وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کے مستقبل کا پہلا ٹکڑا

جمعرات 30 ستمبر 2021 کراچی کے مستقبل کا پہلا ٹکڑا

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے شہری ٹیکس، چندہ اور عطیات دینے میں پاکستان بھر میں سب سے آگے ہیں، شاید اسی لیے سندھ حکومت نے کراچی میں بجلی فراہمی کے ذمہ دار، ادارے ’’کے الیکٹرک‘‘ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے بجلی کے بلوں میں ’’کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ‘‘ یعنی ’’کے ایم سی‘‘ کے لیے ہر صارف سے کم از کم100 سے لے کر 200 روپے ماہ وار، اضافی ٹیکس وصول کرے تاکہ’’ کے ایم سی‘‘ کا بجٹ خسارہ پورا ہو، اور وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ سندھ کے دیگر شہری و دیہی علاقوں میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی طرز پر بلدیاتی ادارے سرے سے موجود نہیں ہیں یا سندھ حکومت انہیں خسارے سے نکالنا نہیں چاہتی۔ بلاشبہ وزیر اعلی سندھ ، اپنے صوبے کے ہر شہری و دیہی بلدیاتی ادارے میں فنڈز کی کمی پر بالکل ویسے ہی پریشان ہیں جو پریشانی انہیں ’’کے ایم سی‘‘ کے مستقبل کے متعلق لاحق ہے مگر چونکہ فی الحال انہیںسخاوت کے ساری خوبیاں فقط کراچی کے شہریوں میں ہی دکھائی دے رہی ہیں ، اس لیے بجلی کے بلوں میں’’ کے ایم سی ‘‘ کے لیے خصوصی ٹیکس صرف اور صرف کراچی کے عوام سے وصول کیا جائے گا۔ اب اس کے بعد بھی اگر کراچی کے لوگ یہ شکوہ کریں کہ سندھ حکومت، ان کی پروا نہیں کرتی یا ان کے بارے میں اچھے سیاسی خیالات نہیں رکھتی، تو یقینا اسے اہلیانِ کراچی کی کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے جس بھرپور انداز میں کراچی کے مسائل کو حل کرنا اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا ہوا ہے ،اُس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ وزیراعلی سندھ نے گزشتہ دنوں جب پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم ترین رہنما مرتضی وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے اہم ترین عہدے پر تعینات کیا تو ساتھ ہی مرتضی وہاب کو ’’ترجمان سندھ حکومت ‘‘اور ’’وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر قانون‘‘ کے اضافی عہد ے اپنے پاس رکھنے کی بارِ دگر توثیق بھی فرمادی ۔دراصل کراچی پاکستان کا سب سے بڑا گنجان آبادی والا شہر ہے ۔لہٰذا کراچی کے سیاسی ،سماجی اور انتظامی مسائل کو حل کرنے کے لیے اس شہر کے ایڈمنسٹریٹر کو کارکردگی دکھانے کے لیے بھرپور فوکس کی ضرورت ہوتی ہے اور شاید اسی لیے وزیراعلیٰ سندھ جناب سید مراد علی شاہ نے کراچی کے نئے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو ’’ترجمان سندھ حکومت ‘‘ اور ’’مشیر قانون‘‘کے عہدوں پر بدستور برقرار رکھا، تاکہ مرتضی وہاب بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی، زبردست توجہ اور فوکس کے ساتھ کراچی کے مسائل کو حل کرسکیں۔ ہمارا خیال ہے کہ نئے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے محکمہ ماحولیات سندھ کا قلم دان واپس لینے کا بھی بلاوجہ ہی تکلف کیا گیا ،اگر یہ عہدہ بھی مرتضی وہاب کے پاس رہنے دیا جاتا اور ساتھ ہی اُنہیں مزید دو ،چار اضافی محکموں کے قلم دان بھی تفویض کردیئے جاتے تو بلاشبہ مرتضی وہاب بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی کی ذمہ داریوں سے مزید لگن ،توجہ اور فوکس کے ساتھ عہدہ برآ ہوسکتے تھے۔
لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے ،کراچی کی بہتری اور ترقی میں جو کمی سندھ حکومت اور ایڈمنسٹریٹر کراچی کی جانب سے باقی رہ جائے گی ،اُسے وفاقی حکومت کے ’’ممکنہ کھاتے ‘‘ میں ڈال کر پورا کروالیا جائے گا۔جیسے کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ جس کا وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے رواں ہفتہ کراچی میں سنگ بنیاد رکھ کر افتتاح کیا ہے۔ اُصولی طور پر تو ،اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد کراچی میں ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے جیسے عظیم الشان منصوبے مکمل کرنا سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی تھی۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی صوبہ سندھ میں اپنے 12 سالہ طویل ترین دورِ اقتدار کے دوران کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے بارے اس قدر غور و فکر میں مصروف رہی کہ اسے عملی کام کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا ۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی کے وسائل گھٹتے گئے اور مسائل بڑھتے گئے ۔ اَب شہر کے بڑھتے ہوئے اِن مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو تو سامنا آنا تھا۔ بالآخر قرعہ فال پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے نام نکلا۔ ویسے بھی گزشتہ قومی انتخابات میں کراچی کا عوامی مینڈیٹ فقط پاکستان تحریک انصاف کو ہی ملا تھا۔ اس لیے اگر سندھ حکومت کراچی کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے تو اُن مسائل کو حل کرنا وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے۔
اچھی با ت یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبہ کے افتتاح کے موقع پر اشارے کنایوں میں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)منصوبہ کے تحت کراچی کی ساحلی پٹی(کوسٹ لائن) کی تعمیر کے لیے ایک بہت بڑے ترقیاتی منصوبے سے بھی پردہ اُٹھا دیا ہے۔واضح رہے کہ اس عظیم الشان منصوبے میں چین کی 3.5ارب ڈالر کی براہِ راست سرمایہ کاری شامل ہو گی۔وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی کے لیے اسے ایک گیم چینجرمنصوبہ قرار دیا جارہا ہے ۔سی پیک میں شامل اس بڑے منصوبے کے آغاز کابنیادی مقصد سمندری بندرگاہ کی نئی برتھ کیساتھ شہر کی سمندری پٹی کو ایک بڑے معاشی حب میں تبدیل کرنا ہے۔المیہ یہ ہے کہ کراچی وطن عزیز کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے اور اس کا سمندر اور ساحل بیک وقت پورے خطے کی تجارتی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز بھی لیکن حکومتی عدم توجہی کی بناء پر یہاں جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔ بلا شبہ کوسٹ لائن ایک زبردست منصوبہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس منصوبے کے تحت نہ صرف ماہی گیری کے لیے ایک نئی بندرگاہ تعمیر ہو گی بلکہ ایک بندرگاہ پل کے ذریعے مینوڑا جزائر اور سینڈز پٹ ساحل کے ساتھ جوڑنے سے کراچی اعلیٰ ترین بندرگاہ رکھنے والا دنیا کا واحد شہر بھی بن جائے گا، تا ہم اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے کچھ بنیادی نوعیت کے اہم ترین اُمور کا خیال بھی رکھنا ہوگا ۔ مثلاًاس منصوبہ کی جگہ پر رہنے والی 5لاکھ سے زائد آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرتے وقت انہیں مناسب معاوضوں کی منصفانہ ادائیگی کرنا ازحد ضروری ہے۔نیز اس منصوبے کو سیاسی و معاشی بدعنوانی کی نظر ہونے سے بھی بچانا ہوگا۔ چونکہ اس منصوبے کا سب سے اہم اور مثبت پہلو چین کی براہ راست سرمایہ کاری ہے،اس لیے امید کی جاسکتی ہے یہ منصوبہ 5 سال کی مقررہ مدت کے اندر ہی کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے گااور کراچی کوسٹ لائن اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کی کامیاب تکمیل سے نہ صرف پاکستان کی سمندری معیشت و تجارتی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سمندری ماحولیاتی نظام بہتر ہو جائے گا بلکہ کراچی بھی حقیقی معنوں میں میٹروپولیٹن شہر بن جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر