وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہندتو اکا موازنہ ’ بوکوحرام ‘ سے کیوں؟

پیر 15 نومبر 2021 ہندتو اکا موازنہ ’ بوکوحرام ‘ سے کیوں؟

کانگریسی لیڈر سلمان خورشیدآج کل ہندتوا بریگیڈکے نشانے پرہیں۔قصور یہ ہے کہ انھوں نے ایودھیا تنازعہ پر اپنی تازہ ترین کتاب میں جارحانہ ہندتوا کا موازنہ ’ بوکوحرام‘ اور ’ داعش‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے کیا ہے۔ان کی انگریزی تصنیفSunrise over Ayodhya(ایودھیا میں طلوع آفتاب)کا اجراء حال ہی میں سابق وزیرداخلہ پی چدمبرم کے ہاتھوں نئی دہلی میںعمل میں آیا ہے۔ کتاب ابھی پوری طرح بازار میں بھی نہیں آئی تھی کہ اس پر ہنگامہ شروع ہوگیا۔ عام طور پر سیاست داں جو کتابیں لکھتے ہیں، ان پر ایک تنازعہ تو وہ ہوتا ہے جو مصنف یا ناشر کی طرف سے جان بوجھ کر کتاب کی اچھی فروخت کے لیے پیدا کیا جاتا ہے، لیکن یہ تنازعہ اس قسم کا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے ایک ضمنی حصہ پر آسمان سرپہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اچانک اس کتاب کی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ظاہرہے اس کا مالی فائدہ مصنف اور ناشر دونوں کو پہنچے گا، مگر عین ممکن ہے کہ اس کا سیاسی نقصان سلمان خورشید اوران کی پارٹی کو پہنچانے کی کوشش کی جائے اور انھیں ہندومخالف قرار دے دیا جائے۔ اس کا سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے، کیونکہ بی جے پی نے اس کتاب کے حوالے سے سلمان خورشید کے ساتھ ساتھ سونیا گاندھی ، راہل اور پرینکا گاندھی کو بھی نشانے پر لے لیاہے۔بی جے پی ترجمان گورو بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ ’’یہ صرف سلمان خورشید کی لائن نہیں ہے بلکہ ا?ج یہی کانگریس کی ’ وچاردھارا‘ہے۔ سونیا اور راہل کے اشارے پر ایسا بار بار ہوتا ہے۔‘‘یہ الگ بات ہے کہ سلمان خورشید نے کانگریس پارٹی کے ’ نرم ہندتو‘ کو بھی اپنی کتاب میںنشانے پر لیا ہے۔
سلمان خورشید کی کتاب منظرعام پر آنے کے بعد سب سے زیادہ بے چینی ان حلقوں میں پھیلی ہے جو ہندتوا کو ہی اس ملک کی نجات کا راستہ تصور کرتے ہیں۔یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہندتو اکا نظریہ پہلے پہل آرایس ایس کے بانی گولوالکر نے تخلیق کیا تھا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک کے اصل اور وفادار باشندے وہی ہیں جن کے آباء واجداد کی جنم بھومی ہندوستان ہے اور وہ اس مذہب کے پیروکار ہوںجس کا جنم ہندوستان کی سرزمین پرہوا۔یعنی گولوالکر کی نگاہ میں ہندو مذہب کے ماننے والے ہی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں۔وہ لوگ جو اسلام اور عیسائیت کے پیروکار ہیں، ان کی وطن کے ساتھ وفاداری مشکوک ہے۔سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں ہندتو کے اسی فلسفہ پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے ہندتوا کے حوالے سے اپنی کتاب میں اس نکتہ پر زور دیا ہیکہ ’’ سادھو سنت جس سناتن دھرم اور کلاسیکی ہندتو اکے پیروکار ہیں، اسے درکنار کرکے ہندتوا کے ایک ایسے ورڑن کو فروغ دیا جارہا ہے، جو داعش اور بوکوحرام جیسی دہشت گرد تنظیموں کے مماثل ہے اور اس کا استعمال سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔‘‘حالانکہ انھوں نے اپنی کتاب میں ہندتوا کے ساتھ ساتھ مسلم انتہاپسندوں کو بھی نشانہ بنایا ہے ، لیکن اس کا ردعمل صرف ان حلقوں میں ہوا ہے ، جو جارحانہ ہندتواکے علمبردار ہیں اور جنھوں نے اس ملک میں اقلیتوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔اسی بریگیڈ کا حصہ سمجھے جانے والے سپریم کورٹ کے دووکیلوں نے سلمان خورشید کے خلاف براہ راست دہلی کے پولیس کمشنر کو تحریری شکایت دی ہے اوران کے خلاف قانونی کارروائی کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو بتادیں کہ سلمان خورشید کانگریس کے سینئر لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے نامور وکیل ہیں۔وہ مرحوم صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے نواسے اور سابق گورنر مرحوم خورشیدعالم خاں کے فرزند ہیں۔ انھوں نے برطانیا کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اوران کا شمار ملک کے دس بڑے وکیلوں میں ہوتا ہے۔وہ کئی بار یوپی کے فرخ آباد پارلیمانی حلقہ سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے ہیںاور کانگریس کے دور حکومت میں وزارت خارجہ اور اقلیتی امور کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ایودھیا تنازعہ سے ان کا تعلق یہ ہے کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں کئی بار اس مسئلہ پر مسلم فریق کی پیروی کی ہے۔ بابری مسجد بازیابی تحریک کے لیڈر سید شہاب الدین نے جوخود بھی سپریم کورٹ کے وکیل تھے، اس معاملے میں سلمان خورشید سے استفادہ کیا ہے۔ اس اعتبار سے ایودھیا تنازعہ پر ان کی یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے، جو قدرے تاخیر سے منظرعام پر ا?ئی ہے۔اس کتاب میں بابری مسجد ، رام جنم بھومی تنازعہ اور اس کے اثرات کاغیرجانبداری کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔انھوں نے اس کتاب میں ایودھیا تنازعہ کی قانونی لڑائی اور اس معاملے میں الہ ا?باد ہائی کورٹ وسپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی احاطہ کیا ہے۔
سلمان خورشید نے لکھا ہے کہ’’ ایودھیا تنازعہ دراصل دوسرے فرقہ کے عقیدے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا۔ وہ سناتن دھرم اور اور کلاسیکل ہندتو اجوکہ سنتوں اور بابائوں کی تپسیا سے عبارت ہے ، اسے ہندتو کے ایک طاقتور ورڑن نے درکنار کردیا ہے اور ہندتو کے اس طاقتور ورڑن کو سیاسی مقاصدکے لیے اسی طرح استعمال کیا گیا ہے، جیسا کہ جہادی اسلامی گروپوں اور بوکوحرام نے کیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں ہندتوا کے سوال پر خود اپنی پارٹی کے ان لیڈروں پر بھی تنقید کی ہے، جنھوں نے سیکولرازم سے انحراف کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ’’ ہماری پارٹی میں بھی ایک ایسا طبقہ ابھررہا ہے جو اس بات پر معذرت خواہانہ انداز اختیارکرتا ہے کہ پارٹی کی شبیہ اقلیت حامی بن گئی ہے۔‘‘ انھوں نے لکھا ہے کہ’’ یہی طبقہ پارٹی قیادت کو ’ جینودھاری‘ بننے کا مشورہ دیتا ہے اور اسی طبقہ نے ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہاں عظیم الشان مندر کی تعمیرکی حمایت کی تھی اور راہل گاندھی کو’ جینو دھاری ہندو‘ کہا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے سلمان خورشید کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’ہم سیاسی نظریہ کے طورپر ہندتوا سے اختلاف تو کرسکتے ہیں ، لیکن ہندتوا کا موازنہ داعش سے کرنا سراسر غلط اور مبالغہ آمیز ہے۔‘‘
جہاں تک ہندتوا کا موازنہ بوکوحرام یا داعش سے کرنے کا تعلق ہے تو اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ ایودھیا تنازعہ کی آڑمیں ہندتوا حامی طاقتوں نے ملک میں خوف ودہشت کا جوماحول پیدا کیا ہے ، وہ اس ماحول سے مختلف نہیں ہے جو داعش اور بوکوحرام نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے عالم عرب اور نائیجریا میں پیداکیا ہے۔ اگر آپ صرف بابری مسجد انہدام کو ہی لیں تو کس طرح عددی طاقت کے بل پر پانچ سو سالہ قدیم عبادت گاہ کو وحشت اور بربریت کے ساتھ زمیں بوس کیا گیا۔ اس کے بعد پورے ملک میںفرقہ وارانہ فسادات کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ، اس کی زد میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کی جانیں گئیںاور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے دن کے اجالے میں بابری مسجد کومنہدم کیا تھا اور جن کے خلاف ٹھوس ثبوت اور شہادتیں موجود تھیں، انھیں ’ باعزت ‘ بری کردیا گیا۔بابری مسجد انہدام اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کے کسی ایک بھی قصوروار کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی۔ یہاں تک کہ 1992-93میںبمبئی میں ہونے والی خوفناک قتل وغارتگری کے کسی ایک مجرم کو بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔حالانکہ ان فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں مجرموں کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا۔سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس سرکار جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنا چاہتی تھی، مگر اس وقت یہ کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کردیا گیاکہ کچھ زخم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی بھر جاتے ہیں۔
جہاں تک ملک میں ہندتوا بریگیڈ کی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو پورا ملک اس بات واقف ہے کہ کس طرح اس ملک میں اقلیتوں کا جینا حرام کردیا گیاہے۔جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کی لنچنگ کے واقعات مسلسل ہور ہے ہیں۔ انھیں کبھی ’ لوجہاد‘ کبھی ’ لینڈ جہاد‘ اور کبھی جبری تبدیلی مذہب کے نام پر مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقلیتوں میں خوف ودہشت کا ماحول ہے اور جو لوگ اس کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں، انھیں دہشت گردی مخالف قانون سے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔سلمان خورشید ان کوششوں کا تازہ شکار ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر