وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلیک آؤٹ

پیر 11 اکتوبر 2021 بلیک آؤٹ

دوستو، رواں ہفتے کے پہلے ورکنگ ڈے کی شب اچانک فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔۔چند گھنٹے کے اس بلیک آؤٹ سے کہاجارہا ہے کہ فیس بک کو اس سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اگلے روز طرح طرح کی سازشی تھیوریاں جنم لینے لگیں۔۔ایک تحریر میں دعویٰ کیاگیاکہ۔۔ا انٹرنیٹ بلیک آؤٹ پہلے سے پلان تھا!تحریر کے مطابق ،آج سے دس ماہ قبل ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی ویب سائٹ پر ایک وڈیو ڈالی اور وڈیو میں وارننگ دی گئی تھی کہ۔۔کیا ہوگا اگر دنیا میں فزیکل لاک ڈاؤن کے بجائے انٹرنیٹ لاک ڈاؤن لگ جائے۔۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے بل گیٹس نے کووڈ پینڈیمک سے پانچ سال قبل ایک سیمینار کیا تھا کہ ۔۔کیا ہم پینڈیمک کے لیے تیار ہیں؟۔۔۔یہ بلیک آوٹ جو کہ صرف سوشل میڈیا جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر مشتمل تھا، اس نئے آنے والے انٹرنیٹ پینڈیمک یا لاک ڈاؤن کی صرف ایک جھلک تھا۔ اور صرف اس جھلک میں ہی لاکھوں لوگوں کو کروڑوں کا کاروباری نقصان ہوا۔ سوچیں۔۔ کیا ہوگا جب ورلڈ اکنامک فورم کی وارننگ بلکہ (پیشن گوئی) بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ان کی پہلے سے کی گئی پلاننگ کے مطابق پورے انٹرنیٹ کا بلیک آوٹ ہوگا اور لاکھوں لوگ جن کی کمائی صرف اور صرف انٹرنیٹ سے وابستہ ہے وہ گھٹنوں کے بل گر جائیں گے۔ سوچیں آپ بینک سے پیسے نہیں نکال سکتے، آپ کسی کو ای میل ، میسج یا کال نہیں کرسکتے۔ یہ تو چھوٹے نقصان ہیں۔ لوگ واقعتاً ایسے بلیک آوٹ میں خودکشیوں پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ہم خوابی بات نہیں کررہا۔۔۔’’یہ طبقہ‘‘ اپنے کام پوری پلاننگ سے کررہا ہے اور جیسے انہوں نے باقاعدہ بتا کر وائرس والا سلسلہ کیا اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ویسے ہی باقاعدہ بتا کر انٹرنیٹ بلیک آوٹ کیا جائے گا اور شاید اس وقت بھی لوگ آپس میں ہی بحث کرتے رہیں اور کانسپیریسی تھیوری پیش کرنے والوں کو ملامت کریں لیکن عقل کا استعمال نہیں کریں گے۔ وقت اب یہ ہے کہ فوراً سے پیشتر اپنے آن لائن کاموں کو فزیکل کاموں سے تبدیل کیا جائے، اگر آپ کی کمائی 100 فیصد آن لائن کام سے ہے تو آپ زیادہ بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں لہذا فزیکل کاروبار یا کام کو اپنی اگلی انکم اسٹریم بنائیں۔
فیس بک اور وٹس ایپ نے کام چھوڑ دیا توپاکستانیوں کی اکثریت بار بار موبائل ریفریش کر رہی تھی۔۔ پھر بھی ٹھیک نہیں ہوا ۔۔وائی فائی بھی ری اسٹارٹ کردیا۔۔ مگر پھر بھی کام نہیں کر رہے تھے ،انسٹا گرام پرگئے وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔۔قوم سمجھی کہ ہمارا انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا یوٹیوب اور کروم کھولے تو کام کر رہے تھے پھر ٹویٹر کھولا تو پتہ چلا کہ معاملا کچھ اور ہیں نیٹ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہیں مگر یہ تینوں ہی کام چھوڑ گئے ہیں ٹویٹر پر چند منٹوں کے اندر اندر وٹس ایپ کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ٹویٹر پر بریکنگ نیوز چل رہے تھے یوں فیس بک، انسٹا گرام اور وٹس ایپ کی چند منٹوں کی بندش نے پوری دنیا ہلا کر رکھ دی۔ٹویٹر پر مختلف تبصرے شروع ہو گئے ہر کوئی اپنی پسند کا مذاق اڑا رہا تھا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہو چکی ہے کہ ان کے بغیر رہنا بھی ہم تصور نہیں کر سکتے ۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپس کی بندش نے یہ ثابت کر دیا کہ لوگوں کیلیے تقریباً 80 فیصد انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے استعمال کا مطلب یہی ایپس ہیں، بعض لوگ تو اپنے انٹرنیٹ اور فون کو کئی کئی مرتبہ ری اسٹارٹ کرتے رہے۔ اس جال کی وسعت کا اندازہ لگائیں۔
باباجی فرماتے ہیں۔۔نشہ بیچنے والا پہلے فری میں یا سستا نشہ دے کر پھر نشہ دینا روک کر یہ ضرور چیک کرتا ہے کہ لوگ اس کے نشے کے عادی بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔۔ کچھ گھنٹے سوشل میڈیا کی بندش سے پریشان نہیں ہونا ابھی ہم لوگ سوشل میڈیا کے اتنے زیادہ عادی نہیں ہوئے ابھی ہم پر ٹیسٹ اپلائی کیے جا رہے ہیں، ابھی تو ہم نے مکمل طور پر اس نشے کا عادی ہونا ہے، پھر کنٹرول کرنے والوں (دجال، یہود و نصاریٰ) نے کنٹرول بھی کرنا ہے اور اپنی مرضی کے ہم سے کام بھی کروانے ہیں کچھ گھنٹوں کے لیے فیس بک ،واٹس ایپ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ہم سب پریشان ہوگئے تھوڑا سوچو اگر اس طرح کئی دن یا مہینے سوشل میڈیا بند ہوا تو ہمارا کیا حال ہوگا؟؟
دورِ حاضر میں جب چاہے لاک ڈاؤن لگا کر آپ پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ کبھی پابندیاں بہت سخت ہوتی ہیں تو کبھی لاک ڈاؤن لمبا ہوتا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے تجارت نہیں کرسکتے۔ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز بند ہوں تو آزادانہ کہیں آ جا نہیں سکتے۔ خوراک آپکو سبزی کے ٹھیلوں یا سپر اسٹورز سے ملتی ہے۔ آپ کے پاس اتنی جگہ اور وسائل نہیں کہ ازخود اپنی خوراک اگا سکیں۔ بجلی نہ ہو توآپ موٹر چلا کر پانی بھر سکتے ہیں، نہ کوئی آن لائن جاب کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ بند تو آپکی سافٹ اسکلز کی چُھٹی۔ دیکھا جائے توآپ اپنی خوراک، صحت، تجارت، بزنس، آمد و رفت میں آہستہ آہستہ محتاج ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ آپ کی ذہن سازی ہو رہی ہے۔آپ کو پیٹرول پمپ سے فیول نہ ملے تو کہیں جا سکیں گے؟ بجلی گیس نہ ہو تو گھر کیسے چلے گا؟ حتی کہ پانی اور کھانا کیسے بنے گا؟ ہائبرڈ بیج مارکیٹ سے ملنا بند ہو جائے تو کیا اگائیں گے؟ تعلیم کا حال تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ معیشت تو عرصے سے IMF کے ہاتھ میں ہے۔ اپنا گھر تعمیر کرنا تو ویسے ہی جوئے شیر لانا ہے۔یہ ہے وہ غیر محسوس جال جو آپکے گرد بُنا جا چکا ہے۔ اس کا ہلکا سا معائنہ وہ دیکھ چکے جن کا کاروبار اور چولہا ان دو سالوں میں ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ ممکن ہے آپ کو شاید اس کی سنگینی کا احساس اب نہ ہو، آپ کوئی جگاڑ نکال لیتے ہوں یا اتنے امیر ہوں کہ ان چیزوں سے فرق نہ پڑے۔ ممکن ہے آپ ان باتوں پر ہنس رہے ہوں کہ یہ سب کیا بکواس لگارکھی ہے۔۔ لیکن جلد ہی آنے والے وقت میں سب کو واضح ہوجائے گا کہ کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ یہودی میگزین دی اکانومسٹ تو پچھلے سال کرونا کے آغاز پر ہی کہہ چکا ہے کہ ۔۔ایوری تھنگ از انڈر کنٹرول۔۔ جب پوری دنیا یونہی جکڑ دی جائے گی، کلائمیٹ چینج سے فصلیں نہیں اگیں گی، خوراک کا مسئلہ سب سے بڑا اور شدید ہوگا، آپ کو پالنے والا آپ کا آنلائن بزنس اب انٹرنیٹ کی بندش سے ٹھپ ہوگا، تو پھر دنیا کسی ۔۔’’مسیحا‘‘ کی منتظر ہوگی کہ وہ آئے اور ان بحرانوں سے نجات دلائے۔ اور وہ مسیحا دجال اکبر ہوگا جو کہے گا ہر مشکل دور کردوں گا بس مجھے مان لو۔ یہی وہ فتنہ دجال ہے جس سے نبی ﷺ نے بھی پناہ مانگی اور یہ خوفناک ترین فتنہ ہے۔ حالات اسی جانب جا رہے ہیں۔
چلتے چلتے آخری بات۔۔ خدارا حالات کو سمجھیں، ایمان بچائیں اور بڑھائیں، اللہ والوں کی صحبت اختیار کریں، میڈیا کے زیر اثر نہ رہیں، اپنی خوراک و معیشت میں خود مختاری قائم کریں۔ اپنا سورس آف انکم یوں سیٹ کریں کہ آپ حقیقتاً خود مختار ہوں، پابندیوں سے متاثر نہ ہوں، اپنا سرمایہ کاغذی پیسے کی شکل میں نہ رکھیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر