندیدہ افراد کی سفارشیں ہو ئی ہیں۔ چناں چہ سردست فرحت جان احمدزئی کو منصب سے ہٹاکر راستہ سہل بنایا گیا۔ یہ رہا موجودہ وزیراعلیٰ ہائوس کے تقدس اورمور حکومت بارے سنجیدگی کا اجمالی جائزہ ۔ درحقیقت گیرائی و گہرائی کی سوچ و طر ز عمل مزید نہیں رہی ہے۔الغرض جام کمال خان چند دن کی رخصت کے بعد کوئٹہ پہنچے ہیں۔ سیاسی و تنظیمی سرگرمیاں شروع کر چکے ہیں ۔نیزگفتگوئوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ مر بوط ہو چکا ہے ۔ یقینی طور سیاسی دروبست و تبدل کی نشاندہی ہورہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر