وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین کے خلاف امریکی اتحاد

اتوار 03 اکتوبر 2021 چین کے خلاف امریکی اتحاد

(مہمان کالم)

سیم راگوین

امریکا نے آسٹریلیا اور برطانیا کے ساتھ بحرالکاہل اور بحر ہند کی سکیورٹی کے لیے جس تاریخی شراکت داری کا اعلان کیا ہے‘ اس میں براہِ راست چین کا کوئی ذکر تو نہیں کیا گیا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے تھا؛ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دفاعی معاہدہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امریکا چین کو اپنا دشمن اور حریف سمجھتا ہے۔ امریکا کی چین کے ساتھ اس مخاصمت میں آسٹریلیا کو بھی ایک مرکزی کردار تفویض کیا گیا ہے۔ آسٹریلوی حکومت‘ جو کئی برسوں سے دفاعی میدان میں اپنے خود انحصاری کے عزم کا اظہار کر رہی تھی‘ اب امریکا کے ساتھ اپنے نئے دفاعی اتحاد پر بڑی اترا رہی ہے۔ آسٹریلیا سمجھتا ہے کہ امریکا ایشیا میں ایک لمبے عرصے تک سرگرم رہے گا اور اگر ضروری ہوا تو وہ چین کو سرنگوں کرنے کی کوشش بھی کرے گا مگر ایسا ہونا نہیں چاہئے۔
اس شراکت کو جسے اوکس (AUKUS) کا نام دیا گیا ہے‘ امریکا اور برطانیا کے مابین ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت ا?سٹریلیا کو جوہری ایندھن سے چلنے والی ا?بدوزیں بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔ یہ لڑاکا طیاروں یا چھوٹی توپوں جیسے ہتھیاروں سے متعلق کوئی عام سا معاہدہ ہرگز نہیں۔ دنیا کے چند ہی ممالک کے پا س ایٹمی ایندھن سے چلنے والی ا?بدوزیں ہیں اور برطانیا کے بعد آسٹریلیا امریکا کی اس اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے والا دوسرا ملک ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ آسٹریلیا اس ’حسنِ سلوک‘ کا مستحق کیوں ٹھہرا؟ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ امریکا کا قدیم ترین اور قریبی اتحادی ہے۔ بہت سے امریکی مبصرین کے خیال میں اس کی وجہ چین کا بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ ہے، مگر توانائی کے شعبے میں کوئلے کی کانوں کے معاملے میں آسٹریلیا چین کا بڑا حریف بھی ہے۔ آسٹریلیا کو کوئلے اور جو کی برآمدات میں چین کے معاشی جبرکا سامنا بھی رہا ہے، 2019ء میں چین کے ہیکرز آسٹریلوی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ کی ہیکنگ میں بھی ملوث پائے گئے۔ اس کی سکیورٹی ایجنسیوں نے چین کی طرف سے جاسوسی اور مداخلت کی رپورٹس بھی دی تھیں۔ کئی چینی عہدیدران اپنے آسٹریلوی ہم منصبوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنانے کے مرتکب بھی پائے گئے ہیں۔
گزشتہ سال ایک چینی ڈپلومیٹ نے آسٹریلیا کے خلاف 14 شکایات پر مبنی ایک فہرست جاری کی تھی جو ایک ایسی دستاویز تھی جس میں جون میں ہونے والی G-7 سربراہ کانفرنس میں ہونے والی بات چیت کا ذکر تھا۔ ان شکایات میں آسٹریلیا کے اس سخت گیر موقف کا ذکر تھا جس کے تحت اس نے چین کے ٹیلی کام آئیکون ہواوے کو 5G انفراسٹرکچر میں مسابقت سے روکنے سے لے کرچین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ معاہدہ ختم کرنے تک کوشش کی۔ آسٹریلیا نے گزشتہ پانچ سال کے دوران اپنے دفاعی خصوصاً نیوی کے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ کیا ہے جب کہ اوکس معاہدہ ان اخراجات کو نئی بلندیوں تک لے گیا ہے۔ امریکا کی طرح آسٹریلیا بھی چین کی عسکری میدان‘ خاص طور پر بحری فورس پر تیز رفتار سرمایہ کاری کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اپنی تاریخ میں آسٹریلیا نے بحر الکاہل کے دفاع کے لیے زیادہ تر اپنے دوستوں یا اتحادیوں پر ہی انحصار کیا۔ یورپی باشندوں کی آبادکاری کے بعد سے‘ یعنی گزشتہ 200 سالوں میں آسٹریلیا کو اپنی علاقائی سلامتی سے متعلق خطرہ صرف دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی محسوس ہوا تھا مگر اب ایشیا کے بحری راستوں پر چینی بالادستی سے آنے والے دنوں میں امریکا نہیں بلکہ آسٹریلیا کو اصل خطرہ لاحق ہو گا۔ اگرچہ اوکس معاہدے پر دنیا کے کئی ممالک کو حیرانی ہوئی تھی مگر اس حوالے سے آسٹریلیا کا محرک بالکل واضح ہے۔ فرانس کے ساتھ آبدوزوں کے ایک مہنگے اور تاخیرکے شکار پروجیکٹ کے بعد آسٹریلوی حکومت نے دنیا کی جدید ترین آبدوز ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے بلکہ اسے امریکا کے مزید قریب جانے کے لیے بھی ایک غنیمت جانا ہے۔
صدر بائیڈن کی حکومت آسٹریلیا کی تشویش سے متفق ہے کیونکہ اسے بھی چین کے بارے میں متنوع قسم کے خدشات لاحق ہیں۔ امریکا تو ایشیا میں اپنی مرضی سے ہے مگر آسٹریلیا کی یہ مجبوری ہے۔ امریکا کی طرف سے عسکری اور تکنیکی تعاون کے یہ اقدامات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں مگر اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ امریکا چین کے ساتھ سرد جنگ جیسی کسی نئی مسابقت میں الجھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ امریکا اپنے جغرافیائی محل وقوع، دوست ہمسایہ ممالک، مضبوط ترین معیشت اور اپنے دفاع کے لیے دنیا کے جدید ترین اسلحے کے معاملے میں بہت خوش قسمت ہے مگر چین بھی بہت مضبوط ملک ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران اس کی معیشت کا حجم ہی اسے امریکا کا طاقتور ترین حریف بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے امریکا کی بھی یہ ضرورت اور مجبوری ہے کہ وہ بھی چین جتنی بڑی معاشی طاقت بن جائے۔ اس کے لیے محض یہ جواز کافی نہیں کہ چین اپنے ہمسایوں کو بلاوجہ ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ نہ ہی امریکا کے آسٹریلیا جیسے اتحادی کو خطرے کی وجہ سے دونوں ممالک کو اپنا اتحاد مضبوط بنانے کی ضرورت ہے نہ اس کی یہ وجہ ہے کہ اگر چین نے عالمی بالادستی حاصل کر لی تو امریکا کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس ضمن میں ہمارا موقف بالکل واضح ہونا چاہئے کہ چین امریکا کی قومی سلامتی، اس کے وجود اور مفادات سمیت اس کے طرز حیات کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ چونکہ چین ابھی اپنے عزائم واضح نہیں کر رہا‘ اس لیے امریکا کے پاس بھی اس با ت کی کوئی فوری وجہ نہیں ہے کہ وہ اسے ایک علاقائی قوت بننے سے روکنے کے لیے کوئی فوری خطرہ مول لے۔
اس بات کی پریشانی آسٹریلیا کے ان فیصلہ سازوں کو ہونی چاہئے جنہوں نے اپنے مستقبل کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ وابستہ کرنے کا رسک لیا ہے یا پھر امریکا کو اس کی تشویش ہونی چاہئے کہ آخر امریکا چین کے ساتھ ایسی مسابقت میں کیوں الجھنا چاہتا ہے جبکہ اس کے خدشات ابھی دور دور تک وجود نہیں رکھتے۔ اگر آ سٹریلیا کے پاس اس اہم ترین سوال کا جواب نہیں ہے تو اسے اس امر کا بخوبی ادراک ہو جانا چاہئے کہ اسے اکیلے ہی اپنی سلامتی اور اپنے دفاع کو یقینی بنانا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر