وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیکورٹی کانفرنس اور ٹرائیکا اجلاس کا اعلامیہ

بدھ 17 نومبر 2021 سیکورٹی کانفرنس اور ٹرائیکا اجلاس کا اعلامیہ

موجودہ دور میں کوئی ملک عالمگیر نظم سے کٹ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔معاشی بقا کے لیے اِس نظم سے ریاستوں کی وابستگی لازم ہے ۔معاشی بقا کے ساتھ آزادی و خودمختاری کا تحفظ بھی عالمی برادری کا حصہ بنے بغیر ممکن نہیں ۔دوستانہ تعلقات کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی کئی معاملات پر عالمی برادری کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال ہی آج کل افغانستان کو درپیش ہے کیونکہ طالبان قیادت منتخب نہیں بلکہ بزوربازو حکمران بنی ہے۔ اسی لیے دنیا کو تشویش ہے کہ اگر طالبان اقتداربرقرار رکھنے اور سیاسی و اقتصادی بحالی میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کہیں دنیا میںدوبارہ طاقت کے بل بوتے پر فتوحات کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے ۔ اسی لیے طالبان کو عالمگیریت کا حصہ بننے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ حالانکہ طالبان نے پہلے دور کی بہ نسبت رویہ کافی لچکدار کر لیا ہے۔ نہ صرف خواتین پر تعلیم کے دروازے مرحلہ وار کھولے جا رہے ہیں بلکہ ہمسایہ ممالک کو یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ داعش خراسان کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں بھی کی گئی ہیں ۔یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے پھر بھی دنیا کی بے اطمینانی اور بداعتمادی برقرارہے۔ دنیا کے لیے خودکو قابل ِ قبول بنانے کی جدوجہد میں مصروف طالبان کو ابھی تک کسی ہمسایہ ملک یا عالمی طاقت نے تسلیم نہیں کیا۔ابھی تک مطالبات کیے جارہے ہیں ،افغان عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے اور طالبان کوعالمگیریت کا حصہ بنانے کے حوالے سے پہلے بھارت میںسیکورٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے فوری بعد اسلام آباد میںٹرائیکا پلس اجلاس ہوا جن میں افغانستان کے متعلق متفقہ لائحہ عمل بنانے پر غورو خوض کیا گیا۔
10نومبر کو بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے دہلی میں علاقائی ممالک کی کانفرنس رکھی وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ روس،چین ،ایران اور پاکستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی پاکستان نے تو شرکت سے ہی دوٹوک انکار کر دیا ۔چین نے بھی شرکت نہ کی اِس کانفرنس کا مزید تاریک پہلو یہ ہے کہ جس ملک افغانستان کے لیے یہ کانفرنس بلائی گئی، اُس نے بھی شرکت سے گریز کیا جبکہ بھارت کے موجودہ قریبی اور پُرجوش اتحادی امریکا کی عدم شرکت بھی سب کو کھٹکتی رہی پھر بھی بھارتی کوششوں سے افغانستان کے آٹھ پڑوسی ممالک شامل ہوئے لیکن چند ایک مطالبات کے سوا کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے جو کانفرنس کی ناکامی ہے۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کے علاوہ روس نے خاص طور پر اپنا ایک الگ بیان جاری کرنا ضروری سمجھا جو بھارت کی طرف سے جاری کیے بیان سے بہت مختلف ہے ۔ یہ الگ بیان اِس امر کا عکاس ہے کہ روس نے معاشی و اقتصادی ضرورتوں کی بنا پر کانفرنس میں شرکت تو کر لی لیکن اختلافِ رائے کے طور پردنیا کے سامنے الگ موقف رکھا ۔ایران کی شرکت بھی معاشی ضرورتوں کی مرہونِ منت ہے۔ بھارت کی اولین کوشش ہے کہ کسی طرح افغانستان کو امداد پہچانے کے لیے پاکستانی گزرگاہیں استعمال کرنے کا اجازت نامہ مل جائے تاکہ وہ کشمیریوں کو یہ باور کرا سکے کہ کشمیر کی تبدیل شدہ حقیقت کو پاکستان نے بھی تسلیم کر لیاہے، اسی لیے تجارتی راہداریاں کھولی گئی ہیں حالانکہ اگست میں طالبان کے کابل داخلے پر بھارتی حکومت کئی ہفتوں تک ہکا بکا رہی مگر یہ اچانک بھاگ دوڑ اِس امر کی اغماض ہے کہ بھارت کو افغانوں کی بہتری سے غرض نہیں وہ اپنے اہداف کے تعاقب میں ہے جس میں طالبان کو کشمیریوں سے فاصلے پر رکھنا بھی شامل ہے۔ بار بار دہرایا جارہا ہے کہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا ،قبل ازیں ہمسایہ ممالک کے خلاف بھارت افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے دہلی کی سیکورٹی کانفرنس کا اسلام آباد کے ٹرائیکا پلس اجلاس سے موازنہ کیا جائے تو دہلی کانفرنس کی ناکامی عیاں حقیقت ہے کیونکہ چین ،پاکستان اور افغانستان کی عدم شرکت سے کانفرنس کامقصد ہی ختم ہوگیا۔
گیارہ نومبر جمعرات کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں افغانستان کے حوالے سے ٹرائیکا پلس اجلاس کا آغاز ہوا جس پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سمیت تینوں بڑی طاقتوں امریکہ ،روس اور چین کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ اجلا س ہر حوالے سے ایک مکمل اور جامع تھا جس میں افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ کوپاکستان میں مکمل سرکاری پروٹوکو ل دیا گیا اِس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ طالبان سے روابط رکھنے پر شرکا نے کامل اتفاق کرنے کے ساتھ ایک جامع اور ہر حوالے سے نمائندہ حکومت بنانے ، غیرملکی افراد اور اِداروں کے تحفظ ،خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک یقینی رسائی ،ہمسایہ ممالک سے دوستانہ رویہ اپنانے،بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے تعلقات ختم کرنے اورتجارتی ہوائی ٹریفک قبول کرنے والے ہوائی اڈے بنانے کے مطالبات پیش کیے گئے۔ قائم مقام وزیرِ خارجہ امیرخان متقی کی موجودگی سے شرکا کو ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کااچھا موقع ملا افغانستان کی نئی انتظامیہ نے انسانی بحران کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل کی ہے ۔اجلاس میں افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی گئی ممکنہ تباہی ،انسانی بحران اور پناہ گزینوں کی نئی لہر کے امکانات پر بھی غور کیا گیا۔پاکستان نے افغانستان کے مالی اثاثے ضبط کرنے کے عمل سے دہشت گردگروہوں کے خلاف کارروائیوں کو دھچکا پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا، جس کا مطلب ہے کہ ٹرائیکاپلس اجلاس میں تمام پہلوئوں پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا ہے۔ اِس لیے مثبت نتائج کی قوی امید ہے پاکستان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ افغانستان کو بھوک ،بیماری اور ہلاکتوں کے خطرات سے بچانے کے لیے فوری عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ ایک طرف افغانستان بحرانوں کی زد میں ہے تو بھارت جیسا جارحانہ عزائم رکھنے والا ملک مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے پھر سرگرم ہونے لگا ہے جس پر علاقائی ممالک کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھی چاہیے کہ افغان مسائل حل کرنے کی کوشش کے دوران مسائل بڑھانے کے اقدامات سے پرہیز کریں ۔ افغانستان میں دوبارہ بھارت کو پائوں جمانے میں اعانت کرنا مسائل بڑھانے کی اجازت ہے۔ عالمگیریت میں لانے کے لیے طالبان کو وقت ملنا چاہیے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دبائو ڈالنے کے بجائے دلائل سے قائل کرنے کا عمل زیادہ سود مند ہوتا ہے ۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر