وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلم قیادت کا بحران اوراسد الدین اویسی

منگل 12 اکتوبر 2021 مسلم قیادت کا بحران اوراسد الدین اویسی

کہا جاتا ہے کہ مسائل کی کوکھ سے صالح قیادت جنم لیتی ہے، لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ مسلم قیادت کی کوکھ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔اس کا ایک ثبوت حال ہی میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں دیکھنے کو ملا ہے، جہاں ایک مسلم لیڈر نے ایسا بیان دیا ہے ، جس کا دفاع کرنا خود اس کی پارٹی کے لیے مشکل ہورہا ہے۔مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹوں پراپنا’ پیدائشی حق‘ سمجھنے والی ایک سیاسی پارٹی اس وقت مسلم لیڈرشپ کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے اس پارٹی نے حال ہی میں اپنے ایک ’مسلم لیڈر‘ کوممبئی سے امپورٹ کیا ہے۔ مگر انھوں نے یہ کہہ کر اپنی اور اپنی پارٹی کی لٹیا ڈبودی ہے کہ’’ جن مسلمانوں کو’ اپنی سیاست اور اپنی قیادت‘ عزیزہے ، وہ پاکستان چلے جائیں کیونکہ یہاں تو سیکولر سیاست چلے گی اور مسلمانوں کا لیڈر ہندو ہی ہوگا۔‘‘اس بیان کے خلاف سوشل میڈیا پر خاصا تیکھا ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔
مسلمان کس کو اپنا لیڈر تسلیم کریں یا نہ کریں ،یہ سوال اس وقت ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے۔ماضی میں بھی مسلمانوں نے ہندو لیڈروں پر بھروسہ کیا ہے اور وہ انھیں اپنا قائد تسلیم کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طورپر اسی اترپردیش میں ہیم وتی نندن بہوگنا اور ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کے مضبوط لیڈر رہ چکے ہیں۔ ملائم سنگھ کا تو مسلمانوں سے ایساجذباتی تعلق تھا کہ انھیں سیاسی حلقوں میں ’ مولاناملائم‘ کہا جانے لگا تھا۔اسی طرح بہار میں راشٹریہ جنتادل کے لیڈر لالو پرساد یادو پروہاں کے مسلمانوں نے جتنا بھروسہ کیا، اتنا کسی اور پر نہیں کیا۔مغربی بنگال میں آج کل وزیراعلیٰ ممتا بنرجی مسلمانوں کی لیڈر ہیں۔اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ہندوئوں کی قیادت تسلیم کرکے خود کو سیکولر ثابت کرنے میں مسلمانوں نے کوئی کسر نہیںچھوڑی ہے۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان’ مسلم لیڈران‘ نے جن پر مسلمانوں نے ا?نکھ بند کرکے بھروسہ کیا ، مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے کیا کام کیے؟ آج کیوں ان تینوں ہی صوبوں میں مسلمان حاشیہ پر ہیں اور ان کی ترقی اور فلاح وبہبود کے سارے راستے بند ہیں۔ان سیکولر لیڈروں پر تکیہ کرنے کا سب سے منفی نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں مسلم قیادت ہی پروان نہیں چڑھ سکی۔کیا آپ اس وقت یوپی، بہار یا مغربی بنگال میں ایسے کسی مسلمان کا نام بتاسکتے ہیں ،جسے اپنی اپنی ریاست میںمسلمان بلاشرکت غیرے اپنا قائد تسلیم کرتے ہوں اور اس کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوں۔ شاید آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔
اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ان دنوں مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی یوپی میں بہت سرگرم نظر آرہے ہیں۔انھوں نے اعلان کیا ہے کہ یوپی اسمبلی کی تقریباً 100 نشستوں پروہ اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ یہ وہ نشستیں ہیں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن پوزیشن میں ہے۔بیرسٹر اویسی ان حلقوں میں عوامی اجلاس اور میٹنگیں بھی کررہے ہیں اور مسلمانوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ ان کی بھلائی سیاسی طورپر بااختیار بننے میں پوشیدہ ہے۔ وہ جب تک نام نہاد سیکولر پارٹیوں پر تکیہ کرتے رہیں گے ، ان کا یونہی سیاسی استحصال ہوتا رہے گا۔اویسی کی پارٹی کا بنیادی تعلق جنوبی ہند کے شہر حیدرآباد سے ہے۔ جہاں نظام شاہی کے زوال کے بعد ان کی پارٹی نے دستوری بنیادوں پر اپنی سیا سی پوزیشن بنائی۔پہلے اس جماعت کا حلقہ اثر حیدرآباد تک ہی محدود تھا ، لیکن پچھلے پارلیمانی الیکشن میں اورنگ آباد(مہاراشٹر )سے ایک لوک سبھا نشست اور بہار اسمبلی کے پچھلے چناو? میں پانچ سیٹیں جیتنے کے بعد ان کے حوصلے بلند ہیں اور اب وہ مجلس کو پورے ملک میں فروغ دینے کی کوششیں کررہے ہیں۔ انھوں نے مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں بھی قسمت آزمائی تھی، لیکن یہاں انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔بہار کی طرح اترپردیش میں بھی ان کے سیاسی مخالفین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچانے اور مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کے لیے میدان میں آرہے ہیں۔ بعض لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کا بی جے پی سے خفیہ معاہدہ ہے ،مگر کوئی بھی ابھی تک اس الزام کو ثابت نہیں کرپایا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پورے ملک میں بیرسٹر اویسی کو مسلمانوں میں جو مقبولیت حاصل ہے ، وہ کسی اور مسلم لیڈر کو نہیں ہے۔حالانکہ بہت سے مسلمان ان سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور ان کی سیاست کو مسلمانوں کے لیے مضر قرار دیتے ہیں۔مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ جن سیکولر پارٹیوںپر مسلمانوں نے آزادی کے بعد مسلسل بھروسہ کیا ،انھوں نے مسلمانوںکو اس حالت میں کیسے پہنچادیاتو انھیں اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔اویسی کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی وہ پارلیمانی تقریریں اوربیانات ہیں، جو وہ مسلم مسائل پردیتے رہے ہیں۔اویسی نے مسلمانوں کے درمیان جو مقبولیت حاصل کی ہے، وہ مسلم مسائل پر ان کی بے باک رائے اورسوجھ بوجھ کی وجہ سے ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمالی ہند کے جو مسلم نمائندے پارلیمنٹ میں موجود ہیں ، انھیں اویسی جیسی مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہے، جبکہ مسائل کاجتنا انبارشمالی ہند میں ہے اتنا جنوب میں نہیں ہے۔مسلم ووٹوں کے سہارے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے دیگر مسلمان اتنی طاقت اور ہمت سے مسلم مسائل کو کیوں نہیں اٹھاتے؟
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت یوپی، بہار اور بنگال سے جو مسلمان اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں چن کر آئے ہیں ، وہ درحقیقت اپنی پارٹیوں کے پابند ہیں۔وہ پارٹی قیادت کی مرضی کے بغیروہاں ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔اگر یہ کہا جائے کہ ان کی حیثیت بندھوا مزدوروں جیسی ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ اس میں آسام کی اے یو ڈی ایف کے لیڈر بدرالدین اجمل ضرور مستثنیٰ ہیں ، جو کسی اور کھوٹے سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔اس کے علاوہ شمالی ہند میں کانگریس ، سماجوادی پارٹی،ترنمول کانگریس، بی ایس پی اور راشٹریہ جنتا دل کے مسلم قائدین درحقیقت آزادانہ طورپر بولنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ میں شمالی ہند کے کسی مسلم لیڈر کی کوئی گر جدارآوازموجود نہیں ہے۔اگر آپ یوپی کی ہی بات کریں تو پارلیمنٹ میں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے ارکان کی تعداد نصف درجن سے کم نہیں ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کے حقیقی مسائل پر کوئی گفتگو نہیں کی بلکہ اکثر یہ لوگ ایسے موضوعات پر رائے زنی کرتے ہیں جن کا ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ مثال کے طورپر پچھلے دنوں سماجوادی پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے طالبان پر بیان دے کر اپنے لیے گھر بیٹھے مصیبت مول لی اور ان پر ’ دیش دروہ‘ کا مقدمہ قایم ہوا۔
ایسا نہیں ہے کہ شمالی ہند کے مسلمانوں کے اندر قائدانہ صلاحیتوں کی کمی ہے۔بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اس خلاء کو بھر سکتے ہیں ، مگر سیکولر پارٹیاں ان ہی مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں یا ان کی غلامی قبول کریں۔مسلمانوں میں سیاسی شعور اور بیداری پیدا کرنے کا سب سے کامیاب تجربہ 70کی دہائی میں قائدملت ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے کیا تھا۔ انھوں نے مسلم مجلس کے پرچم تلے ایسے مسلمانوں کی ایک کھیپ تیار کی تھی جس نے کافی عرصہ تک مسلمانوں کوراہ دکھائی۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ تحریک دم توڑ گئی۔ ڈاکٹر فریدی نے جن لوگوں کی ذہن سازی کی تھی ، انھوں نے ا?خری دم تک مسلمانوں کے اندر خوداعتمادی اور خدا اعتمادی کی شمع روشن رکھی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے نام اس وقت ذہن میں ابھررہے ہیں۔ ان میں الحاج ذوالفقاراللہ ،فضل الباری، قمرکاظمی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،مسعود خاں،صحافی محفوظ الرحمن، عالم بدیع اعظمی اور الیاس اعظمی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں آخرالذکر دوشخصیات ہی بقید حیات ہیں ، باقی سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔کاش شمالی ہند میں مسلمانوں کو سیاسی طورپر بااختیار بنانے کی ایسی ہی کوئی تحریک دوبارہ شروع ہو،تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر