وجود

... loading ...

وجود
وجود

خوشبو کی شاعرہ ، پروین شاکر

بدھ 24 نومبر 2021 خوشبو کی شاعرہ ، پروین شاکر

شمعو نہ صدف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروین شاکر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲؁ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ، میٹرک تک تعلیم رضویہ سوسائٹی ناظم آباد (رضویہ گرلز ہائی اسکول) سے حاصل کی۔سر سید گرلز ڈگری کالج ناظم آباد سے بی اے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے پہلے انگریزی ادب جب کہ اس کے بعد انگریزی لسانیات میں ایم اے کیا اور پہلے عارضی طور پر سر سید گرلز کالج میں طالبات کو پڑھایا بعد ازاں عبد اللہ گرلز کالج کراچی میں مستقل بنیاد پر آپ کا بحیثیت لیکچرر تقرر ہوگیا۔پروین شاکر کا حصول تعلیم سے استاد بننے تک کا سفر ۱۹۷۴؁ء تک ۱۸ سالوں پر محیط ہے اسی دوران سر سید گرلز کالج میں ایک طرحی مشاعرہ بیگم بلقیس کشفی کی صدا رت میں منعقد ہو تھا جس میں پر وین شاکر نے بحیثیت ایک طا لبہ پہلی با ر اپنی شا عری پیش کی تھی جس پر انہیں پہلا انعام دیا گیا تھا ۔پروین شاکر کا گھرانہ چونکہ خوشحال تھا لہٰذا اسے مفلسی اور بے زری اور محرومی کے دور سے نہیں گزرنا پڑا لیکن اس کا وژن(vision) اس قدر وسیع تھا اور اس میں ادراک کی اس قدر قوت تھی کہ اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں موجود لڑکیوں اور خواتین کے ہر طرح کے جذبات و احساسات کو پوری طرح سے محسوس کرلیا تھا اسی لیے جب یہ نازک اندام شاعرہ ناز و نعم میں پل کر جوان ہوئی تو اس کی شاعری محبتوں،امیدوں اور خوشبوئوں کا حسین امتزاج بن گئی اور یوں ’’خوشبو‘‘ جیسی شاہکار کتاب نے جنم لیا۔
کوبہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
٭٭٭٭٭
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جائوں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
مرے چہرے پر تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
پروین شاکر کی اولین شاعری پر رومانیت چھائی ہوئی ملتی ہے مگر یہ رومانیت مجنونانہ رومانیت نہیں ہے جو جذبوں کو دیوانگی سے ہم کنار کردے اور فکر کو پابہ زنجیر کرکے رکھ دے بلکہ اس رومانیت سے زندگی سے پیار بڑھتا ہے اور انسانی شعور و ادراک کو مہمیز لگتی ہے یہ رومانیت پھیل کر جب کائنات پر محیط ہوجائے تو شاعری پیغمبری کا ایک جز بن جاتی ہے کیونکہ بڑا شاعر کبھی بھی داخلیت کے حصار میں مقید نہیں رہ سکتا ، وہ ہمیشہ اپنے ناموافق ماحول اور معاشرے کے کھوکھلے پن سے شاکی بھی رہتا ہے اور اسے اپنی شاعری کا حصہ بھی بناتا ہے۔وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی کو اپنے خیالات ، خوابوں اور تصورات کی مانند پاک و صاف اور حسین و جمیل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے پروین شاکر کے عصری شعور نے اسے اس اجتماعی کرب سے ہمیشہ ہی دوچار رکھا۔شاعر کا قلم اس کاطاقتور ہتھیار ہوتاہے اور اس کی تحریر ایک ہمہ گیر صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے تو پورے عہد کی آواز بن جاتی ہے پروین شاکر کے اس معاشرتی شعور اور آشوب آگہی کی یہ تصویر انسانی احساس کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔
دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے
تو مجھ کو کرب ذات کی سچی کمائی دے
میں عشق کائنات میں زنجیر ہوسکوں
مجھ کو حصار ذات کے شر سے رہائی دے
٭٭٭
مسافرانِ شب غم اسیر دار ہوئے
جو راہنما تھے ، بکے اور شہریار ہوئے
٭٭
باہر سے نئی سفیدیاں ہیں
اندر سے مکاں ڈھ رہا ہے
٭٭
اہرام ہے یا کہ شہر میرا
انسان ہیں یا حنوط لاشیں
سڑکوں پر رواں، یہ آدمی ہیں
یا نیند میں چل رہی ہیں لاشیں

پروین شاکر کی پہلی کتاب ’’ خوشبو‘‘ ۱۹۷۷؁ء میں شائع ہوئی جبکہ دیگر تین مجموعائے کلام” صدبرگ” ،” خود کلامی” اور” انکار” اگلے سات آٹھ برسوں میں چھپ گئے ۔شاید قدرت ان سے ان کے حصے کا کام جلدی جلد ی لے رہی تھی جبکہ اس کے آخری مجموعہ کلام ’’انکار ‘‘ کی اشاعت کے چند سال بعد عین اسی سال جو اس دنیا سے اس کی رخصتی کا سال تھا اس نے اگلا کوئی شعری مجموعہ شائع یا مرتب کرنے کے بجائے اپنے سابقہ چاروں شعری مجموعوں کو کلیات کی شکل میں ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے اپنی وفات سے چند ماہ قبل شائع کردیا۔شعری تخلیقی سفر کا آگے جاری نہ رہنا اور سابقہ شعری سرمایہ حیات کو سمیٹ کر مرتب کرنا اس بات کی طرف کلی اشارہ تھا کہ
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
سینیٹر اعتزاز احسن کے مطابق پروین شاکر سے انہوں نے ماہ تمام کی ترتیب کی وجہ پوچھی تو جواب ملا ’’زندگی کا کیا بھروسہ کب ساتھ چھوڑ جائے لہٰذا میں چاہتی ہوں کہ اپنی حیات میں ہی اپنے کلام کو یکجا کرکے شائع کردوں۔‘‘بھارتی رائٹر و استاد محقق و دانشور ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپالی) ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’۱۹۹۴؁ء میں ان کی تمام تخلیقات کاایک ضخیم مجموعہ ’’ماہ تمام‘‘کے نام سے شائع ہوا اور اس کے کچھ ماہ بعد ہی ۴۲ برس کی عمر میں (جو مرنے کی نہیں ہوتی) وہ اچانک ہم سے رخصت ہوگئیں۔اردو دنیا میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کا آخری مجموعہ ’’ماہ تمام‘‘ جس کی قیمت ہندوستانی روپوں میں اس وقت(1994) میں چھ سو روپے بنتی تھی دبئی میں ایک ادبی محفل میں فروخت ہوا تو ان کے پرستاروں نے طویل قطار میں کھڑے ہوکر اسے خریدا اور وہاں موجود دوسری ادبی شخصیات حیرانی کے ساتھ اس منظر کو دیکھتی رہیں۔‘‘انہوں نے آگے لکھا ہے کہ ۱۹۸۶؁ء میں پروین شاکر جب ہندوستان آئیں تو نئی دہلی کے ہوٹل” جن پتھ ” میں ٹہریں جہاں ان کی جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ لگی رہی اتنی مقبولیت اگر کسی فلمی اسٹار یا فلمی شاعر کو ملے تو حیرت نہیں ہوتی لیکن اردو کی کسی ۳۵ سالہ شاعرہ کو یہ مقبولیت حاصل ہونا معمول کی بات نہیں کہ اس کی شاعری کے بیشتر حصے کا ترجمہ خود ان کی زندگی میں تمام عصری زبانوں میں ہوجائے اس لحاظ سے تو وہ اپنے معاصر مرد و شعراء سے بھی کافی آگے نظر آتی ہیں۔‘‘پروین شاکر نے ۱۹۸۱؁ء میں سی ایس ایس کا امتحان دے کر ملک بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے کسٹم کے محکمے کو جوائن کرلیا تھا جس سے وہ اپنی ناگہانی و حادثاتی وفات تک منسلک رہیں بلکہ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴؁ء کی صبح وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ اسلام آباد میں واقع اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کا ایکسڈنٹ ہوگیا۔ زخم اتنے شدید تھے کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں اور یہ کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہوگئیںکہ:۔
ساتھ میرا زمیں دیتی مگر
آسماںکا ہی اشارہ اور ہے
حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر