وجود

... loading ...

وجود
وجود

مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام اور بھارت

بدھ 24 نومبر 2021 مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام اور بھارت

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتیں اور اُن کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں مندر ،گوردوارے اور گرجا گھروں کو نقصان پہنچانے کاکوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔کسی اقلیتی عبادت گاہ کو نقصان پہنچنے کی صورت میں انتظامیہ اور عدالتیں نہ صرف سخت با زپُرس کرتی ہیں بلکہ ذمہ داران سے نقصان بھی پورا کیا جاتا ہے ایسی مذہبی آزادی کا بھارت جیسے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جہاں گائے کے گوشت کے شُبے میں مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانا اور جان سے مار دینا معمول ہے۔ اُنھیں زبردستی اذان اور نماز سے روکا جاتا ہے۔ عیسائیوں کی عبادت میں خلل ڈالنا اور مارپیٹ بھی عام سی بات ہے ۔سکھوں کو بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ دلتوں کی بات ہی کیا کریں جو ہر جگہ اور ہر وقت تذلیل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں ،عیسائیوں ،سکھوں اور دلتوں کی مسلسل نسل کشی کے باوجود بھارت کوامریکہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی والے ممالک میں شامل نہیں کرتا۔اسرائیل میں مقبوضہ بیت المقدس کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کی نسل کشی مذہبی آزادی کی بدترین خلاف ورزی ہے لیکن امریکی نہیںمانتے ۔ البتہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی انتہائی خلاف ورزیوں میں ملوث پہلی دس ریاستوں میں ضرور شمار کیا جاتا ہے۔
روس اور چین سے امریکی مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں اِس لیے انھیں لسٹ میں شامل کرنے کی وجہ توسمجھ میں آتی ہے جبکہ میانمار،ایران ، شمالی کوریا اور اریٹریا پربھی اُسے غصہ ہے مگر سعودی عرب ،تاجکستان اور ترکمانستان کا جرم صرف اسلامی ملک ہونا ہے۔ اسی لیے نام شامل کیا گیا ہے۔ یہ دُہرا معیارہی امریکیوں کودنیا میں ناقابلِ اعتبار بنا رہا ہے اور اقوامِ عالم میں اُس کی مخالفت بڑھنے کا باعث ہے ،لیکن سمجھنے کے بجائے امریکا جھکا کر شرائط منوانے کے چکر سے باہر نہیں نکل رہا۔ اگرپالیسی پر نظر ثانی نہیں کی جاتی تو اپنا ہی نقصان کر ے گا کیونکہ چین کی صورت میں دنیا کے پاس اب متبادل موجودہے جو جنگ نہیں سرمایہ کاری کے ذریعے ریاستوں سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ نیز عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اِس لیے جھکانے کے بجائے برابری کی بنیاد پر تعلقات اُستوار کرنے میں ہی امریکا کی بہتری ہے۔
گیلپ گلوبل نے2021 کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان اور سری لنکا کو جنوبی ایشیا کے محفوظ ترین ممالک قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کا نمبرچالیس اور بھارت کا نام چھپن نمبر پر ہے۔ آزاد اِدارے کی رپورٹ میں پاکستان کا نمبر بھارت سے سولہ درجے بہتر ہے ۔امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن اِتنے لاعلم یا کمزور بصارت رکھتے ہیں کہ حقیقت کاادراک نہیں کر سکتے؟ مانا کہ کچھ بڑھا بھی لیتے ہیں زیبِ داستاں کے لیے، مگر سچ کو چُھپانا کہاں کی دانشمندی ہے؟رواں ماہ دوفہرستیں جاری ہوئیں۔سولہ نومبر کو امریکا نے مذہبی آزادی کی انتہائی خلاف ورزیوں میں ملوث دس ممالک کی فہرست جاری کی جبکہ بیس نومبر کو گیلپ گلوبل نے جنوبی ایشیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست جاری کر دی۔ پہلی فہرست امریکی جانبداری کا شاہکار ہے جبکہ دوسری فہرست ایک غیر جانبدار اِدارے نے مرتب کی ہے ۔ دونوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی سچ و جھوٹ آشکار ہو جاتا ہے۔ بہتان طرازی اور من گھڑت الزامات لگا کر کیا امریکی ساکھ بہتر کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔بلکہ ایک بار پھر ثابت ہوگیاہے کہ سچ وجھوٹ سے امریکاکو غرض نہیں وہ دوست ممالک کے گناہ اور خامیاںنظر انداز جبکہ مخالف ریاستوں کو جھکانے کی کوشش میں ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں امن کی صورتحال بہترین ہے۔ مذہبی روادری کی وجہ سے اقلیتیں محفوظ ہیں ۔فرقہ واریت اور مسلح گروپوں پر قابو پایا جا چکاہے۔ براستہ افغانستان سے پشتون اور بلوچ تحریکوں کو بھارتی اسلحے ،رقوم اور تربیت کا خاتمہ ہونے سے دہشت گردوں کا زور ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے آج پاکستان امن کے حوالے سے بھارت سے بہت بہتر ہے لیکن یہ سچ ساری دنیا کو نظر آرہا ہے صرف جانبدار امریکا دیکھنے سے قاصر ہے ۔
حال ہی میں امریکی سینیٹ میں افغانستان کے حوالے سے پیش کردہ چار بلز اور کمیشن رپورٹس سے پاکستان کے خلاف تحفظات خارج کیے گئے ہیںجو ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک امریکہ قُربت کا موسم افغان جنگ کے دوران ہی رخصت ہوچکا ۔ اِس قربت کوبھی ختم کرنے میں امریکا کا کلیدی کردار ہے۔ اِس میں کوئی دورائے نہیں۔ پاکستان کے حکمران ہر وقت کورنش بجا لانے اور خدمات پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہنے کے باوجود وقتی طور پر ہی منظورِ نظرکا منصب حاصل کر سکے، مطلب ختم ہوتے ہی نظر انداز بھی ہوتے رہے، پھر بھی ہمارے حکمرانوں کی زبان پر کبھی شکوے و شکایات نہیں آئیں، ایسی فریفتگی کسی کے عشق کی سچائی کو پر کھنے کے لیے کافی ہے لیکن آج دونوں ممالک میں اعلیٰ سطح پر مراسم اتنے بگاڑ کے شکار ہیں کہ جو بائیڈن نے صدرکامنصب سنبھالنے کے بعدسے پاکستان کومسلسل نظر انداز کر رکھا ہے ،باوجود اِس کے کہ کئی پس ماندہ ممالک کے سربراہان سے بات چیت کی اور پالیسیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا مگر دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی ریاست کے سربراہ سے بات چیت کے لیے انھیں اِس لیے وقت نہیں مل سکا کہ دونوں ملکوں میں قربت کا موسم رخصت ہو چکا ہے ۔
کوئی ملک کسی کا پابند نہیں جس کا جس سے مفاد ہوتا ہے وہ اُسی سے تعلق بناتا ہے جس سے مفاد نہیں ہوتا ،اُسے نظر انداز کرنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ریاستوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔ اسی لیے پاکستان دفاعی معاہدوں میں شامل ہوکر بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عالمی حمایت حاصل نہیں کر سکا جبکہ بھارت جیسا ملک روسی کیمپ میں شامل ہو کر بھی امریکہ کو کشمیر کے حوالے غیر جابندار ہونے پر قائل کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ امریکی قیادت کو چین کے توڑ کے لیے کسی مناسب کردار کی تلاش تھی۔ اسی بنا پر روس کے طرفدار ہونے کے باوجود بھارت کو مخالف نہ بنایا گیا۔ آج تو حالات ہی تبدیل ہو چکے ہیں ۔بھارت جیسا جنونی ملک صرف امریکا کا ہی منظورِ نظر نہیں بلکہ وہ مغربی ممالک اسرائیل ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ عرب ریاستوں سے قریبی اور گرم جو شی پر مبنی تعلقات اُستوار کر چکا ہے، اُس کی خامیاں کسی کو نظر نہیں آتیں کیونکہ سب سے زیادہ دفاعی ہتھیار خریدنے والا دنیا کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے، اُس کی منڈی پر سب کی نظر ہے ہتھیار فروخت کرنے اور چین کے بڑھتے عالمی کردار کو محدودکرنے کے لیے عالمی طاقتیں بھارت کے ناز نخرے اُٹھانے پر مجبورہیں۔ اِن حالات میں یہ سمجھ لینا کہ پاک امریکا تزویراتی اتحادی ہیں ، کسی طور درست نہیں ۔ ہاں مسقبل میں کبھی امریکیوں کو پاکستانی کردار کی ضرورت محسوس ہوئی تو محدود مدت کے لیے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ پاک امریکا
قربت کا موسم قصہ پارینہ بن چکا۔اگر قربت کا موسم جوبن پر ہوتا تو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام عائد نہ کیا جاتا گیلپ گلوبل کا پاکستان کو جنوبی ایشیا جیسے خطے کا محفوظ ترین ملک قرار دینا سچائی ہے مگر اِس حقیقت کو امریکا تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ نئے حالات میں اُسے پاکستان کی بجائے بھارت زیادہ عزیز ہے۔
٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر