وجود

... loading ...

وجود

نائن الیون: دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا کو بہت مہنگی پڑی

هفته 11 ستمبر 2021 نائن الیون: دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا کو بہت مہنگی پڑی

بیس سال قبل امریکا میں ورلڈ ٹریڈ ٹاؤر پر ایک پراسرار حملے کی حقیقت پر بحث آج بھی جاری ہے۔ امریکا نے اس اپراسرار حملے کے بعد ”دہشت گردی“کے خلاف نام نہاد جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ کے نتائج سے ساری دنیا طویل عرصے تک نمٹنے کی جدوجہد کرتی رہے گی۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق نیویارک کے گراونڈ زیرو پر ایک نئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز کھڑے کیے جا رہے ہیں ساتھ ہی ان حملوں کے ان تین ہزار متاثرین کی یادگار بھی تعمیر کی جا رہی ہے جنہوں نے امریکا سمیت تمام دنیا کے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان صدمات سے گزرنے والا شہر نیویارک کافی حد تک سنبھل گیا اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا بھی ہوگیا اور کورونا کی وبا تک اس شہر کی معیشت خوب پھل پھول رہی تھی۔ تاہم امریکا سے لے کر مشرق وسطی کے وسیع تر حصے اور ہندو کش کی ریاست افغانستان تک کچھ بھی پہلے جیسا باقی نہیں رہا۔حال ہی میں کابل کے ہوائی اڈے پر امریکی فوج کی انخلاء کی کارروائی کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں قریب 170 افغان باشندے اور ایک درجن سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری، ایک بار پھر اسلامی گروپوں کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے روایتی مگر مشکوک طریقے سے داعش نے قبول کی یا قبول کرادی گئی۔

امریکی انخلاء سے قبل ڈرون حملہ جس میں داعش کو نشانا بنانے کادعویٰ کیا گیا مگر ہلاک شخص امریکی این جی اوز کا ہی ملازم نکلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامک اسٹیٹ یا داعش کا 20 سال قبل کوئی وجود ہی نہیں تھا۔جرمن شہر ہیمبرگ سے تعلق رکھنے والے ایک مورخ بیرنڈ گرائنر کے مطابق ”ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آئی ایس کا عروج 2003 میں صدام حسین کی حکومت گرنے کا براہ راست نتیجہ تھا۔ جرمن تاریخ دان نے مزید وضاحت کی کہ داعش کے جنگجوں کی پہلی نسل کا ایک بڑا حصہ صدام حسین کی پرانی فوج سے تعلق رکھتا تھا۔ ” صدام کی فوج کو امریکا نے فورا سے پیشتر ختم کر دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں نوجوان بغیر کسی مستقبل اور روزگار کے امکانات کے سڑکوں پر کھڑے تھے۔ جرمن ماہر کےبقول یہ صورتحال انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے رجحان کے لیے کھاد کی حیثیت رکتی ہے۔


ورلڈ ٹریڈ سینٹر معاشی قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پراسرار حملون کا نشانا پینٹا گون بھی تھا۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں نے عوامی جذبات بھڑکا دیے اور امریکی قوم صدمے کا شکار ہو گئی۔ ان حملوں میں مسافر طیاروں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد امریکا میں بغیر شواہد کے یہ دعوی کردیا گیا کہ تمام دہشت گردانہ کارروائیاں افغانستان کے ایک خیمے میں بیٹھے ایک سعودی باشندے’اسامہ بن لادن‘ کے اشاروں پر ہو رہی تھیں۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت کے لیے یہ بے مثال خجالت اور تذلیل تھی۔ وہ ملک جو سرد جنگ کے درجنوں سالوں بعد اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد شاید اپنی طاقت کے عروج پر تھا، جو خود کو بہت مضبوط، ناقابل تسخیر تصور کرتا تھا۔ امریکا نے مایوسی اور دکھ کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا اور تمام عالمی برادری کی ہمدردی سمیٹ لی جس نے بھرپور غصے کا مظاہرہ اور بدلہ لینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ہمارے وقار پر اب سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ امریکا نے افغانستان میں تو کوئی کامیابی نہیں سمیٹی لیکن پاکستان میں ایک ”پراسرار“حملے اور کارروائی سے اپنی جنگ میں واضح شکست کی خجالت کا سامان کچھ کم کیا۔

ایبٹ آباد کا وہ کمپاؤنڈ جہاں اسامہ بن لاد ن کو نشانا بنانے کا دعویٰ کیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکا نے ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے یہ دعویٰ کیا کہ یہاں اسامہ بن لادن کو ہد ف بنایا گیا۔ اس سے قبل افغانستان میں کارروائی سے قبل جس طرح نوگیارہ کے حملوں کے”ذمہ داران“کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا۔امریکا نے اپنی بے پناہ طاقت سے صرف اس دعوے کو کافی سمجھا کہ اس کے پیچھے اسامہ بن لادن ہے۔ آج نو گیارہ کے بیس سال بعد بھی اس دعوے کے حق میں کوئی قابل اعتبار ثبوت سامنے نہیں آسکا۔ ٹھیک اسی طرح ایبٹ آباد کارروائی کے اب بھی بہت سے گوشے نظروں سے اوجھل ہیں۔ آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس کارروائی میں اسامہ بن لادن کو نشانا بنایا گیا تھا یا نہیں؟ کیونکہ اس کارروائی سے کئی سال پیشتر سے اسامہ بن لادن کی زندگی کے کوئی آثار کہیں سے نہیں مل رہے تھے۔ اس کارروائی میں نشانہ بننے والے اسامہ بن لادن کے خاندان کے دیگر افراد کے متعلق آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں۔ اس حوالے سے متبادل ذرائع سے معلومات کے تمام دروازے ایک بندوبست کے ذریعے مقفل کردیے گئے۔ تاہم اس کارروائی کو پہلی بار مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی تاریخ میں مشترکہ مقدمہ قرار دیا گیا اور اس فوجی کارروائی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس اتحاد نے اپنے مشترکہ دفاع کے طور پر جائز قرار دیا۔نوگیارہ کے چند ہفتوں کے اندر افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
2003 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر حملہ کر دیا۔ تب تو اس کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں رہا تھا۔

صدام حسین کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے کسی قسم کے روابط اور آمر عراقی حکمران کی طرف سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سازی کے دعوے فسق اور جھوٹے تھے۔امریکا کے بہت سے سیاستدانوں نے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعات کے بعد یہ سوچا کہ ان کے پاس یہ ایک موقع ہے پوری دنیا کے سامنے اپنی قوت کے مظاہرے کا، یہ ظاہر کرنے کا کہ امریکی ایک ‘ ناگزیر قوم ہے۔ ایک امریکی مرخ اسٹیفن ویرتھ ہائم نے ان خیالات کا اظہارکچھ اس طرح کیا ”امریکا کو ایک ناگزیر قوم کی حیثیت سے منوانے کے لیے امریکی سیاستدانوں نے ایک پورے ملک اور خطے کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کی کوش کی“۔جرمن مورخ بیرنڈ گرائنردہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا پیرایہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:”امریکا دنیا، خاص طور سے عرب دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ کوئی بھی جو مستقبل میں اس سے الجھے گا، وہ اپنی بقا کو داؤپر لگائے گا“۔ جرمن مورخ کے مطابق ”دراصل افغانستان اور عراق دونوں میں امریکی کارروائی علامتی حیثیت رکھتی ہے۔سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی اعلان کردہ ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ“کبھی نا ختم ہونے والی نام نہاد جنگ بن کر رہ گئی۔ ایک ایسی جنگ جس کی نہ وقتی نہ ہی جغرافیائی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ یہ بس عالمی سطح پر لڑی جا رہی تھی۔ برلن میں قائم ایک تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے منسلک ایک ماہر ژوہانس تھم کے بقول، ”دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریبا 9 لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ تمام افراد براہ راست جنگ میں مارے گئے۔ ان میں سے قریب چار لاکھ عام شہری تھے۔مذکورہ جنگ پر آنے والی لاگت یا تخمینے کے مطابق ‘ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں صرف امریکا کو اربوں ڈالر کی ناقابل تصور قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ماہر بیرنڈ گرائنر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”پوری دنیا پر اس کے اثرات سے قطع نظر امریکا کو عراق اور افغانستان میں اس ہیجانی جنگ سے بہت بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


متعلقہ خبریں


طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول...

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  یہ ٹیسٹ رن کر رہے ہیں، دیکھنے کے لیے کہ لوگوں کا کیا ردعمل آتا ہے ، کیونکہ یہ سوچتے ہیں اگر لوگوں کا ردعمل نہیں آتا، اگر قابل انتظام ردعمل ہے ، تو سچ مچ عمران خان کو کچھ نہ کر دیں عمران خان ایک 8×10 کے سیل میں ہیں، اسی میں ٹوائلٹ بھی ہوتا ہے ،گھر سے کوئی کھانے کی چیز...

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان وجود - اتوار 30 نومبر 2025

سہیل آفریدی کی زیر صدارت پارٹی ورکرزاجلاس میں بھرپور احتجاج کا فیصلہ منگل کے دن ہر ضلع، گاؤں ، یونین کونسل سے وکررز کو اڈیالہ جیل پہنچنے کی ہدایت پاکستان تحریک انصاف نے اگلے ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان کر دیا، احتجاج میں آگے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائے گا۔وزیر ...

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

جب 28ویں ترمیم سامنے آئے گی تو دیکھیں گے، ابھی اس پر کیا ردعمل دیں گورنر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم اور صدر کا ہے ، ان کے علاوہ کسی کا کردار نہیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں۔سیہون میں میڈیا سے گفتگو میں مراد ...

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ

پاکستان میں فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

دنیا بھر میںایئربس اے 320طیاروں میں سافٹ ویئر کے مسئلے سے ہزاروں طیارے گراؤنڈ پی آئی اے کے کسی بھی جہاز میں مذکورہ سافٹ ویئر ورژن لوڈڈ نہیں ، طیارے محفوظ ہیں ،ترجمان ایئر بس A320 طیاروں کے سافٹ ویئر کا مسئلہ سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ پاکستان میں بھی فلائٹ آپریشن متاثر ہو سک...

پاکستان میں فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ

عمران خان سے ملاقات کی درخواستوں پر سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

37روز سے کسی کی ملاقات نہیں کرائی جارہی، بہن علیمہ خانم کو ملاقات کی اجازت کا حکم دیا جائے سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا جائے کہ سلمان اکرم راجہ،فیصل ملک سے ملاقات کی اجازت دی جائے ، وکیل بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے جیل میں ملاقات سے متعلق درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد ف...

عمران خان سے ملاقات کی درخواستوں پر سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ

تحریک انصاف کا سینیٹ میں شدید احتجاج، عمران خان سے ملاقات کرواؤ کے نعرے وجود - هفته 29 نومبر 2025

پاکستان تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کر انے وانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ''بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروائو '' کے نعرے لگا ئے جبکہ حکومت نے واضح کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی صحت سے متعلق چلنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ جمعہ کو سی...

تحریک انصاف کا سینیٹ میں شدید احتجاج، عمران خان سے ملاقات کرواؤ کے نعرے

اڈیالہ جیل کے باہر منگل کو احتجاج میں کارکنان کو کال دینے پر غور وجود - هفته 29 نومبر 2025

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے اڈیالہ جیل فیکٹری ناکے پر جاری دھرنا جمعہ کی صبح ختم کر دیا ۔ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ علامہ ناصر عباس کے آنے کے بعد ہونے والی مشاورت میں کیا گیا، علامہ ناصر عباس، محمود اچکزئی، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی، مینا خان، شاہد خٹک اور مشال یوسفزئی مشاو...

اڈیالہ جیل کے باہر منگل کو احتجاج میں کارکنان کو کال دینے پر غور

امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ دار افغان حکومت ہے ،پاکستان وجود - هفته 29 نومبر 2025

  واشنگٹن واقعہ عالمی سطح پر دہشت گردی کی واپسی کو ظاہر کرتا ہے عالمی برادری افغان دہشت گردی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے ،تین چین باشندوں کی ہلاکت کی ذمہ داری افغانستان پر عائد ہوتی ہے راج ناتھ کا بیان سرحدوں کے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ، بھارتی بیانات خام خیا...

امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ دار افغان حکومت ہے ،پاکستان

علیمہ خانم کا محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو خط وجود - هفته 29 نومبر 2025

4 نومبر سے اہل خانہ کی ملاقات نہیں ہوئی،عمران خان کی صحت پر تشویش ہے، علیمہ خانم عمران خان کی صحت پر تشویش کے حوالے سے علیمہ خان نے صوبائی محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو خط لکھ دیا۔میڈیارپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ اور آئی...

علیمہ خانم کا محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو خط

عمران خان کی رہائی تک ہر منگل کو اسلام آباد میں احتجاج کا فیصلہ وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

  ہر منگل کو ارکان اسمبلی کو ایوان سے باہر ہونا چاہیے ، ہر وہ رکن اسمبلی جس کو عمران خان کا ٹکٹ ملا ہے وہ منگل کو اسلام آباد پہنچیں اور جو نہیں پہنچے گا اسے ملامت کریں گے ، اس بار انہیں گولیاں چلانے نہیں دیں گے کچھ طاقت ور عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ رہے ہیں، طاقت ور لوگ ...

عمران خان کی رہائی تک ہر منگل کو اسلام آباد میں احتجاج کا فیصلہ

190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

  اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، سیشن جج سے متعل...

190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

مضامین
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ وجود پیر 01 دسمبر 2025
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ

بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد وجود پیر 01 دسمبر 2025
بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد

کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے! وجود اتوار 30 نومبر 2025
کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے!

مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ وجود اتوار 30 نومبر 2025
مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ

بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن وجود اتوار 30 نومبر 2025
بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر