وجود

... loading ...

وجود
وجود

زرعی قوانین کی واپسی کاسبق

پیر 22 نومبر 2021 زرعی قوانین کی واپسی کاسبق

 

آخرکار حکومت کو کسانوں کے آگے جھکنا ہی پڑا۔ ایک سال پہلے پارلیمنٹ سے زورزبردستی پاس کرائے گئے متنازع زرعی قوانین کوواپس لینے کا اعلان خود وزیراعظم نریندرمودی نے کیا۔ انھوں نے جمعہ کی صبح قوم کے نام خصوصی خطاب میں کہا کہ’’آج میں آپ کو، پورے دیش کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہینے کے آخر میں شروع ہورہے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہم ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا دستوری عمل پورا کردیں گے۔‘‘
اس طرح وزیراعظم نے ازخود ان متنا زع قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا، جنھیں اب تک انھوں نے اپنے وقار کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔اس سے یہی ثابت ہوا کہ جمہوریت میں عوام ہی سب سے اہم ہوتے ہیں اور رائے عامہ کے سامنے حکومت کا غرور کوئی معنی نہیں رکھتا۔شاید یہ آزاد ہندوستان کی پہلی سرکار ہے جو یہ تاثر پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے کہ اس کا کیا ہوا ہر کام اور ہر فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے۔ مگر جمہوریت بلاشبہ ایک ایسا نظام حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے، عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ ہی چلایا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی جن طاقتوں نے اقتدار کے گھمنڈ میں عوامی امنگوں کو درکنار کرکے من مانی کرنے کی کوشش کی ہے، وہ نشان عبرت بنادی گئی ہیں۔ متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسان گزشتہ ایک سال سے تحریک چلارہے تھے۔انھوں نے اس دوران بہت مصیبتوں کا مقابلہ کیا۔ شدید سردی اور بارش کے موسم میں بھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے۔
اپنے اتحاد اور عزم سے انھوں نے پورے ملک میں ان قوانین کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کیا۔ لیکن حکومت اپنی ساری توانائی ان قوانین کی خوبیوں کو بیان کرنے میں لگاتی رہی۔حکومت کا خیال تھا کہ کسان اپوزیشن کے آلہ کار ہیں اور دیر سویر ہتھیار ڈال دیں گے۔بعد میں کسان تحریک کی کامیابی دیکھ کر حکومت متنازع قوانین میں ترمیم پر تو راضی ہوگئی تھی،لیکن مکمل واپسی میں اسے اپنی توہین محسوس ہورہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ کسانوں کے اصل مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے انھیں بدنام کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔انھیں خالصتانی، موالی اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔حکمراں جماعت کے عام کارکن ہی نہیں ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے ہوئے وزیر بھی ان کے خلاف بھڑاس نکالنے میں پیچھے نہیں تھے۔ایسا لگتا تھا کہ کسانوں نے ان کی دم پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے۔حالانکہ کسانوں کی تحریک پوری طرح پرامن تھی اور وہ گاندھیائی طریقوں سے احتجاج کے جمہوری حق کا استعمال کررہے تھے، لیکن ایسا کوئی الزام نہیں تھا جو انھیں بدنام کرنے کے لیے نہ لگایا گیا ہو۔ ان کے حوصلوں کو توڑنے کے لیے تشدد کا بھی راستہ اختیار کیا گیا۔ان میں پھوٹ ڈالنے کی بھی کوششیں ہوئیں اور انھیں راستوں سے ہٹانے کے لیے کچلا بھی گیا۔ اس سلسلہ کا سب سے دردناک واقعہ پچھلے دنوں اترپردیش کے لکھیم پورکھیری میں پیش آیا، جہاں ایک مرکزی وزیر کے بیٹے نے دھرنے پر بیٹھے کسانوں پر اپنی گاڑی چڑھادی۔ اس سانحہ میں کئی کسانوں کی موت واقع ہوگئی۔ مجموعی طورپر اس تحریک کے دوران650سے زیادہ کسانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت کے کسی کارندے نے ان کی موت پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس حکومت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اقتدار کے گھمنڈ میں کسی کوخاطر میں نہیں لاتی۔ جو لوگ اس کے خلاف زبان کھولتے ہیں، ان کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف تحریک میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، وہ سبھی آج سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انھیں شمال مشرقی دہلی کے فساد کا ماسٹرمائنڈ قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمات قائم کئے گئے تاکہ انھیں ضمانت ہی نہ مل سکے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بی جے پی اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہے جو اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران کیا تھا۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کسانوں کی تحریک کے دوبڑے مراکزتھے۔ ان میں پہلا مرکز پنجاب تھا اور دوسرا یوپی۔ ان دونوں ہی صوبوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ پنجاب میں اس وقت کانگریس کی سرکار ہے، جبکہ اترپردیش میں خود بی جے پی اقتدار میں ہے۔بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ ایک طرف پنجاب کو کانگریس کے ہاتھوں سے چھینے تو وہیں یوپی میں دوبارہ اقتدار میں واپس آجائے۔کسان تحریک کے انتخابی سیاست پر اثرانداز ہونے کا احساس بی جے پی کو حالیہ ضمنی الیکشن میں بہت شدت کے ساتھ ہوا۔ اپنے اقتدار والے صوبے ہماچل پردیش میں وہ اسمبلی کی تین اور پارلیمنٹ کی ایک سیٹ کانگریس سے ہارگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ہماچل میں سیب کی کاشت کرنے والے کسانوں نے بی جے پی کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یوں تو آئندہ چند مہینوں میں پانچ صوبائی اسمبلیوں میں چناؤ ہونے والے ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت اترپردیش اور پنجاب ہی کی ہے۔ مغربی یوپی کے کسانوں میں بی جے پی کے خلاف جو ماحول ہے، اس نے یوگی سرکار کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے تھے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے حکومت کے ہرظلم اور ناانصافی کا مقابلہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ کیا۔انھوں نے کسانوں کو واپس گھروں کو جانے کی وزیراعظم کی اپیل کو ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ کسان اس وقت تک اپنی جگہوں سے نہیں ہٹیں گے، جب تک پارلیمنٹ سے باقاعدہ ان قوانین کو رد کرنے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔انھوں نے اس موقع پرکہا کہ سرکارایم ایس پی کے ساتھ ساتھ کسانوں کے دیگر مطالبات پربھی بات چیت کرے۔اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ کسان ابھی اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور وہ اس وقت تک اپنی جگہوں سے نہیں ہٹیں گے جب تک اس ماہ کے آخر میں پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوجانے کے بعد ان قوانین پر واپسی کی مہر نہیں لگ جاتی۔
زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان ہونے کے بعد شہریت ترمیمی قانون کو بھی واپس لینے کے مطالبات میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو ملک گیر احتجاج ہوا تھا ، اس کا مرکز دہلی کا شاہین باغ تھا۔ شاہین باغ میں لاکھوں انسانوں کا ہجوم امڈآیا تھااور یہ جگہ قاہرہ کے تحریر اسکوائر کی طرح دنیا بھر میں مشہور ہوگئی تھی۔ اس دوران ملک میں کورونا کی وبا نے زور پکڑلیااور سپریم کورٹ کے سہارے اس تحریک کو ختم کردایا گیا۔لیکن شہریت ترمیمی قانون میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے، اس پر لوگوں کا غصہ برقرار ہے۔حکومت کو بھی اس کا احساس ہے کہ یہ تحریک دوبارہ زور پکڑ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ میں پولیس آج بھی پہرہ دے رہی ہے۔کسانوں کی طرح اس تحریک کو بدنام کرنے کے لیے بھی تمام ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔عالمی شہرت حاصل کرنے والی اس تحریک کو جزوی کامیابی تو حاصل ہوئی، لیکن اس کے اہم کرداروں کی گرفتاری نے اس کی دھار کسی حد تک کمزور کردی۔ضرورت اس بات کی ہے شہریت ترمیمی قانون میں کی گئی فرقہ وارانہ ترمیم کو رد کرانے کے لیے ایک بار پھر حکومت کو مجبور کیا جائے۔ بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اس قانون کو بھی زرعی قوانین کی طرح ازخود واپس لینے کا اعلان کرے۔
زرعی قوانین کی واپسی میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ اس کا سب سے اہم سبق یہی ہے کہ جمہوری نظام میں اتحاد واتفاق اور صبر وتحمل سے ہی تحریکیں پروان چڑھتی ہیں۔سی اے اے قانون کے خلاف عوامی تحریک کسی قیادت اور رہنمائی کے بغیر اپنے عروج تک پہنچی۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت اس میں ایک تماش بین کے طورپر شریک ہوئی۔ اس نے اپنی مصلحتوں کے تحت اس میں کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کیا۔ کسان تحریک کی کامیابی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے حکمت عملی اور صبروتحمل کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہنا ہوگا۔ خدااعتمادی اورخود اعتمادی کے ساتھ پیش قدمی کرنے سے ہی مسائل کا حل نکلے گا۔ ہرطرح کا خوف اور کمزوری دل سے نکالنا ہوگی۔ ہم اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرکے ہی منزل کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔یہی کسان تحریک کی کامیابی کا سب سے بڑا سبق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر