وجود

... loading ...

وجود
وجود

کسانوں کے قتل پر نریندر مودی اور امیت شاہ کی مجرمانہ خاموشی

منگل 12 اکتوبر 2021 کسانوں کے قتل پر نریندر مودی اور امیت شاہ کی مجرمانہ خاموشی

برندا کرت
دنیا بھر میں یہ ایک ایسا پہلا واقعہ ہوگا جس میں مرکزی حکومت میں شامل ایک وزیرِ مملکت کے سرکاری قافلے‘ اور وہ بھی وزارتِ اْمور داخلہ سے تعلق رکھنے والے وزیر‘ جس سے لا اینڈ ا?رڈر برقرار رکھنے کی توقع کی جاتی ہے‘ میں شامل کاروں نے احتجاجی کسانوں کو روند ڈالا ہو جس میں 8 کسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہوں اور درجنوں زخمی ہوئے ہوں۔ پچھلی مرتبہ اسی نوعیت کے ایک واقعہ نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی جب 2017ء میں لندن بریج پر دہشت گردانہ حملے کا واقعہ پیش آیا تھا، اس واقعے میں ایک وین نے‘ جس میں تین افراد سوار تھے‘ راہگیروں کو کچل دیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں جو کچھ بھی ہوا‘ وہ کسی طرح دہشت گردانہ حملے سے کم نہیں تھا۔ وہ اسی طرح کا حملہ تھا جس طرح لندن میں پیش ا?یا۔ درحقیقت یہ واقعہ تو لندن واقعے سے بھی بدترین تھا کیونکہ اس دہشت گردانہ کارروائی کو ریاستی عناصر نے انجام دیا۔ مرکزی وزیر مملکت اجے مشرا راست طور پر اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ہم اسے انتہائی سفاکانہ دہشت گرد حملہ قرار دے سکتے ہیں۔ ایک ہفتہ یا اس سے قبل بی جے پی کے اسی وزیر نے پْرامن کسان احتجاجیوں کو کھلے عام دھمکی دی تھی۔ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مشرا نے کسانوں کو بزدل قرار دیا تھا اور انہیں چیلنج کیا تھا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو ان کی موجودگی میں سیاہ پرچموں کے ساتھ احتجاج کرکے دکھائیں‘ اگر ایسا کیا گیا تو انہیں سبق سکھایا جائے گا۔ کیا اس طرح کی دھمکی اور اس قسم کی زبان ایک مرکزی وزیر کو استعمال کرنی چاہئے۔ لکھیم پور کھیری میں جو واقعہ پیش آیا‘ اس وقت ایک سرکاری پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں خود چیف منسٹر، ڈپٹی چیف منسٹر اور اجے مشرا حصہ لینے والے تھے۔ ڈپٹی چیف منسٹر اور اجے مشرا کا قافلہ پروگرام کے مقام کی سمت روانہ ہورہا تھا لیکن جب مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے خلاف احتجاج کے لیے کسان جمع ہوئے تو خوف کے مارے وہ سرکاری پروگرام منسوخ کردیا گیا۔ جس وقت سرکاری قافلے میں شامل تیز رفتار کاریں ا?رہی تھیں، اس وقت کسان منتشر ہورہے تھے۔ کسانوں کے مطابق مرکزی وزیر مملکت کا بیٹا سرکاری قافلے میں شامل تھا اور اس نے اپنی کار سے کسانوں کو کچل ڈالا۔ جوابی کارروائی میں دیگر چار افراد بھی مارے گئے۔ کسان صرف لکھیم پور میں احتجاج نہیں کررہے بلکہ بھارت بھر میں اب بھی کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔
ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس واقعے نے سارے بھارت کو دہلا کر رکھ دیا اور سب سے اہم بات یہ رہی کہ ادتیہ ناتھ حکومت، مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور ہوئی؛ تاہم یہ سطور لکھے جانے تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی مرکزی وزیر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ کسان اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ مرکزی وزیر کو فوری برطرف کیا جائے اور ان کا مطالبہ بالکل جائز اور تائید و حمایت کا مستحق ہے۔ ساتھ ہی علاقہ میں لاک ڈاو?ن نافذ کیا جانا اور ہلاک ہونے والے کسانوں کے ورثا کو پرسہ دینے کے لیے جانے والے اپوزیشن قائدین کی گرفتاری بھی قابلِ اعتراض ہے۔ یہ اپوزیشن قائدین وہاں فساد برپا کرنے نہیں بلکہ کسانوں کے غم زدہ خاندانوں سے اظہار ِتعزیت اور ان کی دلجوئی کے لیے جارہے تھے۔
اپوزیشن قائدین کی گرفتاریاں جمہوریت پر براہِ راست حملہ ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ بی جے پی کی طرزِ حکمرانی دستورِ ہند کی بنیاد پر نہیں بلکہ تخریبی سیاست اور انانیت پر ہے۔ بی جے پی نے کسانوں کو مذہب، زبان اور علاقے کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی اور جب وہ اس میں ناکام ہوگئی تب اس نے کسانوں کے خلاف قانونی کارروائی اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات درج کرنے کا طریقہ اپنا لیا۔ جب اس کی یہ کوششیں بھی ناکام ہوگئیں تو اس نے اپنے وزرا کو اپنے سرکاری عہدوں کے استعمال کا لائسنس دے دیا تاکہ وہ اپنے سرکاری موقف کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کسانوں پر براہِ راست حملوں کے لیے غیرسماجی عناصر اور مجرموں کی فوج تیار کریں۔ مرکزی وزیر مملکت اجے مشرا نے جو بیانات دیے، ان میں کھلے طور پر کسانوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ انہوں نے ان کے خلاف گالیاں بکی تھیں۔ اس سے پہلے چیف منسٹر ہریانہ نے کسانوں کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کی۔ جس دن کسانوں کو اترپردیش میں گاڑیوں سے روندا گیا اور ان کا قتل کیا گیا، اس وقت چیف منسٹر ہریانہ منوہر لعل کھٹر ہریانہ میں اپنی پارٹی کارکنوں کو اْکسا رہے تھے کہ وہ کسانوں کے احتجاج کا جواب لاٹھیوں سے دیں۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے یہاں تک کہا کہ جیل جانے سے ڈرو مت، اگر جیل جائوگے تو بڑے لیڈر بنو گے۔ اگر تمہیں لیڈر بننا ہو تو جیل جانے کے لیے تیار رہو۔ اس سے پہلے ہریانہ ہی میں ایک کسان کو ہلاک اور کئی کو زخمی کردیا گیا تھا۔ اس دوران بھی حکومت ہریانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا کہ اس کے آدمیوں کو چاہئے کہ احتجاجی کسانوں کے سَر پھوڑ دیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح چیف منسٹر منوہر لعل کھٹر عجیب و غریب انداز میں اپنے پارٹی کارکنوں کو کسانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ ایسے میں چیف منسٹر ہریانہ کے خلاف بھی تشدد پر اکسانے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔
اگر لکھیم پور میں جو بہیمانہ قسم کا واقعہ پیش آیا، اس قسم کا واقعہ کسی اور ملک میں پیش آتا تو وہاں کی حکومت کا سربراہ کم از کم اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرتا یا پھر اظہارِ تعزیت کرتا۔ اس سلسلے میں ہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال پیش کرسکتے تھے جو اپنے نسلی تعصب کے لیے بدنام ہیں‘ اس کے باوجود انہوں نے ایک پولیس اہلکار کے ہاتھوں انتہائی بیدردی سے مارے گئے سیاہ فام باشندہ جارج فلائیڈ کے خاندان سے اظہارِ تعزیت کیا تھا؛اگرچہ اس اظہارِ تعزیت کے لیے انہوں نے فلائیڈ کی موت کے چار دن بعد بیان جاری کیا لیکن ’’ہائوڈی مودی‘‘ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہ ایسے خاموش رہے کہ اس طرح کے واقعات سے ان کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی خاموشی بھی حیرت انگیز ہے۔ چند دن قبل ہی یہ دونوں لیڈر یعنی مودی اور امیت شاہ‘ ادتیہ ناتھ حکومت کی تعریف پہ تعریف کیے جارہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ادتیہ ناتھ حکومت نے کئی محاذوں پر کامیابی حاصل کی ہے لیکن اب جو کسانوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور صدمہ انگیز واقعہ پیش آیا، اس بارے میں کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں۔ ان کی خاموشی اس بات کا پیام ہے کہ کسانوں کے خلاف جو کچھ بھی ہوا، حکومت کے اعلیٰ رہنمائوں کی اسے تائید و حمایت حاصل تھی۔
بھارتی کسان پچھلے 10 ماہ سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان کا یہ مطالبہ ہے کہ کسانوں کے نام پر جو بھی زرعی قوانین بنائے جائیں یا بنائے گئے ہیں، اس سے پہلے ان سے مشاورت کی جانی چاہئے۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت نے جو تین زرعی قوانین منظور کیے ہیں، وہ کسان دشمن ہیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ تینوں زرعی قوانین واپس لیے جائیں اس سے نہ صرف ان کے مفادات کا تحفظ ہوگا، بلکہ جمہوری حکمرانی کے اصول بھی محفوظ رہیں گے۔ کسانوں کی تحریک تاریخی طور پر پْرامن نوعیت کی ہے۔ کسانوں نے اتحاد کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا اور قربانی بھی دی۔ کسانوں کے لیے بڑھتی تائید نے بی جے پی کو مایوس کردیا ہے، وہ جان گئی ہے کہ کسانوں کے خلاف اقدامات سے کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص لکھیم پور کھیری واقعہ کے ضمن میں کسانوں کے ساتھ اظہارِ یگانگت کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر