وجود

... loading ...

وجود
وجود

تارکینِ وطن سے دشمنی

هفته 02 اکتوبر 2021 تارکینِ وطن سے دشمنی

نصف سے زائدمدتِ اقتدارگزارنے کے باوجودموجودہ حکومت کسی شعبے میں قابلِ ذکر یا قابلِ تعریف کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی بلکہ مہنگائی اوربے روزگار ی میں اضافے کی بنا پر حمایتی طبقہ بھی اب افسردہ اورپشیمان دکھائی دینے لگاہے مگربیرونِ ملک آج بھی حکمران جماعت کی مقبولیت ایک عیاں حقیقت ہے یہ دوسری جماعتوں سے ذیادہ تارکینِ وطن میں مقبول ہے شاید اسی بناپر حکمراں تارکینِ وطن کو ووٹ کا حق دینے کے ساتھ ایوانوں میں نمائندگی کی بات کرتے ہیں سوشل میڈیا پرعمران خان کے حامیوں کاجوغلبہ ہے اِس میں بڑی تعداد تارکینِ وطن کی ہے جو حکومت کے اچھے کاموں کے ساتھ غلط فیصلوں کی تائید میں دلائل پیش کرتے نظر آتے ہیں اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ جب سے تحریکِ انصاف حکومت میں آئی ہے ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان اِس حوالے سے دنیا کے تیسرے بڑے ملک کامقام حاصل کرنے کے قریب ہے جس کی ایک وجہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں میں وزیرِ اعظم کی زاتی مقبولیت ہے اسی بناپر انھوں نے امریکہ وغیرہ میں تاریخی جلسے کیے مگر کیا موجودہ حکومت نے تارکینِ وطن کی بہتری کے لیے عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کیے ہیں بظاہر زمینی حقائق ہاں میں جواب دینے کی تائید کی بجائے نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں اگر یہ کھوجنے کی کوشش کی جائے کہ موجودہ حکومت نے تارکینِ وطن کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں؟ توہاں میں ہی جواب دینا قرینِ انصاف ہوگا اِس حوالے سے موجودہ اناڑی حکمرانوں نے حماقتوں کے پہاڑ کھڑے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بات یہاں تک ہی محدودنہیں رہی بلکہ قومی سلامتی کے حوالے سے بھی خطرات بڑھادیے ہیں جس کے بعد عین ممکن ہے جلد ہی تارکینِ وطن بھی اپنے ہم وطنوں کی طرح حکمرانوں پر برستے نظر آئیں ۔
کوئی ملک اپنے ملک کے ڈیٹا تک کسی دوسرے ملک کو رسائی نہیںدیتامگرپاکستان کی طرف سے نادرا نے یہ حماقت بھی کر دی ہے لیکن حکومت نے نادرا کے چند آفیسروں کی وجہ سے مسائل کی دلدل میں دھنستے تارکین وطن کی حالتِ زار کا نوٹس نہیں لیا بیرونِ ملک سفارتخانوں میں نادرا کائونٹر قائم کرنے کا فیصلہ جس حوالے سے بھی دیکھیں یہ تارکینِ وطن کے ساتھ ملک کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے نادرا نے حماقت کرتے ہوئے دنیا کو اپنے ڈیٹا تک رسائی دے دی ہے اب جس ملک کی کوئی ایجنسی یا اِدارہ جب چاہے نادرا ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے یہ احمقانہ و ظالمانہ فیصلہ نادرا کے آفیسروں نے محض چند ممالک کی سیر و سیاحت کے لالچ میں کیا ہے کچھ آفیسر مغرب کی سیاحت کرنے کے ساتھ تحائف وصول کر چکے ہیں جبکہ کچھ ابھی گھومنے پھرنے اور نائٹ کلبوں میں شراب و شباب میں خود کو ڈبونے میں مصروف ہیںنادرا ڈیٹا تک رسائی ملنے سے کئی ممالک میں پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کاکام شروع ہوچکا ہے جوں جوں سفارتخانوں میں نادراکائونٹر ز کی تعداد میں اضافہ ہوگابیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جائے گا جس کے نتیجے میں پیسے کمانے والی یہ مشینیں کام کرنے کی بجائے وطن واپس آنے اور بے روزگاری کے سیلاب کاحصہ بننے پر مجبورہوتی جائیں گی۔
نادرا ڈیٹا تک رسائی سے کسی ملک کے لیے بھی ہر پاکستانی کے بارے یہ جاننا آسان ہوجائے گا کہ وہ کسی ایف آئی آر کی بناپرکسی ایجنسی کو مطلوب ہے یا نہیں۔کسی پر کوئی بھی کیس ہوا تونہ صرف بیرونی حکام فوری جاننے کے قابل ہوجائیں گے بلکہ اسی آڑ میں معمولی جواز پر ملک بدر کر سکیں گے اور پھر یہ سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا ہمارے ملک میں یہ ایک روایت ہے کہ ایک بندہ جرم کرتا ہے تو ایف آئی آر درج کراتے ہوئے کئی بے گناہ بھی ساتھ ہی نامزد کردیے جاتے ہیں کچھ عرصہ سے یہ چلن بھی عام ہوگیا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم افراد کو مشورے کے الزام میں بھی نامزد کیا جانے لگا ہے اگر ایسا ہی سلسلہ چلتا رہا تو سوچیے تارکینِ وطن کس طرح بیرونِ ملک قیام کر سکیں گے؟ کیونکہ نادرا ڈیٹا تک رسائی سے غیر ملکی حکام مجرم ہونے کا الزام لگا کر پاکستانیوں کو دھڑا دھڑ بے دخل کرنا شروع کر دیں گے اور کیس کا فیصلہ تک بے گناہی ثابت کرنے کے ساتھ بے روزگاری کا عذاب الگ سہنے پر مجبور ہوں گے ملک کے ڈیٹا تک رسائی سے نہ صرف کسی بھی عالمی طاقت کوپاکستان میں آلہ کار تلاش کرنے اورپھر کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کی سہولت مل جائے گی بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بے دخلی سے ملک میں بے رزگاری میں اضافے سے سیاسی عدمِ استحکام میں الگ اضاف ہوگااِس طرح نہ صرف تارکینِ وطن کی زندگی اجیرن ہوگی بلکہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے بھی شدید نوعیت کے خطرات پیداہونے کا اندیشہ ہے نادرا کے چند آفیسروں نے رنگ رلیوں اور سیاحت کے لیے تارکینِ وطن سے ایسی دشمنی کی ہے جو موجودہ حکومت کی بداعمالیوں کے تمام نقصانات سے ذیادہ ملک کو مسائل کی گرداب میں دھکیلنے کا موجب بنے گی سپین کے شہربارسلونا میں قونصل جنرل عمران علی چوہدری ایک واحد شخصیت ہیں جنھوں نے قونصل خانے میں نادراکا کائونٹر نہیں بننے دیا مگر اب یہ بھی رکاوٹ ختم ہونے کے قریب ہے کیونکہ ترقی پانے کے بعد اب اُن کی یورپ سے باہر تعیناتی کا امکان ہے ۔
زرعی اور صنعتی پیداوار کم ہونے سے برآمدات متاثر اوربڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کا درآمدات پر انحصار بڑھنے لگا ہے اِن حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ زرعی و صنعتی پیداوار بڑھانے کے ساتھ تارکینِ وطن کے لیے بھی سہولتوں میں اضافہ کیا جاتا تاکہ ایک طرف ملک خوراک میں خود کفیل ہوتا نیز بے روزگاری کم ہوتی ساتھ ہی ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوتالیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی جماعت کی تمام تر توانائیاں حریف جماعتوں کو نیچا دکھانے کے لیے وقف ہیں اگر بات یہاں تک ہی محدود رہتی تو پھر بھی شاید نقصان کم ہی رہتا لیکن وطنِ عزیزکے دیارِ غیر میں بسنے والوں کو مشکلات کے بھنور میں بے یارومددگار چھوڑنے کے ساتھ دانستہ طور پرمزید مصائب پیدا کیے جانے لگے ہیں جس سے ترسیلاتِ زر میں نمایاںکمی کے خدشے کے ساتھ روزگار کے لیے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی سازگار حالات ناہموار ہو سکتے ہیں مگر حکومتی صفوں میں دور تک نظر دوڑانے کے باوجود ایسا کوئی فردنظر نہیں آتا جس کو حماقتوں کا احساس ہو اور وہ تارکینِ وطن کی صدقِ دل سے مشکلات کم کرنا چاہتا ہوزلفی بخاری نے کچھ لوگ جرمنی بجھوائے مگر اُس میں بھی ملک کا نہیںموصوف کا زاتی فائدہ تھا بڑھتے ملکی خسارے کو خوفناک حد تک جانے سے روکنے میں ترسیلاتِ زر کا اہم کردار ہے لیکن حکومت نے جس طرح تارکینِ وطن کورسواکرنے کی نادرا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے یہ تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے حالانکہ کسی فرد کی نجی زندگی میں مداخلت روکنے کے لیے ملکی و عالمی قوانین موجود ہیں پھر نادرانے ڈیٹا کے حوالے سے کیوں دنیا پر مہربان ہے اور پاکستان کیوں اپنے شہریوں کے ڈیٹا تک تمام دنیا کو رسائی دے رہا ہے ؟کہیں نادرا میں غیرملکیوں کے آلہ کار تو نہیں؟حکومت کو چاہیے کہ بیرونِ ملک رنگ رلیاں منانے ،سیاحت اور تحائف وصول کرنے والے تمام آفیسروں کو گرفتار کرکے غداروں جیسی کڑی سزا دے کیونکہ نادرا کی چند کالی بھیڑوںکی حماقت نے ملکی معیشت بہتر بنانے میں معاون ترسیلاتِ زر کم کرنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے غیر ملکی سرزمین تنگ کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے جنھیں معاف یا نظر انداز کرنا ملک و ملت سے دشمنی کے مترادف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر