وجود

... loading ...

وجود
وجود

ویکسین کی بوسٹر خوراک کی ضرورت

جمعه 01 اکتوبر 2021 ویکسین کی بوسٹر خوراک کی ضرورت

(مہمان کالم)

میگن رینی

بالآخر یہ حتمی فیصلہ ہو گیا ہے کہ امریکی شہریوں کو کورونا وائرس کے خلاف ایک بوسٹر ڈوز بھی لگنی چاہئے۔ بدقسمتی سے بعض نئی وفاقی سفارشات دستیاب ڈیٹا سے مطابقت نہیں رکھتیں اور اس کے لیے اہلیت کا فیصلہ امریکی شہریوں اور ان کے ڈاکٹرز پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بوسٹر ڈوز کی اہلیت کو ساری امریکی آبادی تک وسیع کر دیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں بائیڈن حکومت ویکسین کے بارے میں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی مرتکب ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ دستیاب ویکسینز ہر ایک کو شدید بیماری کے خلاف تحفظ دے رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو افراد ہائی رسک پر نہیں ہیں‘ ان کے پاس بوسٹر ڈو ز کے فوائد کا اندازہ لگانے اور ڈیٹا جمع کرنے کیلیے مناسب وقت موجود ہے اور اس دوران ہمیں ویکسین نہ لگوانے والوں کی تعداد کم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جمعہ کے دن سی ڈی سی پی نے یہ سفارش کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی فائزر کی گزشتہ چھ ماہ کے دوران کم از کم دو دفعہ ویکسین لگوا لی ہیں‘ ان میں صرف دو گروپوں کو بوسٹر ڈوز لگوانی چاہئے۔ 65 سال سے زائدعمر کے تمام افراد اور بعض طبی حالات میں 50 سے 64 سال عمر کے لوگوں کو بوسٹر ڈوز کی ضرورت ہوگی۔ مگر سی ڈی سی نے دو اضافی گروپوں کی بھی بات کی ہے؛ ایک وہ جو 18 سے 49 سال کی عمر میں ہوں اور طبی مسائل کے شکار ہوں‘ دوسرے وہ جو 18 سے 64 سال کی عمر کے ہوں اور اپنے کام کے دوران کورونا کے ہائی رسک پر ہوں‘ وہ بھی بوسٹر ڈوز لگوا سکیں گے۔ سفارشات کا دوسرا سیٹ پری میچیور اور مبہم ہے۔ اس کی وجہ کچھ یوں ہے۔ اسرائیل، برطانیا اور امریکا سے ملنے والے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ ہسپتال میں داخل مریضوں اور عام شہری کی زندگی کو ویکسین سے کووڈ کے خلاف بہترین تحفظ ملا ہے۔ یہ دونوں گروپ ویکسین لگنے کے باوجود شدید بیماری کے لیے ہائی رسک پر ہیں، مگر عام نوجوانوں کے لیے بوسٹر ڈوز کے فوائد کے بارے میں کوئی مناسب ثبوت نہیں مل سکے۔ ان میں کمزوراور خراب صحت والے لوگ بھی شامل ہیں۔ سی ڈی سی کی لسٹ‘ جو بوسٹر ڈوز کی اہلیت کا تعین کرتی ہے‘ بہت ہی طویل ہے اور شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو گا جو اس طرح کی صحت کے ساتھ بیماری کے لیے ہائی رسک پر نہ ہو؛ تاہم یہ امکان تو ہے کہ اس کے مجموعی اثرات اتنے زیادہ نہیں ہوں گے۔ کئی ہزار لوگوں کو ہسپتال میں دوبارہ داخل ہونے سے بچنے کے لیے ویکسین کی ایک اضافی ڈوز لگنے کی ضرورت ہو گی۔ تیسری ڈوز کی سیفٹی کے حوالے سے بھی زیادہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ ایجنسی کی ایڈوائزری کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ تیسری ڈوز لگوانے کی وجہ سے کتنے نوجوانوں کو دل پر سوزش کا عارضہ لاحق ہونے کا امکان ہے۔ اگرچہ ایسے لوگوںکی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوگی؛ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ بوسٹر ڈوز سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے یا اس سے نقصان اٹھانے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ سی ڈی سی کی کمیٹی نے جو ڈیٹا فراہم کیا ہے‘ وہ جامع نہیں تھا اور اس کا ماڈل بھی محض قیاس آرائی پر مبنی تھا۔ پھر بھی ہم نے ان کی شفافیت کی تحسین کی ہے، مگر سفارشات کے اس دوسرے سیٹ میں اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اگر تیسری ڈوز لگوانے والوںکی بڑی تعداد کو فائدے کے بجائے نقصان ہو گیا تو محکمہ صحت کو مشکل صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد بیٹھی انتظار کر رہی ہے کہ ویکسین لگوائے یا نہ لگوائے۔ تیسری ڈوز لگوانے کی ضرورت سے ان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ ویکسین لگوانے سے گریز کرنے والوں میں سے ایک تہائی کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین نہ لگوانے کو ترجیح دیں گے۔ اس وقت بوسٹر ڈوز لگوانے والے آئندہ کسی بہتر موقع سے محروم بھی ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر ماڈرنا کی آدھی بوسٹر ڈوز لگوانے والوں سے متعلق ڈیٹا جلد سامنے آنے والا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئے ڈیٹا سے ہمیں ’’مکس اینڈ میچ بوسٹرز‘‘ کے فوائد کے بارے میں آگاہی ملے گی جس میں کسی فرد نے پہلی ڈوز کسی اور کمپنی کی لگوائی ہو گی اور اسے بوسٹر ڈوز کسی دوسری کمپنی کی لگائی جائے گی۔ ابتدائی طور پر برطانیا سے ملنے والے ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ اس حکمت عملی سے ہمیں زیادہ طاقتور بوسٹر مل سکتا ہے۔ اگر امریکا نے اس مرحلے پر جلد بازی کا مظاہرہ کیا تو بعد میں شاید ہمارے پاس کم ا?پشن رہ جائیں۔
لوگوں کی بڑی تعداد اپنے ڈاکٹرز سے مشورہ کرے گی کہ کیا انہیں بوسٹر ڈوز لینے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ہم ڈاکٹر اور مریض کے باہمی تعلق پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ عرصے سے یہ دیکھا گیا ہے کہ دونوں کی مشاورت سے ہونے والے فیصلے ہمیشہ بہتر نتائج کے حامل ہوتے ہیں مگر نئی گائیڈ لائنز محض پبلک ہیلتھ ایکسپرٹس کی طرف سے اپنی بے یقینی کو کام کے بوجھ تلے دبے ہیلتھ کیئر ورک فورس کی طرف منتقل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹرز کیسے یہ بات پسند کریں گے کہ وہ مریضوں کو ایسے مشورے دینا شروع کر دیں جن کے انتہائی اہم سوالات کے جواب ہی موجود نہیں، مثلاً بوسٹر ڈوز لینا محفوظ ہے یا نہیں؟ ایمرجنسی ہیلتھ پروفیشنلز کے طور پر ہم سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے ’’بوسٹرز کے معاملے میں آپ کیا کریں گے؟‘‘ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ ہمارے پاس کافی انفارمیشن موجود ہے جس کی مدد سے ہم اپنے اور اپنی فیملی کے بارے میں ہی کوئی بہتر فیصلہ کر سکیں۔ اگر ہم نے بوسٹر ڈوز کا اختیار افراد یا ان کے ڈاکٹرز کے ہاتھ میں دے دیا تو ویکسین کی ناقص تقسیم کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ کم آمدنی والے اور اقلیتیں ویکسین کی پہلی ڈوز لگوانے میں ہی مشکل محسوس کرتے ہیں‘ ان کے پاس تو پرائمری کیئر کے لیے بھی ڈاکٹر کی سہولت میسر نہیں۔ اس سے بھی ا?گے کی بات یہ ہو گی کہ امریکی شہریوں کو بوسٹر ڈوز لگانے کی صورت میں عالمی سطح پر ویکسین تک رسائی میں رکاوٹیں بڑھ جائیں گی۔ کووڈ کے پھیلائو، ہسپتالوں میں داخلے کے رش، اموات میں اضافے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کورونا وائرس کے پھیلائو کو کم سے کم لیول پر رکھے۔ اس مرحلے پر کامیابی کا انحصار بوسٹر ڈوز لگانے کے بجائے ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو فوری طور پر ویکسین لگانے پر ہو گا۔ قوم کے وسائل کو بوسٹر ڈوز لگانے کے بجائے پہلی مرتبہ ویکسین لگانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ کوشش تمام کامیابیوں پر سبقت لے جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر