وجود

... loading ...

وجود
وجود

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

پیر 22 نومبر 2021 کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

حنظلہ عابد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بجھکڑ (بے وقوف شخص )کا قصہ مشہور ہے جو اپنے آپ کو کافی عقلمند کہلواتا تھا ، بڑے جوش و خروش سے لوگوں کو اپنی فرضی دانائی کی کہانیاں سناتا تھا ۔ ایک بار قریب کے کسی گاؤں کا ایک شخص درخت پر چڑھ کر پھنس گیا اور پھر اترنا مشکل ہو گیا ۔ گاؤں کے لوگ جمع ہوئے مگر کوئی راہ نہ نکال سکے آخر لال بجھکڑ کو بلایا گیا ۔ لال بجھکڑ نے آتے ہی مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالا اور ایک لمبا رسا منگوا کر اس کا ایک سرا درخت پر پھنسے شخص کی طرف پھینکا اور اسے حکم دیا کہ اس سے اپنے آپ کو خوب کس کر باندھ لو اور دوسرا سرا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر نیچے کھڑے لوگوں کو دور دور ہٹ جانے کا کہا ۔ پھر ایک جھٹکے سے رسے کو نیچے کھینچا تو درخت پر پھنسا شخص ایک ہی لمحے میں زمین پر آ لگا اور ہڈی پسلی ایک ہو گئی ۔ گاؤں کے لوگوں میں کہرام مچ گیا اور سب نے لال جھکڑ کو گھیر لیا کہ یہ کیسا عقلمندی کا فیصلہ کیا ؟؟ لال بجھکڑ نے کہا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ ابھی چند ہی دن پہلے کنویں میں ایک شخص پھنس گیاتھا اسے بھی میں نے اسی طرح اپنے آپ کو رسے سے باندھنے کا حکم دیا اور ایک جھٹکے سے رسے کو کھینچا تو وہ صحیح سلامت زمین پر آکھڑا ہوا مگر یہاں شاید اس بندے کی موت پہلے سے ہی لکھی جا چکی تھی ۔اس لیے یہ زمین پر آکر بچ نہ سکا ۔
ہمارے ہاں بھی ایک بہت بڑا دانشور طبقہ اس طرح کی غلط فہمی میں مبتلا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ترقی و تنزلی کے ایک ہی اسباب ہیں ۔اگر ساری دنیا کا کفر سائنسی میدان میں ترقی کی وجہ سے آج دنیا پر راج کر رہا ہے تو مسلمانوں کے زوال کی وجہ بھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ وہ سائنسی اور عسکری ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں اور مسلمانوں کا زوال اسی دن سے شروع ہوگیا جس دن وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی اور عسکری جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی وقت کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور اسلام بھی یہی درس دیتا ہے ۔(واعدوا لھم ما استطعتم من قو)مگر ہمارے زوال کی بنیادی وجہ ہی سائنسی کمزوری اور وسائل کی کمی کو سمجھنا انتہائی غلط نقطہ نظر ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے عروج کا زوال کے اسباب الگ الگ ہیں ۔ اگر غیر مسلموں کی ترقی و تنزلی کا دارومدار مادی میدان کی دوڑ پر منحصر ہے تو مسلمانوں کا عروج و زوال ایمان و عمل صالح کی کسوٹی پر ہے۔ اس نقطہ نظر کا اظہار بر صغیر کے ایک نامور مفکر و ادیب علامہ شبلی نعمانی نے ان الفاظ میں کیا کہ اگر کافروں کی ترقی اس میں ہے کہ وہ آگے بڑھتے جائیں آگے بڑھتے جائیں تو مسلمانوں کی ترقی اس میں ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے جائیں پیچھے ہٹتے جائیں ۔یہاں تک کہ صحابہ کی صف میں جا کر کھڑے ہو جائیں ۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
اگر ہم قرآن مجید میں انصاف کی نظر دوڑائیں جو کہ صرف آسمانی کتاب ہی نہیں بلکہ دنیا میں رونما ہونے والے زمینی حقائق اور فطرت کے نہ بدلنے والے اٹل قوانین کی حامل کتاب ہے تو ہمیں ہر کامیابی و سرخروئی اور عروج و خلافت کی شرط صرف ایمان و عمل صالح بتلائی گئی ہے ۔اسی طرح اگر ذرا مڑ کر ایک گہری نگاہ تاریخ پر ڈالی جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اسلام کے غلبے کی ابتدائی جنگ ہی ایسے حالات سے شروع ہوئی کہ مسلمانوں کے پاس نہ کوئی اسلحہ تھا نہ کوئی تیر تلوار اور گھوڑے ۔ تعداد میں بھی کافروں کے مقابلے میں ایک تہائی تھے ۔ وسائل کے لحاظ سے کافروں کے پاس ایک سو گھوڑے تھے تو مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے ۔ ان کے پاس ایک ہزار اونٹ تو مسلمانوں کے پاس صرف ستر اونٹ مگر اس بے سروسامانی اور تہی دامنی کے باوجود ایمان ان کے دلوں میں پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور زندگی ایک خدا کی بندگی کا مظہر تھی پھر دنیا گواہ ہے کہ فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی ۔ایسے کوئی ایک دو واقعات نہیں جنہیں کوئی اتفاقات کا نام دے کر نظر انداز کر دے بلکہ اگر غور کیا جائے تو کڑی سے کڑی جڑی نظر آئے ۔غزوۂ احد میں سات سو مسلمانوں کے مقابلے میں تین ہزار کفار ، غزوہ احزاب میں تین ہزار مسلمان اور دس ہزار کفار ، غزو ہ خیبر میں چودہ سو مسلمان جبکہ دس ہزار کفار تھے ، غزو موتہ میں تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں دو لاکھ کفار کا لشکر صف آرا تھا۔ ان سب غزوات میں مادی وسائل کا پلڑا ہمیشہ کفار کی طرف رہا اور مسلمان وسائل کے اعتبار سے کئی گنا کم تھے مگر فتح وسائل اور افرادی قوت کی نہیں ، دلوں میں موجود ایمان و یقین کی ہوئی ۔سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد میں یرموک کے میدان میں تاریخی معرکہ ہوا جس میں تیس ہزار مسلمان دو لاکھ رومیوں سے ٹکرا ئے ۔ صرف تین ہزار مسلمان شہید ہوئے جبکہ رومیوں نے ایک لاکھ سپاہیوں کی ہلاکت کے ساتھ شکست فاش کھائی ۔طارق بن زیاد سات ہزار مسلمانوں کے ساتھ جبرالٹر کے مقام پر اندلس میں اترے، تو مقابلے میں راڈرک ایک لاکھ فوج لے کر آیا جو کیل کانٹوں سے مکمل لیس تھی مگر فتح کا پھل ایمان و یقین کے علم برداروں کی گود میں ہی گرا ۔
محمد بن قاسم کے مقابلے میں راجہ داہر چالیس ہزار کا لشکر جرار لے کر آیا مگر صرف پندرہ ہزار مسلمانوں نے دانت کھٹے کر دیے اور راجہ داہر کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔قتیبہ بن مسلم پورے وسط ایشیا پر فتح کا پرچم لہراتا ہوا چین تک پہنچا اور خاقان چین کے بھتیجے کی قیادت میں لڑنے والے دو لاکھ کے چینی لشکر کو بڑی کم تعداد اور کم وسائل کے ساتھ شکست دی اور بالاخر جزیہ دینے پر مجبور کیا ۔الپ ارسلان نے پندرہ ہزار فوج کے ساتھ قیصر روم ارمانوس کے تین لاکھ کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر کے خود قیصر روم کو گرفتار کیا ۔بہر حال ہمیشہ بہترین وسائل اور وقت کی ٹیکنالوجی کو شکست ہوئی اور نسبتاً نہتے مسلمانوں کا ایمان و عمل صالح اور خدا کی فرمانبرداری ہر میدان میں کام دے گئی صرف یہاں تک نہیں بلکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیے کہ غزو حنین میں ذرا سا ایمان و یقین کو ڈگمگا دینے والا خیال آیا کہ آج تو ہم کثرت سے ہیں اور وسائل بھی بھرپور ہیں تو وقتی طور پر وسائل کے باوجود شکست دے کر یہ سبق سکھا دیا گیا کہ تمھارا معاملہ کثرت و قلت اور وسائل کی کمی زیادتی سے رہا ہی نہیں ہے ، تم پہلے بھی ایک خدا کی فرمانبرداری کی وجہ سے آسمانی مددونصرت کے بل بوتے پر فاتح رہے اور آئندہ بھی یہی ہوگا ۔ایک موقع پر تو مسلمان پوری دنیا پر غالب تھے ہر طرف ان کا طوطی بولتا تھا ،وہ بلاشرکت غیرے دنیا کی سپر پاور تھے لیکن پھر آنا فانا ایسا ہوا کہ مسلمانوں کی یہ ساری ہیبت ناک طاقت تاتاریوں کے ایک ہی ہلے میں ہوا ہوگئی اور دریائے فرات لاکھوں مسلمانوں کے خون سے کئی دن تک سرخ رہا ۔کیا اس وقت ہم غیر مسلم دنیا سے سائنسی ترقی میں پیچھے تھے ؟ہرگز نہیں بلکہ مادی ، اقتصادی اور عسکری اعتبار سے
ساری دنیا پر غالب رہے ۔ اتنی بڑی طاقت بھرپور وسائل کے باوجود اتنی آسانی سے تباہی و بربادی کی بھینٹ چڑھ گئی کیونکہ مسلمانوں کے ایمان کی سطح اور عمل کا معیار اس حد تک گرچکا تھا کہ حاکم سے لے کر غریب رعایا تک سب کے سب خدا کو چھوڑ کر نفس کے پجاری بن چکے تھے ۔آج موجودہ حالات چیخ چیخ کر جھنجھوڑ رہے ہیں کہ خدارا کبوتر کی طرح آنکھیں موندنے کے بجائے حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں کہ ایمان وعمل کی کمزوری ہی ہمارے زوال کی سب سے بنیادی وجہ ہے ورنہ پچاس سے زائد اسلامی ممالک وسائل کے اعتبار سے پہلے سے کہیں زیادہ آراستہ ہیں مگر ایمانی ضعف اتنا کہ اتحاد کی چادر تار تار ہے اور ہر مسلم ملک اسلامی اخوت کے بجائے قوم پرستی اور وطن پرستی کا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہے اور دنیا ئے کفر متحد ہو کر ایک ایک اسلامی ملک کو بم بارود سے راکھ بنا رہا ہے ۔ عراق ، فلسطین ، چیچنیا ، برما ، افغانستان اور کشمیر ۔ باری باری اور اب خدا جانے کس کی باری ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر