وجود

... loading ...

وجود
وجود

جرمن الیکشن کے یورپ پر اثرات

منگل 05 اکتوبر 2021 جرمن الیکشن کے یورپ پر اثرات

 

مارک سینٹورا

اتوار کے روز جرمنی میں ہونے والے قومی الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوگیا‘ جس کے نتیجے میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کے امیدوار اولف شلز فتح یا ب قرار پائے ہیں۔یہ ایک سنٹر لیفٹ سیاسی پارٹی کی شاندار واپسی ہے جو یورپ کی اپنی دیگرہم خیال سیاسی جماعتوں کی طرح گزشتہ کئی عشروں سے بیلٹ باکس کے نتائج پربار بار شکست کھارہی تھی‘ لہٰذ ااس الیکشن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے فوری طور ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسٹر اولف شلز کی انتخابی فتح بڑے پیمانے پر سنٹر لیفٹ کی ان دوسری سیاسی پارٹیوں کے احیا کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جو کبھی براعظم یورپ کی سیاست کا مرکز و محور ہوا کرتی تھیں؟
جرمنی میں اولف شلز اب گرینز اور فری ڈیموکریٹس کے ساتھ مذاکرات کی تیاری کرر ہے ہیں تاکہ بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والی مخلوط حکومت بنائی جا سکے۔ان کی مرکز مائل الیکشن مہم کے بعدجرمنی میں بائیں بازو کی طر ف جھکائو رکھنے والی حکومت کا قائم ہوناایک کھلا سوال ہے اور اس وقت کسی بات کی کوئی گارنٹی نہیںدی جا سکتی۔اولف شلز کے قدامت پسندحریف جنہوں نے صرف 1.6فیصدووٹوں کے مارجن سے شکست کھائی ہے ابھی تک ہارماننے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے اور وہ بھی ایک مخلوط حکومت قائم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔اگرچہ اتوار کو آنے والے الیکشن کے نتائج نے اولف شلز کے سیاسی حریفوں کومکمل طور پر پچھاڑ دیا ہے مگر سنٹر لیفٹ کا منظر نامہ پھر بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک میں سنٹر لیفٹ کی کئی پارٹیوں کومحض اس وجہ سے اپنے مقبول ووٹ بینک سے محروم ہوناپڑا تھاکیونکہ ان کی زیادہ تر سیاسی حمایت صنعتی کارکنوں اور ورکرز یونینز میں پائی جاتی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی بلاکس چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بٹ گئے‘ مگر حالیہ برسوں میں دائیں بازو میں بھی ان کی مقبولیت میں اضافے کے بعد ایسے اشارے ملے ہیں کہ جن کی بدولت شایدان کی سیاست ایک مرتبہ پھر سے زندہ ہو جائے۔یہاں ہم ان عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا یورپ میں ایک مرتبہ پھر سنٹر لیفٹ کی پارٹیوں کا احیا ممکن ہے یا نہیں؟
جرمنی میں ہونے والے حالیہ الیکشن نے اس رجحان کے تسلسل کو بڑی حد تک ریلیف فراہم کیا ہے جو پہلے سے پورے بر اعظم یورپ میں نظر آرہا تھا یعنی سیاسی حمایت میں تیزی اور اتار چڑھائو۔صرف تین عشرے قبل جرمنی کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے قومی الیکشن میں 80فیصدسے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ اتوار کو ہونے والے الیکشن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے محض 25.7فیصدووٹ لیے ہیں جبکہ کرسچین ڈیموکریٹس نے اپنی بیویرین اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین کے ساتھ مل کر صرف24.1فیصدووٹ حاصل کیے ہیںجس کے بعد ان کی واکس پارٹی کے طو رپرشہرت کے بارے میں سوالات اْٹھ گئے ہیںکہ کیا یہ سوسائٹی کے تمام عناصر کی نمائندگی کرتی ہیں یا نہیں۔جو سیاسی جماعتیں کبھی اکثریتی پارٹیا ں سمجھی جاتی تھیں اب ان کے ووٹ کہیں کم ہو گئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ کم ہونے والے یہ سارے ووٹ ان سیاسی جماعتوں کو پڑ گئے ہیں جنہیں کبھی برائے نام سیاسی جماعتیں سمجھا جا تا تھا۔وہ خواہ گرینز پارٹی ہو‘ جو ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو اٹھا کر سیاسی طو رپر دوبارہ زندہ ہو گئی ہے یاآزادی پسند جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی۔اگر جرمنی کے ووٹر کا ووٹ دائیں اور بائیں بازو کے روایتی نظریے کی بنیاد پر ہی تقسیم ہو نا تھا تو اس ووٹ کو تقریباًمساوی بنیاد پر تقسیم ہونا چاہئے تھااور ہر فریق کو 45فیصدووٹ پڑنے چاہئیںتھے۔
جب دنیا بھر میں کورونا کا مہلک وائرس پھیلناشروع ہوا تو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی 2019ئ￿ میں امریکہ کے معروف پیو ریسرچ سنٹر نے یورپی یونین کے 14ممالک میں ایک سروے منعقد کرایا تھا جس کے نتائج سے یہ معلوم ہوا تھاکہ سروے میں حصہ لینے والے کئی ووٹرز نے سیاسی جماعتوں کے بارے میں اپنے مثبت خیالا ت کا اظہار کیا۔ان ممالک کی پچاس فیصدسے زائد ا?بادی میں سے لوگوں نے اس سروے میں حصہ لیا تھا۔ اس رائے شماری میں شامل ہونے والے60رضا کاروں میں سے صرف چھ نے سیاسی جماعتوں کے حق میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔پورے براعظم یورپ کی مقبول جماعتوںکو بھی اپنے بارے میں بڑے پیمانے پر منفی ریویوز ہی برداشت کرنا پڑے تھے۔تاہم ابھی یہ مشاہدہ کرنا باقی ہے کہ کیا جرمنی کے سوشل ڈیموکریٹس اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں مناسب اور معقول انداز میںایک مخلوط حکومت چلا سکیں؟ بفرض محال وہ مخلوط حکومت چلانے کا تجربہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ نسبتاً ایک چھوٹے سے کلب میں شمار کیے جائیںگے۔
اس وقت یورپی یونین بلاک 27چھوٹے بڑے ممالک پر مشتمل ہے ‘مگر اس وقت ان میں سے صرف پرتگال ‘سپین ‘ڈنمارک‘ سویڈن ‘فن لینڈ اور مالٹا ہی ایسے ممالک ہیں جہاں نمایا ں طور پر سنٹر لیفٹ نظریات رکھنے والی حکومتیں قائم ہیں۔ماضی میں مخلوط ووٹوں کی بدولت 1945 کے بعد پورے براعظم یورپ میں سنٹر لیفٹ کو اقتدار میں لانے والوں میں صنعتی کارکن‘ سرکاری شعبے میں کام کرنے والے ملازمین اور شہروں میں رہنے والے پروفیشنلز شامل ہوا کرتے تھے‘مگر یہ گروہ‘ جن کے پس پردہ بنیادی طو رپر طبقاتی تقسیم اور معاشی ضروریات کارفرماہوا کرتی تھیں اب ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔
اگر ہم آج سے دو عشرے پہلے کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سیاسی جماعت لیبر پارٹی نے برطانیہ میں ری الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تھا ‘جس طرح امریکی صدر بل کلنٹن نے امریکہ میں سنٹر لیفٹ کی پالیسیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی ایسی ہی پالیسیوں کو پروموٹ کرنے کے لیے ایک کوشش ٹونی بلیئر نے بھی برطانیہ میں کی تھی۔اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ لیبر پارٹی گزشتہ ایک دہائی سے اقتدار کے محلوں سے باہر ہے اور حال ہی میں ہونے والے کئی الیکشنز میںلیبر پارٹی کو برطانیہ میں اس ورکنگ کلاس کے ووٹ بینک سے ہاتھ دھونا پڑا ہے جہاں کبھی اس پارٹی کی مقبولیت اپنے عروج پر نظر آتی تھی
فرانس میں سینٹر لیفٹ کی سوشلسٹ پارٹی صدر فرانکو ہولیندے کی غیر مقبولیت اور الیکشن میں ان کی تباہ کن کارکردگی کی وجہ سے دوبارہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ اس وقت سے فرانس کا جھکائو سوشلسٹس کی حمایت اور بائیں بازو کی جماعتوں کے کمزور ہونے کی وجہ سے بڑی تیزی سے دائیں بازو کی طرف ہو گیا ہے۔ فرانس میں آئندہ اپریل میں ہونے والے الیکشن کے پیش نظر صدر ایمانوئل میکرون‘ جو 2017ء سے ایک سینٹرسٹ کے طور پر حکومت چلا رہے ہیں‘ اب ووٹرز کو دائیں بازو کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب تک ہونے والے سرویز سے پتا چلتا ہے کہ وہ اور انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میرن لی پین ایسے دو پسندیدہ امیدوار ہیں جو پہلے رائونڈ کے بعد رن آف کے مرحلے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔ پیرس کی میئر اور سوشلسٹ صدارتی امیدوار این ہڈالگو ستمبر میں اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کرنے کے بعد سے مسلسل اپنی حمایت کھو رہی ہیں۔ 23 ستمبر کو جاری ہونے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق صرف 4 فیصد ووٹرز کا کہنا ہے کہ وہ اگلے اپریل میں ہونے والے پہلے انتخابی رائونڈ میں ان کی حمایت کریں گے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد جونہی مارشل پلان کے تحت یورپ میں برے پیمانے پر سرمایہ کاری کا آغاز ہوا اور اس کے نتیجے میں صنعتوں کا عروج آیا تو عوام کی ایک کثیر تعداد کمیونزم کی مخالفت کرنے کے باوجود اس تشویش میں مبتلا تھی کہ سینٹر لیفٹ کی جماعتوں کی چھتری تلے سرمایہ کارانہ نظام یورپ میں عدم استحکام اور عدم مساوات کا موجب بنے گا۔ انہوں نے طاقتور ٹریڈ یونینز اور ان فلاحی ریاستوں کی حمایت کی جن میں تعلیم اور صحت عامہ پر فراخدلانہ اخراجات کیے جاتے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی کچھ عرصہ پہلے سینٹر لیفٹ اور سینٹر رائٹ میں پائی جانے والی لائن مفقود ہو رہی تھی لیکن اگر سینٹر لیفٹ اور سینٹر رائٹ کے ووٹرز میں کسی اہم مسئلے پر کوئی اختلاف پیدا ہو تو یورپی یونین کو ان ممالک کے گورننس کے امور میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بہت سی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے برسلز کو اپنا ریگولیٹری آقا تسلیم کر لیا ہے اور وہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے طور پر اپنی خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ اس کے برعکس جرمن چانسلراینجلا مرکل جیسے قدامت پسند رہنما یورپی یونین کے زبردست حامی ہیں؛ تاہم وہ اس بلاک کے اندر رہتے ہوئے مالیاتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے معاملے میں ایک محتاط رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے سوشل ڈیمو کریٹس یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک گہرے اور مضبوط اتحاد اور انضمام کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں یورپی یونین کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی اتحاد اور اشتراک کی اصل آزمائش کورونا وائرس کے مہلک حملے کے دوران ہوئی اور اس عمل سے شاید سوشل ڈیمو کریٹس کی براہِ راست مدد بھی ہوئی ہو کیونکہ جرمنی نے کووڈ کے دوران ہونے والے ہنگامی اخراجات سے نبرد آزما ہونے کے لیے یورپی یونین کے مشترکہ قرضوں میں حصہ ڈالنے سے اپنی روایتی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔
اصل منصوبہ یہ تھا کہ اولف شلز‘ جو اس وقت جرمنی کے وزیر خزانہ ہیں‘ اپنے فرانسیسی ہم منصب کے ساتھ یہ معاملہ اٹھائیں گے۔ اینجلا مرکل‘ جنہوں نے اس ڈیل کی منظوری دی تھی‘ متعدد بار اس بات کی نشاندہی کر چکی ہیں کہ یہ ڈیل صرف ایک مرتبہ کے لیے ہی تھی۔ اولف شلز‘ جنہوں نے یہ ڈیل تیار کرنے میں مرکز ی کردار ادا کیا تھا‘ نے کھل کر خود کو ان جرمنوں کے پلڑے میں شامل رکھا جو اپنے یورپی ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمیشہ سخت اور محتاط تعلقات رکھنے کے حق میں ہیں۔ یورپی یونین کے سیاسی پس منظر میں مزید انتشار کا باعث بننے والا مشترکہ عنصر یہ ہے کہ ووٹرز کے نزدیک روایتی پارٹیوں اور ان کی جانب سے اٹھائے گئے ایشوز کے بجائے یہاں سیاسی شخصیات زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں۔ یورپ کے سیاسی ا سٹیج پر ہمیشہ بھاری بھر کم سیاسی شخصیا ت موجود رہی ہیں۔ برطانیہ کی سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر ہوں یا فرانس کے سابق صدر فرانکو متراں‘ جرمنی کے سابق چانسلر ہیلمٹ کول ہوں یا ولی برانٹ جیسے لیڈر۔ یہ تمام وہ شخصیات ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کے بجائے ہمیشہ اپنے نظریاتی رہنما اصولوں کی پاسداری کو ہی ترجیح دی تھی۔
یہاں ہمیں ایک اور امر پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے ووٹرز کو اس وقت جن اہم اور سنگین ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ ان ممالک کی معروف سیاسی جماعتیں ان روز مرہ مسائل کی طرف توجہ دینے میں بری طرح ناکام رہی ہیں‘ جس کے نتیجے میں سیاسی رہنمائوں کی ایک ایسی نئی نسل سامنے آئی ہے جو اپنی پہلی نسل کے برخلاف خود کوہمیشہ روایات کی پاسداری کے جھمیلوں سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ وہ فرانس کے موجودہ صدر عمانویل میکرون ہوں یا برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن‘ دونوں اسی نئی نسل کے سیاسی نظریات کے ترجمان اور عکاس سمجھے جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ شہرت بھی ہے کہ دونوں موقع پرستی کا کوئی چانس ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ دونوں رہنما روایات کی تضحیک کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اور دونوں خود کو ایک عہد ساز طلسماتی شخصیت کے طور پر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ایسا صرف اپنے عوا م کی توجہ اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کی نیت سے کرتے ہیں۔ اب تک دونوں اپنے اس مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں اور عوام نے بھی بھرپور سیاسی حمایت کی صورت میں ان کا ساتھ دیا ہے۔
جہاں تک جرمنی کی موجودہ چانسلر اینجلا مرکل کی شخصیت کا تعلق ہے‘ وہ اس نئی نسل کے بالکل برعکس ایک مختلف سیاسی رہنما کی شہرت رکھتی ہیں۔ وہ سیاست کے میدان میں تمام تر نظریاتی اختلافات سے ماورا استحکام اور استقامت کا ایک پہاڑ نظر آتی تھیں مگر ان کی سیاسی جماعت کی طرف سے چانسلر کے امیدوار ارمن لاشیٹ اپنے ووٹر ز کواس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ وہ اینجلا مرکل کے صحیح جانشین اور ترجمان ثابت ہوں گے۔ ان کی اس ناکامی نے ہی اولف شلز کے لیے کامیابی کے دروازے کھولے ہیں اور وہ جرمنی کے عوام پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ اگرچہ وہ ایک دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہیں مگر اینجلا مرکل کے صحیح اور حقیقی متبادل وہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر