وجود

... loading ...

وجود
وجود

تبدیلی کا بورڈ۔۔

جمعه 19 نومبر 2021 تبدیلی کا بورڈ۔۔

دوستو،ایک شخص نے مچھلی فروشی شروع کی تو سوچا، دکان پر ایک خوبصورت بورڈ لگا دیا جائے جس پر لکھا ہو۔۔یہاں میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔۔بورڈ بن کر آگیا تو کچھ دوستوں کو مدد کے لیے بلوایا کہ ساتھ مل کر بھاری بھر کم بورڈ لگوایا جاسکے۔۔ایک دوست نے بورڈ پڑھا تو پوچھا ۔۔تمہارے کاروبار کی کوئی اور شاخ بھی ہے؟؟ مچھلی فروش نے کہا ، جی نہیں۔۔ دوست نے مشورہ دیا۔۔ تو پھر’’یہاں‘‘ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔۔میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔دوسرے دوست نے پوچھا۔۔۔کیا اس علاقے میں میٹھے پانی کے علاوہ کھارا پانی بھی موجود ہے؟؟۔۔مچھلی فروش نے پھر سے انکار میں گردن ہلادی۔۔دوست بولا۔۔توپھر ’’میٹھے پانی‘‘ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔۔تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔ایک اور دوست نے پوچھا۔۔مچھلی باسی بھی بیچو گے؟؟۔۔مچھلی فروش کہنے لگا، ہرگز نہیں۔۔دوست بولا۔۔تو پھر یہاں ’’تازہ‘‘ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔۔ایک اور دوست نے پوچھا۔۔۔۔مچھلی ادھار بھی دی جاتی ہے؟؟۔۔مچھلی فروش کہنے لگا۔۔جی نہیں۔۔دوست بولا۔۔ توپھر ’’فروخت‘‘ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔مچھلی ہوتی ہے۔۔ایک دانا دوست بولے۔۔۔مچھلی کے علاوہ بھی کچھ بیچو گے؟۔۔مچھلی فروش بولا۔۔جی بالکل بھی نہیں۔۔دوست کہنے لگا۔۔تو پھر’’مچھلی ‘‘ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔’’ہوتی ہے‘‘۔۔واقعہ کی دُم:خاں صاحب کی تبدیلی کا بورڈ بھی ان کے ان گنت مشیروں، وزیروں کے حکیمانہ مشوروں کے باعث اب صرف ’’ہوتی ہے‘‘ پر مشتمل ہے۔۔
چڑھدے پنچاب (بھارتی پنجاب) میں ایک سکھ کی میت پر اس کی بیوی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کھڑی بین کر رہی تھی۔وے توں اوتھے ٹر گیاں ایں جتھے دیوا ناں بتی۔۔وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے منجھی ناں پیڑھی۔۔وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے آٹا ناں روٹی۔۔عورت کا بیٹا بولا۔۔ماں، ابا کہیں پاکستان تو نہیں چلا گیا۔۔؟؟ڈاکٹر نے جب مریض سے پوچھا کہ ۔۔کل سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہ ہوئی؟مریض نے جواب دیا، بس ڈاکٹر صاحب، سانس بہت تیزی سے چل رہی ہے۔ڈاکٹر نے روانی میں جواب دیا، مطمئن رہو میں اسے بھی روک دوںگا۔۔۔ایک مریض نے ڈاکٹر سے شکایت کی کہ ہر شخص سے مجھے پریشانی ہوتی ہے، ڈاکٹر نے دوا تجویز کر دی۔دوبارہ دوا لینے آیا تو ڈاکٹر نے پوچھا۔کیوں بھئی تم نے اپنے ذہنی رویئے میں کوئی تبدیلی محسوس کی۔مریض نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔مجھ میں تو کوئی تبدیلی نہیں۔ ہاں البتہ اوروں کا رویہ میرے ساتھ کچھ بدل گیا ہے۔۔ایک اور مریض نے ڈاکٹرسے چیک اپ کے دوران سوال کیا کہ ۔۔ جب میرا داہنا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو ڈھولک بجا سکوں گا۔؟؟ڈاکٹر نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ہاں کیوں نہیں، تم ضرور بجا سکو گے۔مریض نے بڑی سادگی سے کہا۔۔ کیسی مزے دار بات ہے حادثے سے پہلے مجھے ڈھولک بجانی نہیں آتی تھی۔ڈاکٹرپرایک اور واقعہ یاد آیا،ہمارے ایک ڈاکٹر دوست نے اپنے ایک بھلکڑ ڈاکٹر دوست کا سچا واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بھلکڑ ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد مریض سے اس کی طبیعت کا پوچھا،مریض نے جواب دیا کہ ۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سینے میں ایک کی بجائے دو دل دھڑک رہے ہوں۔۔بھلکڑڈاکٹر نے جلدی سے اپنا دایاں ہاتھ دیکھا اور کہا۔۔ اوہو۔ میں سوچ رہا تھا آخر میں اپنی گھڑی کہاں رکھ کر بھول گیا ہوں۔۔
ایک داماد اپنے سسرال گیا ،ساس نے پوچھا بینگن شریف پکا لوں یا بھنڈی مبارک یا پالک پاک کھانا پسند کریں گے؟۔۔داماد بولا، میں گنہگار بندہ ہوں بغیر وضو ان مقدس سبزیوں کے نام بھی لینے کے قابل کہاں، کوئی بے غیرت آوارہ سا مرغا ہی پکا لیں۔۔اسی طرح ایک اور داما د کا واقعہ بھی سن لیں۔۔جب داماد اپنے سسرال گیا تو پہلے دن اس کی ساس نے اس کو پالک کھلائی،دوسرے دن اس کو میتھی کھلائی،جب کہ تیسرے دن اس کو ساگ کھلایا۔اگلے دن جب اس کی ساس کھانا پکانے لگی تو اس نے اپنے داماد سے پوچھا کہ بیٹا آج کھانے میں کیا پکاوْں؟آدمی نے جواب دیا کہ مجھے کھیت میں چھوڑ آوْ میں خود ہی چَر آوْں گا۔۔۔ایک اور داماد نے جب بیوی کی خامیاں ساس کے سامنے گنوانی شروع کیں ۔۔ کھانا پکانا آتا ہے نہ ڈھنگ سے کپڑے پہننا، زندگی عذاب بنادی ہے۔۔گھر میں کوئی مہمان آجائے تو ایسے پھوہڑپن کا مظاہرہ کرتی ہے کہ شرمندہ ہوجاتاہوں۔۔ساس نے تسلی سے ساری خامیاں سننے کے بعد بہت معصومیت سے جواب دیا۔۔تم ٹھیک کہتے ہو بیٹا،یہ کمینی اتنی عقل مند ہوتی توکوئی اچھا سا رشتہ نہ مل جاتا اسے۔۔۔
بعض پاکستانیوں کے لئے کپتان کا نجات دہندہ کا تصور کچھ اس قدر بھیانک نکلا کہ یہ سب کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارا وزیراعظم ایک ایسا الیکٹریشن ہے جو بلایا گیا تھا زیرو کا بلب ٹھیک کرنے لیکن اس نے پورے گھر کی وائرنگ جلا ڈالی۔سوشل میڈیا پر ایک دل جلے صارف نے پاکستان کے سیاسی مشاہیر کی چند تصاویراور ان کے خطابات لکھنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو نئے خطاب سے نواز ڈالا۔۔صارف نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بانی ملت، سابق وزیراعظم لیاقت علی خان کو قائد ملت، محترمہ فاطمہ جناح کو مادرِملت تسلیم کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو قائد قلت قرار دیا اور تفصیلاً بتایا کہ عمران خان کے دور حکومت میں بجلی کی قلت، پانی کی قلت، گیس کی قلت، آٹے کی قلت، چینی کی قلت، پیٹرول کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔کہتے ہیں، شادی کیا ہوتی ہے، یہ سمجھنے کیلئے ایک سائنسدان نے شادی کر لی، اس کے بعد عمر بھر اسے یہ سمجھ نہ آئی کہ سائنس کیا ہوتی ہے، یہی کچھ اس قوم کے نوجوانوں کے ساتھ ہوا، جو تبدیلی کے چکر میں پڑ گئے۔لیکن اب تک تبدیلی سے محروم ہی ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مہنگائی اس قدر ہوگئی ہے کہ عوام اس بار سردی کی شاعری ہی بھول گئے ۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر