وجود

... loading ...

وجود
وجود

تماشا اور تماشائی

پیر 18 اکتوبر 2021 تماشا اور تماشائی

اکثر جانتے ہیں لیکن کچھ نہیں کرپاتے یا کرنا ہی نہیں چاہتے، کچھ ڈرتے بھی ہوں گے کہ کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں ۔اس لیے عافیت ہی بھلی ہے یقینا کچھ تماش بین مزاج بھی ہوں گے جن کا مقصد ہی آگ لگا کر تماشہ دیکھنا ہوتاہے ان سے تو کسی خیر کی توقع ہی عبث ہے ۔پاکستانی سیاست میں گزشتہ کچھ عرصے سے پروان چڑھنے والا غیر شائستہ اور غیر مہذب ویڈیو لیکس کلچرسیاسی و صحافتی حلقوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔انسانی تہذیب و اخلاق ہی کسی معاشرے کی پہچان ہوا کرتا ہے۔انسان کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری تعلیم و تربیت کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔
جدید دور میں سوشل میڈیا کی صورت میں فیس بک ،واٹس ایپ اور ٹوئٹر وغیرہ کی جو سہولیات عوام و خواص کو حاصل ہیں ،اس کا سہارا لے کر ہم وہ وہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ جن پر داد و تحسین کی بجائے لعنت بھیجنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ ناخواندہ افراد سے تو گلہ ہی کیا ،اعلی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی تہذ یب و اخلاق سے بے نیاز ہو کر وجہ الفساد کا حصہ بن چکے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بیشتر افراد کی کوئی شناخت موجود نہیں اور یہ ناہنجار لوگ تسلسل کے ساتھ اپنے دل کا غبار نکالنے میں لگے ہیں۔کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ،اسی اصول پر مخالفین کو ننگا کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ویڈیو لیکس طرز کا ایک نیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے ، اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے آڈیو اور ویڈیوز کو ایڈٹ کرنے کیلئے ایسے ایسے سافٹ وئیر مارکیٹ میں آ چکے ہیں کہ انسان جو چاہے بنا کر وائرل کر دے۔ فرانزک لیبارٹری ٹیسٹ سے ویڈیوز کے حقیقی یا جعلی ہونے کی تصدیق ممکن ہو چکی ہے ،تاہم کسی بھی مسئلے کو اس عمل سے متنازع بنانا آسان ہو گیا ہے۔ماضی پر نظردُہرائیں تو عدالتیں کسی قسم کی آڈیو یا وڈیو ز کو بطور ثبوت تسلیم ہی نہیں کیا کرتی تھیں جبکہ اس دور میں کسی قسم کی جعلسازی ایک مشکل بلکہ بہت ہی مہنگا اور محنت طلب کام ہوا کرتا تھا ،جبکہ موجودہ دور میں یہ سبھی تبدیلیاںبہت ہی کم وقت میں آسانی سے کی جا سکتی ہیں۔سوشل میڈیا فیس بک اور یو ٹیوب چینلز پر دن رات ایسی ایسی ویڈیوز چلائی جا رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر جہاں انسان ذہنی اذیت میں مبتلا ہو رہے ہیں ،وہاں دنیا پھر میں پاکستانی قوم کا تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ یوں تو بہت سے سانحات کے وقوع پزیر ہونے کی وڈیوز بھی پوسٹ کی جارہی ہیں لیکن اگر ان اذیت ناک وڈیوز کا جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ویڈیوزتو بنا کرہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بریکنگ نیوزعوام تک پہنچاکرگویا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔جبکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
دیکھا جائے تو کسی ایسے ظلم کی ویڈیوز بنانے سے زیادہ مظلوم مرد و خواتین یا بچوں کی مدد کرنا زیادہ اہم ہے۔ اب حکومت نے ان یوٹیوب چینلز کی رجسٹریشن کا عندیہ دیا ہے ،اس سے صحت مند ماحول پیداہونا یقینی امر ہے پھر بھی بہت سی قباحتوںنے جنم لیا ہے اس کے تدارک کے لیے یہ ضروری تھا کہ سوشل میڈیا کے کچھ اصول و ضوابط مقررکیے جائیں کسی بھی شعبہ میں مادرپدر آزادی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ بحیثیت انسان ہمارا یہ ملی فریضہ بھی ہے کہ ہم مظلوم کی مدد کریں ، جلتی ،سسکتی انسانیت کو بچائیں۔لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم میں انسانیت مر چکی ہے ،ہم مخالفین کو ذلیل و رسوا کرنے کیلئے ویڈیوز کی نامناسب ایڈیٹنگ کرکے انسانی تذلیل میں حد سے گزر جاتے ہیں اور سبھی اخلاقی اقدار کو بھلا بیٹھے ہیں۔گزشتہ دنوں فیس بک پر کسی ناہنجار شخص نے ایک بہت ہی خوبصورت دو اڑھائی سالہ معصوم بچی کو رسی سے پھندہ لگاتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل کی ،اسی طرح کسی شہر میں بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آ جانے کی وجہ سے دو بندوں کو آگ لگ گئی ، یہ ویڈیو بھی بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ وائرل کر دی گئی ،جس میں لوگوں کو پاس سے بھی گزرتے دکھایا گیا ہے لیکن ویڈیو بنانے والے نے بھی انہیں بچانے کی کوشش نہ کی ، چند برس پہلے آب پارہ اسلام آباد میں ایک تاجر نے سرعام خود سوزی کر لی تھی۔ اس وقت عوام کا ایک جم غفیر اس مظلوم کی خود سوزی کا نظارہ کرنے کیلئے موجود تھا لیکن کسی ایک بھی فرد نے حتی کہ پولیس سمیت کسی سیکورٹی اہلکار نے بھی اسے بچانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی ،المیہ یہ ہے کہ ایک قومی اخبار کے فوٹو گرافر نے جہاں اس مظلوم کی خود سوزی کے دوران مختلف مراحل کی عکس بندی کی ، اور اس میں سے تین فوٹو اپنے اخبار میں شائع کیے ،وہاں ایک اور اخبار کو بھی یہ فوٹو عطیہ کر دیے گئے۔یہ تصاویر موصوف کے نام سے اخبار مذکورہ میں چھپیں ، بعد ازاں جب کیس عدالت میں چلا توفوٹو گرافر کو بھی بطور گواہ طلب کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پروائرل کی جانے والی ویڈیوز کے بارے میں حکومتی ادارے مکمل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ،اندھیر نگری چوپٹ راج والی صورتحال بن گئی۔چیئرمین نیب کی ایک خاتون سے گفتگو کی ویڈیو چلی تو کچھ عرصے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی ،ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ6 جولائی 2019 کو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری کی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں بلیک میل کرکے اور دبائو ڈال کر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دینے پر مجبور کیا گیا، وگرنہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔انہوں نے ارشد ملک کے حوالے سے اوپر تلے دوو یڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس بے شمار ویڈیوز ہیں ،اگر وہ سب جاری کر دیں تو ایک بھونچال آ سکتا ہے پھر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے مریم نواز کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ویڈیو کو بھی مسترد کرد یا ۔ انہوں نے بیان حلفی جمع کراتے ہوئے نواز شریف اور ن لیگ پر الزامات عائد کیے کہ انہیں دھمکیاں دی گئیں اور رشوت کی پیش کش کی گئی جبکہ غیر اخلاقی ویڈیوز سے بلیک میل کیا گیا ، اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے یہ ویڈیوز حقیقی ہیں یا جعلی۔اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا جو یقینا بہترین منصف ہے ۔لیکن حال ہی میں دو سیاستدانوں محمود خان اچکزئی اور سابق گورنر سندھ زبیرعمر کی نازیبا ویڈیو منظر ِ عام پر آئی ہیں جس سے کچھ دنوں سیاسی بھونچال بپا ہوا پھر خاموشی چھا گئی ۔کچھ لوگ اسے ان کا ذاتی معاملہ قراردے کر ’’ معاملے‘‘ پر مٹی پائو کی پالیسی پر گامزن ہیں لیکن کچھ کا خیال ہے کہ سیاسی اکابرین کو عوام کے لیے رول ماڈل ہونا چاہئے ۔اگر وہی اخلاق باختہ ہوں تو پھر ایسے معاشرے پر چار حرف بھیجنا ضروری ہے ۔بہرحال شنید ہے کہ یہ ویڈیوز لیکس کی سیاست سے جو ایک دوسرے مخالفین کا جینا عذاب بنارہے ہیں ،ان میں سیاسی جماعتوں کے عہدیدران یا کارکنان ملوث ہیں۔ ا س کے لیے ہر قابل ِ ذکر سیاسی جماعت نے باقاعدہ سوشل میڈیا ونگ بنارکھے ہیں جہاں بھاری تنخواہوںپرمخالفین کا ناطقہ بندکرنے کے لیے سائنٹفک طریقوں سے سوشل میڈیا ٹیم کے درجنوں افراد دن رات مشغول یا مصروف ہیں یہ کسی طور بھی قابل تعریف اقدام نہیں ،غورکریں تو یہ تیسری دنیا کے ممالک میں عام سی بات ہے جبکہ امریکا،برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی فیک ویڈیو سے بہت تنگ ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے حکومتوںکو بھی بے دست وپا کرکے رکھ دیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس جھوٹ کی سیاست کے ذریعے ہم آنے والی نسلوں کوکیا سکھا رہے ہیں۔اس پر ہم سب کو غور کرنا ہوگا۔یہ سوچ و فکر ہماری آئندہ نسلوں کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔اخلاقی اقدار کا جنازہ ہم اپنے ہی ہاتھوں نکال رہے ہیں۔جو کام دشمن اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کرتا ہے ،وہی کام ہم اپنے ہاتھوں سرانجام دے رہے ہیں ۔پوری دنیا اس ٹیکنالوجی کی زد میں ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں جو سہولیات ہمیں یہود ونصاریٰ نے فراہم کی ہیں ،انہیں ہم نے اپنی بربادی کے ہتھیار بنا لیے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ویڈیو لیکس طرزکی سیاست کو لگام دیں ، اپنے دھندے کوچلانے کیلئے معاشرتی اعلیٰ اقدار کا جنازہ نہ نکالیں۔اسلام نے تو دوسروں کا پردہ رکھنے کا حکم دیا ہے جبکہ ہم تو معاشرے کا ہر ننگ دنیا کو دکھا کر رہے سہے وقار کو مجروح کرنے کے درپے ہیں۔اس سے قبل کہ حالات ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں حکومتوں کوجہاں کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا چاہئے، وہاں ہمیں اپنے کردار و عمل پر دھیان دیناہوگا۔ورنہ ایسا نہ ہو کہ چڑیاں چگ جائیں کھیت۔ہم تو کسی سے دادفریاد بھی نہیں کرسکیں گے کیونکہ ہم یہ آگ خود انپے ہاتھوں سے لگاکر تماشادیکھنے کے عادی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر