وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارتی سیاست اور بوڑھے سیاست دان

پیر 11 اکتوبر 2021 بھارتی سیاست اور بوڑھے سیاست دان

(مہمان کالم)

راج دیپ سردیسائی

’’سبکدوش اْس وقت ہوجائیے جب لوگ کہیں کیوں نہ کہ اْس وقت جب لوگ کہیں کیوں نہیں‘‘ یہ بات عظیم کرکٹر وجئے مرچنٹ نے کہی تھی۔ انہوں نے 1951ء میں انگلینڈ کے خلاف شاندار سنچری ا سکور کرنے کے ایک دن بعد ٹیسٹ کرکٹ سے سبکدوش کا اعلان کیا تھا۔ ان کی وہ بات آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کھیل ہو یا سیاست لوگ اچھی خاصی عمر کے باوجود بھی اس سے چپکے رہتے ہیں اور دوسرے لوگ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کیوں؟ یہ نوبت آنے سے پہلے ہی کھلاڑی اور سیاست داں کو اپنے اپنے شعبہ سے سبکدوش ہوجانا چاہئے۔ جہاں تک سبکدوشی کا سوال ہے، آپ کی سبکدوشی کا وقت کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ کم از کم کرکٹ میں۔ کیونکہ وہاں ایک سلیکشن کمیٹی ہوتی ہے جو آپ کو کرکٹ سے سبکدوشی کی لیے اشارہ کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس سیاست میں کسی قسم کی سبکدوشی کی عمر ہوتی ہے اور نہ ہی ادارہ جاتی میکا نزم ہوتا ہے جو بڑی عمر کے سیاست دانوں کو ہٹا کر نوجوان سیاست دانوں کو ان کی جگہ لائے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی سیاست میں نسلی تبدیلی کو یقینی بنانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ عرصہ کے دوران بھارتی پنجاب میں جو سیاسی بحران پیدا ہوا اور پھر جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، وہ ہمارے سامنے ہیں، جہاں 79 سالہ چیف منسٹر کو عملاً عہدہ چھوڑنے کی لیے مجبور کیا گیا۔ 2017ء میں کیپٹن امریندر سنگھ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا آخری انتخاب لڑ رہے ہیں، پھر جاری سال کے اوائل میں انہوں نے اچانک اپنا ذہن تبدیل کرلیا اور اس بات پر زور دینے لگے کہ وہ عوام کی خدمت جاری رکھیں گے اور آخرکار کیپٹن امریندر سنگھ‘ جن تک عوام اور قائدین کی رسائی ناممکن ہوگئی تھی اپنے ارکان اسمبلی اور لوگوں سے کٹ کر رہ گئے۔ پھر بھی وہ سیاسی میدانِ جنگ سے دستبردار ہونے کی لیے تیار نہیں تھے جس کے باعث کانگریسی قیادت نے اس مشکل ترین صورتحال سے نمٹنے کی لیے حرکت میں ا?کر انہیں باہر کا دروازہ دکھادیا۔ کیپٹن امریندر سنگھ واحد کانگریسی لیڈر نہیں جو ایک طویل اننگز کھیلنے کے باوجود بھی اقتدار میں رہنے کے خواہاں ہیں۔ راجستھان کی مثال ہمارے سامنے ہے، 70 سالہ اشوک گہلوٹ تین مرتبہ چیف منسٹر رہنے کے باوجود عمر میں اپنے سے کہیں چھوٹے حریف سچن پائلٹ کے حق میں ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کی لیے تیار نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف اتراکھنڈ ہے جہاں 73 سالہ ہریش راوت ہنوز آئندہ سال ہونے والے انتخابات کی لیے اپنی پارٹی کا چہرہ بننے کی امید رکھتے ہیں۔
ہریانہ میں دو مرتبہ عہدہ چیف منسٹری پر فائز 74 سالہ بھوپیندر سنگھ ہوڈا ہنوز اس بات کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ تیسری مرتبہ بھی چیف منسٹر بنیں گے۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ اور ڈگ وجئے سنگھ جو اپنی عمر کی ساتویں دھائی میں ہیں، اقتدار کی لیے نوجوان جیوتر آدتیہ سندھیا سے الجھ پڑے اور اقتدار پر برقرار رہنے کی کوشش کی، خود کانگریس ورکنگ کمیٹی میں ایسے قائدین کی اکثریت ہے، جن کی عمریں 70 اور 80 سال کے درمیان ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کا حال بھی کانگریس سے مختلف نہیں۔ اس مسئلے میں وہ بھی مبتلا ہے اور پھر بی جے پی میں ساڑھے سات سال قبل نریندر مودی کی ڈرامائی آمد ہوئی اور نئے وزیراعظم نے جو پہلا کام اپنی پارٹی کی لیے کیاوہ مارگ درشک منڈل کی تشکیل تھا۔ اس منڈل میں پارٹی کے بوڑھے لیڈروں کو شامل کیا گیا تاکہ وہ پارٹی قیادت کی رہنمائی کرسکیں۔ دراصل مارگ درشک منڈل کہنے کو تو پارٹی کے پیرانہ سال رہنمائوں کی ایک مجلس ہے، لیکن اس کے پیچھے کچھ اور ہی تھا۔ حقیقت میں ایسے لیڈروں کو بی جے پی کی تمام اہم فیصلہ ساز کمیٹیوں سے نکال باہر کرنے کی لیے یہ باڈی تشکیل دی گئی تھی کیونکہ نئے وزیراعظم اپنی پارٹی کے بزرگ قائدین کو واضح طور پر سبکدوش ہونے کی لیے نہیں کہہ سکتے تھے اور نہ ہی وہ ان پر جبراً سبکدوشی کا لیبل چسپاں کرسکتے تھے ان حالات میں مارگ درشک منڈل قائم کرتے ہوئے پارٹی کے بوڑھے قائدین کو باہر کا راستہ دکھایا گیا جس میں خود مودی کے اتالیق ایل کے اڈوانی بھی شامل تھے۔ آج ان رہنمائوں کا کوئی مقام نہیں ہے، حالانکہ ان لوگوں نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ مودی نے ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے پارٹی میں 75 سال سے زائد عمر کے قائدین کو عہدے نہ دینے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی قائدین کی لیے حدِ عمر 75 سال مقرر کی گئی، اس طرح بی جے پی نے اندرون پارٹی نسلی تبدیلی انجام دی۔ ایسے میں پارٹی قیادت کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اگر آپ دیکھیں تو جن ریاستوں میں بی جے پی زیراقتدار ہے، وہاں کے وزرائے اعلیٰ کی عمریں 70 سال سے کم ہے۔ کئی تو 50 سال کے ہیں مثال کے طور پر دیویندر فڈنویس اور یوگی آدتیہ ناتھ چالیس سال کی عمر میں عہدہ چیف منسٹری تک پہنچے۔ ہاں بی جے پی نے عمر سے متعلق اپنے قاعدے کو کرناٹک کے معاملے میں توڑا جہاں بی ایس یدی یورپا 78 سال ہونے کے باوجود عہدہ چیف منسٹری پر فائز کئے گئے لیکن پچھلے ماہ یورپا کو مستعفی ہونے کی لیے مجبور کیا گیا اور وہ مستعفی بھی ہوگئے۔ آج مودی بی جے پی میں ایک ایسے لیڈر بن گئے ہیں کہ ان سے سوال کرنے کی کوئی جرآت نہیں کرسکتا۔ گزشتہ ہفتہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے سرجیکل ا سٹرائیک کرتے ہوئے گجرات میں چیف منسٹر کو تبدیل کیا، اگر کسی پارٹی میں قیادت کمزور ہو تب اس پارٹی کے لیڈر کو پارٹی کے لیڈروں پر کنٹرول کی لیے دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب شاید کانگریس کی قیادت کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ پارٹی پر اس کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں فیصلہ کن موقف اختیار کرنا ہی پارٹی کے بزرگ لیڈروں سے چھٹکارے کا ذریعہ بن سکتا ہے؛ چنانچہ کانگریس نے پنجاب میں 79 سالہ کیپٹن امریندر سنگھ کو ہٹاکر 49 سالہ چرنجیت سنگھ چنی کو چیف منسٹر بنایا ہے۔ دوسری طرف علاقائی جماعتیں ہیں جو زیادہ تر پارٹیز پر خاندانی اجارہ داری کو یقینی بنائیں ہوئے ہیں۔
ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے کی لیے ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی لیے زیادہ سے زیادہ چار تا پانچ میعاد کی حد رکھی جانی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پارٹیوں میں صدارت یا قیادت باری باری دی جانی چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند بنانا چاہئے کہ کوئی بھی فرد دو میعادوں سے زیادہ پارٹی کا صدر نہیں رہ سکتا اور ہر میعاد چار سال پر مشتمل ہوگی۔ اس کے علاوہ تمام سطحوں پر ایک شخص ایک عہدہ کا اصول لاگو ہونا چاہئے۔ پارٹی کی مختلف کمیٹیوں میں بھی اسی اصول پر عمل کیا جانا چاہئے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ انتخابات میں کم از کم ا?دھے ٹکٹس 50 سال سے کم عمر کے لوگوں کو دیے جانے چاہئیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے مارگ درشک منڈل کے ذریعہ بڑی عمر کے قائدین کو منظر عام سے ہٹا دیا ہے، لیکن کیا مسٹر مودی جو 2025ئ￿ میں 75 سال کے ہوجائیں گے ، سبکدوشی کے اس قاعدہ کا خود پر بھی اطلاق کرپائیں گے یا پھر کیپٹن امریندر سنگھ اور دوسروں کی طرح ’’ خدمت جاری رکھنے‘‘ کا اعلان کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر