وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی میں غائب ، حیدرآباد میں حاضر

جمعه 17 ستمبر 2021 کراچی میں غائب ، حیدرآباد میں حاضر

ہمیشہ جمہوری اور پارلیمانی نظام میں انتخابات چاہے وہ کسی بھی نوعیت یا چھوٹے ،بڑے درجے کے ہوں، عوامی رائے کو جانچنے اور پرکھنے کا اہم ترین پیمانہ سمجھے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر اگر ضمنی یا بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک ایسے نازک وقت میں ہورہا ہو ،جب قومی انتخابات کی منزل صر ف سال یا ڈیڑھ سال کی دوری پر صاف دکھائی دے رہی ہو تو پھر انتخابات کے اختتام پر حاصل ہونے والے نتائج کی اہمیت اور بھی زیادہ دو چند ہوجاتی ہے۔ حالیہ دنوں ملک بھر میں کنٹونمنٹ اداروں میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ بظاہر کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج کو اگلے قومی انتخابات کی مکمل اور واضح ’’سیاسی تصویر ‘‘ تو نہیں کہا جاسکتالیکن بہرکیف ان انتخابات کے نتائج میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی ایک دھندلی سی جھلک تو ضرور دیکھی ہی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ کنٹونمنٹ اداروں کا حلقہ انتخاب انتہائی محدود سا اور ایک خاص قسم کے طبقہ پر مشتمل ہوتاہے۔ شاید اسی لیے بعض سیاسی تجزیہ کار کنٹونمنٹ اداروں میں ہونے والے انتخابات کو بلدیاتی انتخابات کا نقطہ آغاز بھی قرار دیتے ہیں اور سچ بھی یہ ہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی کنٹونمنٹ اداروں میں جماعتی یا غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے ہیں تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا غلغلہ بھی ضرور مچا ہے۔
اگر یہ ہی انتخابی تسلسل اس بار بھی برقرار رہتا ہے تو پھر یقینا چند ماہ بعد ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا میلہ سجنے کو پوری طرح سے تیار ہوگا۔ بادی النظر میں کنٹونمنٹ اداروں کے حالیہ نتائج میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو معمولی برتری حاصل رہی ۔لیکن یہ ہی برتری اُس وقت انتہائی غیر معمولی اور فیصلہ کن ہوجاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ انتخابات میں کثیر تعداد میں جیتنے والے آزاد اُمیدواروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہی ہے۔خاص طور پر صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب میں آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں آزاد اُمیدواروں کا ’’سیاسی مستقبل ‘‘ سب سے زیادہ روشن ہوگا۔ لیکن دوسری جانب صوبہ سندھ میں آزاد اُمیدوار اپنا خاطر خواہ رنگ جمانے میں کامیاب نہ ہوسکے اور سندھ کی کم و بیش تمام ہی سیاسی جماعتیں کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج پر اپنی اپنی گہری چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہیں۔
یا د رہے کہ سندھ میں کنٹونمنٹ بورڈ کے تمام 53 وارڈزکے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے 14،14 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ ایم کیو ایم 10، آزاد 7، جماعت اسلامی 5 اور (ن) لیگ کے3 امیدوار کامیاب ہوسکے۔کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں کراچی کے تمام 42 وارڈز میں پی ٹی آئی 14نشستیں حاصل کر کے پہلے اور پیپلز پارٹی 11 نشستیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہی جبکہ کراچی میں 6 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ رہی کہ بہت عرصہ بعد کراچی کنٹونمنٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی 5 نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی جبکہ حیران کن طور پر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن دونوں صرف 3،3 نشستیں ہی حاصل کرسکیں ۔ مسلم لیگ ن کا 3 نشستیں حاصل کرنا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن کراچی میں ایم کیوایم کا صرف 3 نشستوں تک ہی محدود ہوجانا قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ایسی نشانی کہی جاسکتی ہے۔جس کے بارے میں کبھی ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کا ووٹ بنک بڑی تیزی کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ’’سیاسی بنک ‘‘ میں جمع ہوتا جارہا ہے ۔
شاید یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی تیسرے نمبر پر رہی اور اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح فقط اچھی نہیں بلکہ بہت زیادہ اچھی کہی جاسکتی ہے۔ یعنی جماعت اسلامی نے کراچی میں ایم کیو ایم، ن لیگ اور مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ لیے۔ ہماری دانست میں کراچی میں جماعت اسلامی کے ووٹ بنک میں غیر متوقع اور غیرمعمولی اضافہ میں سب سے کلیدی کردار جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم کی جارحانہ عوامی سیاست کا ہے۔ کیونکہ کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف اہم مواقع پر حافظ نعیم نے جس طرح سے کراچی کے حقوق پر آواز اُٹھانے کی مقدور بھر سیاسی جدوجہد کی ہے۔ اُس سے کراچی میں حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے عوامی و سیاسی قد و کاٹھ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔مسئلہ صرف ایک ہے کہ حافظ نعیم کو اپنی مرکزی قیادت کی جانب سے وہ سیاسی تعاون اور مدد نہیں مل پاتی کہ جسے وہ بروئے کار لا کر کراچی کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی امارت حافظ نعیم یا پھر اس جیسے غیر معمولی سیاسی فہم و فراست رکھنے والے کسی نوجوان رہنما کے ہاتھ میں ہوتی تو یقینا کراچی میں ایم کیو ایم کے بعد پیدا ہونے والا خلا جماعت اسلامی باآسانی پُر کرسکتی تھی ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جو ایم کیوایم پاکستان، کراچی غائب ہوگئی وہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں اپنے پورے ’’سیاسی جوبن ‘‘ پر دکھائی دی ۔ حیدرآباد کنٹونمنٹ کے موصول ہونے والے غیر سرکاری انتخابی نتائج کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے 7 اور پیپلزپارٹی کے 3 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف اور (ن) لیگ کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کنٹونمنٹ انتخابات کی تاریخ میں ایم کیو ایم پاکستان کو حاصل ہونے والی اَب تک کی یہ سب سے بڑی اور غیر معمولی کامیابی ہے۔ ان نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اگلے متوقع بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان واپسی بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا تمام تر انحصار ایم کیو ایم قیادت کے سیاسی اور غیر سیاسی رویے پر ہوگا۔ جیسا کہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے کسی نہ کسی صورت اپنے آپ کو عوام سے جوڑ کر رکھا تو اُس کا انعام کنٹونمنٹ انتخابات میں تاریخ ساز جیت کی شکل میں حاصل کرلیا ۔ جبکہ اس کے برعکس ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی مقامی قیادت اپنی عوام کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکی ، تواس کا نتیجہ بدترین شکست کی صورت میں اُس کے سامنے آگیا۔ قصہ مختصر یہ ہوا کہ سندھ میں کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج زبان ِ حال سے پکار ،پکار کر کہہ رہے ہیں ابھی سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ’’انتخابی گیم ‘‘ پوری طرح سے آن ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو انتخابات کے اگلے مرحلہ ، یعنی بلدیاتی انتخابات میں’’انتخابی نتائج‘‘ کا منظرنامہ بدل بھی سکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر