وجود

... loading ...

وجود
وجود

پی ڈی ایم کا کوئٹہ جلسہ اور پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس

جمعرات 25 نومبر 2021 پی ڈی ایم کا کوئٹہ جلسہ اور پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس

بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے 17 نومبر 2021ء جلسے کی تیاریاں کافی دن پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ تحریک میں شامل مسلم لیگ نواز کی مرکزی قیادت مریم نواز شریف یا میاں شہباز شریف کی آمد کی توقع کی جارہی تھی جو شریک نہ ہوئے۔ میاں شہباز شریف اس روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مصروف تھے، مریم نواز شریف شریک ہوتیں تو اس بڑے اجتماع کو مزید چار چاند لگ جاتے۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 16 نومبر کو کوئٹہ پہنچ گئے تھے، شام کو رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع کی رہائشگاہ پر میڈیا سے گفتگو کی، جہاں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دوسرے رہنماء بھی موجود تھے۔ محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم کے انتہائی فعال رہنماء ہیں، چنانچہ 17 نومبر کو صبح سے ہی بھرپور ماحول بنارہا، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکن ایوب اسٹیڈیم میں جمع ہوتے رہے۔
کوئٹہ شہر کی شاہراہوں پر رنگ برنگی جھنڈیاں دکھائی دے رہی تھیں، ایوب اسٹیڈیم سے ریلی برآمد ہوئی، میر جعفر خان جمالی روڈ، زرغون روڈ، جناح روڈ سے ہوتے ہوئے کارکن واپس زرغون روڈ پر عبدالستار ایدھی چوک پہنچے، یہ مقام جلسہ کے لیے مختص تھا، قائدین کے لیے اسٹیج بنایا گیا تھا۔بلوچستان میں پی ڈی ایم واضح طاقت کی حامل ہے، اس میں جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی شامل ہیں، البتہ بڑی افرادی قوت اس اتحاد کو جمعیت علماء اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے ملی ہے، بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل شریک نہ تھے۔ پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس دن کے احتجاج کی قیادت کی۔ گویا جس روز شہر کوئٹہ میں وفاقی حکومت کیخلاف سیاسی کارکن اْمڈ آئے تھے، عین اس دن پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ پیش ازیں طلب کیا جانے والا مشترکہ اجلاس نہ ہوسکا تھا، شاید حکمران اتحاد کو بلز منظور نہ ہونے کا خدشہ تھا۔ یوں اس روز پورے اعتماد اور تیاری کے ساتھ اجلاس طلب کیا گیا۔
ادھر پی ڈی ایم کے کارکن حکومت کی مخالفت میں نعرہ زن تھے، رہنما گرج و برس رہے تھے، عین ان لمحوں حکمران اتحاد نے متحدہ حزب اختلاف کو مات دیتے ہوئے انتخابی اصلاحات اور بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو کو اپیل کے حق سمیت 33 بلز اکثریت رائے سے منظور کرائے، حزب اختلاف کے کئی ارکان پارلیمنٹ کے اس اہم اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے، سردار اختر مینگل بھی غیر حاضر تھے۔ویسے مارچ 2018ء کو بلوچستان میں مسلم لیگ نواز، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کیخلاف دیدہ و نادیدہ لوگوں کی سازش میں سردار اختر مینگل بڑے فعال تھے، اس بار وہ اپنی مصروفیات ترک کرکے کوئٹہ میں ہی رہے، حکومت گرا کر ہی سکون سے چلے گئے۔ 17 نومبر کی پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے بھی جام کی حکومت گرانے کی تو جہیہ پیش کی کہ ’’بلوچستان کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر حکومت کی تبدیلی میں ساتھ دیا‘‘۔ مطلب یہ ہوا کہ ان کے نزدیک کہیں اداروں کی مداخلت جائز اور کہیں ناجائز ہے۔
ظاہر ہے کہ مارچ 2018ء میں صوبے کے اندر مسلم لیگ نواز، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کیخلاف سازش و کردار ذرا بھی پوشیدہ نہ تھا، اور جمعیت علماء اسلام، اے این پی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور پیپلز پارٹی نے اس کھیل کا حصہ بن کر حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ صوبے کی 3 جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بلواسطہ مقتدرہ کی حکومت کا حصہ بنیں، بعینہ یہ کھیل جے یو آئی اور بی این پی نے جام کیخلاف کھیلا۔ اب کی بار اضافہ پشتونخوا میپ کا ہوا ہے، اصول و جمہوری اقدار روندے گئے، صوبے پر عبدالقدوس مسلط کیے گئے اور اسی بی اے پی کے تمام سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی نے پوری تابعداری کے ساتھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوکر متحدہ حزب اختلاف کو شکست سے دوچار کرنے میں حصہ ڈالا۔
ظاہر ہے کہ ان تضادات کے ساتھ تحریکیں کیسے کامیاب ہوں گی، اوریہاں تحریک کیلئے موسم دیکھے جاتے ہیں، گرمیوں اور دھند کے موسم میں بیانات، پریس کانفرنس اور تقاریر کے ذریعے تحریک چلائی جاتی ہیں اور انتظار بہار کے موسم کا رہتا ہے۔ راست تحریکات کے آگے حالات اور موسم آڑے نہیں ہوا کرتے، تحریک لبیک پاکستان کی مثال بہت ہی تازہ ہے کہ جن کے کارکن موسم کے سرد و گرم سے بے نیاز سڑکوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور اطمینان بخش مذاکرات کے نتیجے میں احتجاج ختم کیا۔ 18 نومبر کو پارٹی قائد سعد رضوی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیئے گئے، نیز سینکڑوں کارکن بھی رہا ہوگئے، 400 سے زائد کارکنوں و رہنمائوں کے نام فورتھ شیڈول سے بھی نکال دیے گئے۔
یقیناً پْرتشدد احتجاج و سلوک خواہ کسی بھی جانب سے کی حمایت نہیں کی جاسکتی اور اس دوران پیش آنے والے واقعات پر دل رنجیدہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پی ڈی ایم بشمول عوامی نیشنل پارٹی و پیپلز پارٹی تضادات و مفادات سے نکلیں گی تو شاید مقصد و ہدف حاصل ہو۔ اور یہ کہاں کی سچ و دیانت ہے کہ جمہوری شائستگی اور سیاست میں عدم مداخلت کے نعرے لگانے والے بلوچستان کو بد سے بدتر میں دھکیل دیں اور وفاق میں ہنوز سیاست میں اداروں کی عدم مداخلت، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے خوش کن یا پْرفریب نعرے بلند کیے جاتے ہوں۔اہل سیاست کے تضادات اور اقتدار کی رسہ کشی ملک میں مارشل لائوں کے لیے راستہ صاف کیا ہے، بلکہ کئی کئی سیاسی جماعتیں براہ راست و عملاً آمریتوں کی سہولت کار رہی ہیں۔ بلوچستان ان ہی رویوں اور تضادات کی وجہ سے پستی و ذلت میں دھنسا ہوا ہے۔ دراصل موجودہ حکمران رجیم سیاسی جماعتوں اور سیاسی بڑوں کی شخصی و گروہی اغراض و مناقشات کی بدولت صوبے پر مسلط ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر