وجود

... loading ...

وجود
وجود

جارحیت کے خلاف قانون

هفته 27 نومبر 2021 جارحیت کے خلاف قانون

جوناتھن پاور

عالمی فوجداری عدالت کے قیام پر دستخط کرنے والے ملکوں کی 2010ء میں ایک کانفرنس ہوئی جس کا مقصد ایسے جرائم جن پر عالمی عدالت کارروائی کر سکتی ہے، ان میں نئے جرم جارحیت کا اضافہ کرنا تھا۔ امریکا، روس، چین، ایران اور بھارت نے بطور رکن عالمی عدالت نئی ترمیم پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، انہوں نے نئے جرم ’’جارحیت‘‘ کا خیرمقدم کرنے سے بھی گریز کیا۔ البتہ نیٹو کی رکن 15ریاستوں نے اس کی تائید کی۔ روس کے ضابطہ فوجداری میں جارحیت کا علیحدہ سے قانون ہے، جس میں ’’جارحانہ‘‘ جنگ کی منصوبہ بندی، تیاری اور اس میں شرکت کی ممانعت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، جارحانہ جنگ شروع کرنے کے عوامی مطالبے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ روسی سیاستدانوں اور رہنماؤں کو مقامی عدالتوں میں گھسیٹنے کیلئے اس قانون کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
اوباما کے دور میں امریکا میں اس بات ایک سنجیدہ بحث ہو چکی ہے کہ جسمانی تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کہ نہیں۔ امریکی گیلپ سروے کے مطابق 62فیصد امریکیوں نے کارروائی کی حمایت کی۔ تاہم اوباما نے یہ سوچ کر کوئی فیصلہ نہ کیا کہ اس سے امریکی منقسم ہو جائیں گے۔ جنگ مسلط کرنا آج کی دنیا میں ایک عالمی جرم ہے۔ اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں اکثر اس موضوع پر بات ہوتی ہے؛ حالانکہ امریکا اور ایران کے مابین جنگ کے خطرے پر ان دنوں بکثرت بحث ہو رہی ہے۔ اس کشیدگی کی ذمہ دار لوگ نہیں، رہنما ہیں۔ جیسا کہ ہٹلر کے نائب ہرمین گوئرنگ نے جیل سے ایک وضاحت کے دوران کہا: ’’بلا شبہ لوگ جنگ نہیں چاہتے۔ کسان یا فیکٹری مزدور کیوں چاہے گا کہ جنگ کے نام پر اپنی زندگی خطرے میں ڈالے جبکہ زندہ سلامت وہ اپنے اہل خانہ اور لوگوں کیلئے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ یہ قومی رہنما ہی ہیں جو کہ پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں، جمہوریت ہو یا فاشسٹ آمریت، دونوں قسم کے رہنما لوگوں کو پیچھے لگانے کیلئے جنگی جنون کو ایک آسان راستہ خیال کرتے ہیں۔‘‘
پروفیسر نوح ویزبورڈ جنگ کے موضوع پر اپنی نئی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’وہ سمجھتے ہیں کہ تصوراتی قوتیں اور ریاستوں کی مقابلہ بازی ماچس کی وہ تیلی ہیں جو جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جسے جلانے کے لیے جنونی ہونا ضروری ہے‘‘۔ جارحیت پر 1990ء کی دہائی میں کوئی قانون ہوتا تو کویت میں فوج کشی پر عراقی صدر صدام حسین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ صدربش سینئر اور برطانوی وزیر اعظم تھیچر کے مابین اس موضوع پر بات بھی ہوئی تھی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عراق کی دوسری جنگ نہ ہوتی، نہ کسی داعش کو عراق میں اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملتا۔ کریمیا اور یوکرائن میں مداخلت پر روسی صدر ولادی میر پوتن بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہوتے۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا ایسی باتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کا فرمانا تھا ’’امریکی طاقت کو محدود کرنے والے تمام عالمی قوانین اور دیگر کوششیں بے معنی ہیں‘‘۔ بولٹن نے شاید کبھی ارسطو کو بھی نہیں پڑھا تھا جو کہ لکھتے ہیں ’’انسان تمام جانوروں میں مہذب ترین ہے؛ اس ناقص وجود کو قانون اور عدل ممتاز بناتے ہیں‘‘۔ میری نظر میں جان بولٹن شاہ لوئس XIVسے متاثر تھے جس نے پیرس کی پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کہا: ’’یہ اس لئے قانون کے مطابق ہے کیونکہ میں ایسا چاہتا ہوں‘‘۔
جدید دور کے امریکی صدور میں جارج ڈبلیو بش بدترین ہوئے ہیں کہ انہوں نے عالمی قانون کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ بش نے 1972ء کے روس کے ساتھ اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدہ سے امریکا کو الگ کیا؛ عالمی فوجداری عدالت کے قیام کے معاہدہ پر دستخط نہ کئے؛ ایران میں غیر قانونی مداخلت کی؛ جسمانی تشدد سمیت جنیوا کنونشنز کے مختلف خلاف ورزیاں کیں؛ ڈارفر سوڈان میں نسل کشی روکنے میں ناکام رہے۔ امن پسند اور قانون کے پابند خیال کیے جانے والے اوباما نے بیرون ملک مشتبہ دہشت گردوں کی سزائے موت کی اجازت دی؛ 506 ڈرون حملوں کی اجازت دی جس میں ایک اندازے کے مطابق 3040 مبینہ دہشت گرد اور 391عام شہری ہلاک ہوئے۔ البتہ اومابا نے تشدد پر پابندی لگا دی تھی۔
ادھر عام تاثر کے برعکس عالمی قانون کا نفاذ کہیں زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔ کبھی طاقتور خیال کیے جانے والے صدور، وزرائے اعظم اور نائب صدور کے خلاف عالمی عدالت کارروائی کر چکی ہے۔ سابق یوگوسلاویہ کے 161جنگی مجرموں پر عالمی عدالت فرد جرم عائد کر چکی ہے، ان میں بعض گرفتار کر کے جیل بھیج دیئے گئے، کچھ مار ے گئے۔ بعض ا سکالرز اور قانونی ماہرین نے عالمی فوجداری عدالت کے معاہدے کو مزید سخت بنانے کی تجاویز دی ہیں۔ ڈیوڈ شیفر جو کہ بل کلنٹن کے دور میں جنگی جرائم جیسی سرگرمیوں کے ذمہ دار تھے، انہوں نے ریگولر عالمی فورس کا مطالبہ کیا ہے جو کہ گرفتاری کا اختیار رکھتی ہو۔ یہ فورس اعلیٰ تربیت یافتہ پولیس اور فوجی عملے پر مشتمل ہونی چاہیے جو کہ تمام رکن ریاستوں میں آپریشن کا اختیار رکھتی ہو۔ عالمی عدالت کی یہ ٹیم صرف اس وقت کارروائی کرے جب عالمی عدالت کا پراسیکیوٹر یا سکیورٹی کونسل اس سے درخواست کرے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاستیں اپنے اتحادیوں سے معاونت کی درخواست کریں۔ 2011ء میں یوگنڈا نے امریکا سے ا سپیشل آپریشن فورس کے اہلکار بھیجنے کی درخواست کی جو کہ جوزف کونی کی گرفتاری میں مدد کرے۔ جوزف کونی لارڈز مزاحمتی فورس کا سربراہ تھا جو نوجوانوں کو مسلح فورس کا حصہ بنانے کے لیے بے رحمی کی کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ 2018ء میں امریکا اور افریقی یونین کے تعاون سے یوگنڈا نے جوزف کونی کی فورسز کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ جوزف کونی تب سے افریقہ کے وسیع و عریض جنگلوں میں روپوش ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن ایران کے ساتھ جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ نئے معاہدے کے اصولوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر