وجود

... loading ...

وجود
وجود

جنگ کامیدان بدل گیا

جمعرات 09 ستمبر 2021 جنگ کامیدان بدل گیا

تاریخ بتاتی ہے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعدجب یورپی فوجیںشام کے تاریخی شہر دمشق میں داخل ہوئیںتوجنرل ہنری گوروڈ خصوصی طورپر عظیم مسلم سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزار پرگیا اور بڑے تکبر سے قبرکو زوردار ٹھوکر مارکر چیختے ہوئے دھاڑاWe are here again۔۔ انگریز جتنی نفرت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور ٹیپو سلطان سے کرتے ہیں شاید دنیا میںکسی اورسے نہیں کرتے ہوں ۔اس کااظہار اکثروبیشتر ہوتارہتاہے ان دونوں سلطانوںنے بھرپور عسکری وسائل کے باوجود انگریزوں کا سب غرور خاک میں ملا دیا تھا ۔مسلم خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی سامراج اور مغربی استعمارنے صلیبی جنگوں کی عبرت ناک شکستوںکا بدلہ لینے کے لیے گٹھ جوڑکرلیا اور عیسائیت کے بدترین دشمن یہودیوں اپنا ابدی دوست بنا کرعالمِ اسلام کے خلاف جن سازشوں، ریشہ دوانیوںکا سلسلہ شروع کیا تھا وہ تسلسل سے آج بھی جاری ہے اس کا خاص ہدف پاکستان ہے جس کی بہادر افواج سے ہندو، یہودی اور عیسائی اب بھی خوفزدہ رہتے ہیںہیں۔ جب عیسائیوںنے اسپین پر دوبارہ قبضہ کیا تومسلمانوںپر زندگی تنگ ہوگئی اسلام کے نام لینے والوںکے خون کی ندیاں بہادی گئیںمسلمانوںکی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے عیسائی فتلِ عام سے تھک گئے اس وقت کے صلیبی بادشاہ فرنڈینینڈنے اعلان کیا کہ اسپین میں مسلمانوںکی جان و مال محفوظ نہیں اس لیے انہیں سمندرپار آبادکیا جائے گاجو مسلمان وہاں جانا چاہیں تیارہو جائیں سینکڑوں مسلمان اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ بحری جہاز میں سوار ہوگئے سمندر کے درمیان جاکر صلیبی بادشاہ فرنڈینینڈکے گماشتوںنے بحری جہاز میں بارودکو آگ لگادی اور خود لائف بوٹوں(حفاظتی کشتیوں)سے باحفاظت کنارے پر پہنچ گئے۔ بارودکو آگ لگی تو پورا جہاز غرق ہوگیاتوانہوںنے چلا چلاکر کہا صلیب کے محافظ جنگ ایسے بھی لڑ سکتے ہیں اور یہ جنگ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور ہم مسلمان کسی نہ کسی اندازمیں کبھی اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں اور کبھی یہود ونصاری کے ہاتھوںکی کٹھ پتلیاں بن کر ان کے اشاروںپرناچنا فخر سمجھتے ہیں غورکیا جائے تو محسوس ہوگا اب صلیبی جنگ امریکہ ،برطانیہ اور دیگرعیسائی ممالک میں نہیں عالم ِ اسلام کے بڑے بڑے مراکز عراق، کشمیر، شام ، فلسطین،افعانستان،پاکستان کے اندر لڑی جارہی ہے اورکئی مسلم ممالک اس کی زدمیں آنے والے ہیں۔ بیشترمسلم ممالک میں سیاسی بے چینی، معاشی عدم استحکام،دھماکے، خودکش حملے، انتہا پسندی،اشرافیہ کا ا نتہائی طا قتور نیٹ ورک اور حکمرانوںکی ہر قیمت پر اقتدار میں رہنے کی خواہش نے انہیں اغیارکا دست ِ نگربناکررکھ دیاہے۔پاکستان میں تو اربوں ڈالر قرضے لینے کے باوجودعوام کی حالت بہترہوئی نہ ملک اقتصادی طورپر مضبوط بلکہ ملکی معیشت کی حالت دن بہ دن پتلی ہوتی جارہی ہے عراق،فلسطین، لیبیا،شام،افغانستان اور دیگرکئی مسلمان ملک اب اتنے کمزورکردئیے گئے ہیں کہ اپنا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں رہے حتیٰ کہ مسلمانوںکا مرکزو محور سعودی عرب بھی اپنی حفاظت کے لیے دوسروںکا محتاج ہے لیکن مسلمان حکمران خواب ِ غفلت میں اتنے مدہوش ہیں کہ انہیں مستقبل کی کوئی فکرہے نہ عوام کی خبر۔ تاریخ بتاتی ہے کہ644ء میں امیرالمومنین سیدنا عمر ِ فاروقؓ کی حکومت تھی اس وقت عالمی طاقتیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت سے خوفزدہ تھیں ان دنوںقصرِروم نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد مدینہ شریف بھیجاوہاں پہنچ کر انہوںنے پوچھا آپ کے شہنشاہ ِ معظم کا محل کہاں ہے؟۔۔مدنی ریاست کے شہری شہنشاہ ۔۔معظم اور محل جیسے الفاظ سے جیسے نا آشنا تھے۔ایک صحابیؓ نے کہا آپ نے کس سے ملناہے؟۔مسلمانوںکے بادشاہ سے نووارد نے جواب دیا
’’مسلمانوںکا کوئی بادشاہ نہیں ہوتا۔۔انہوںنے جواباً کہا ہمارے خلیفہ عمر ِ ؓفاروق ہیں جن کے پاس ریاست کے تمام انتظامی امورہیں وہ مشاورت سے فیصلہ کرتے ہیں۔۔وہ محل میں نہیں رہتے ان کا توچھوٹا سا مکان ہے ‘‘
’’ہم نے انہیں سے ملناہے رومی وفدنے کہا
’’آپ انہیں مسجد نبوی ﷺ دیکھ لیں یا پھر وہ کہیںکسی درخت کے نیچے آرام کررہے ہوں گے
’’مسلمانوں کا خلیفہ کسی درخت کے نیچے آرام۔رومی وفد پر حیرت اورتجسس غالب آگیا۔وہ آپؓ کی تلاش میں چل پڑے کچھ ہی دور دیکھاعمر ِ ؓفاروق ایک درخت کے سائے میں سرکے نیچے اینٹ رکھ کر بے خوف و خطر سورہے ہیں۔۔ یہ عمر ِ ؓفاروق ہیں جن کی ہیبت سے دنیا کے بڑے بڑے فرمانروائوںکی نیندیں حرام ہوچکی ہیںوہ خوف زدہ ہوگئے جن کو کوئی خوف ہے نہ اپنی جان کی کوئی پرواہ۔ ان سے جنگ کبھی نہیں جیتی جا سکتی۔۔رومی وفدنے کہا اے عمرؓ لگتاہے تم انصاف پرورہو اسی لیے تمہیں گرم ریت پز بھی نیند آجاتی ہے ہمارے بادشاہ ظالم اوربددیانت ہیں جن کو بڑے بڑے محل اور درجنوں پہرے داروں کے حصارمیں بھی نیندنہیں آتی۔پوری دنیا میںشاید سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوںکاہے جن کی آمدورفت کے موقع پر گھنٹوں ٹریفک جام رکھنا عام سی بات ہے اس دوران ایمبو لینسوںمیںمریضوںکی موت واقع ہو جائے،طالبعلم کو تعلیمی داروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو حکمرانوںکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔۔اور تو اور ہمارے عام پاکستانی سیاستدان صدر ِپاکستان یاگورنر بننے کے بعدپروٹوکول کے محتاج ہوکررہ جاتے ہیں سچ ہے نمک کی کان میں جانے والا نمک بن جاتاہے آج اسلام دشمن طاقتوںنے مسلمانوںپر غیر اعلانیہ صلیبی جنگ مسلط کررکھی ہے ہمیں اس کا مطلق احساس تک نہیں لمحہ ٔ فکریہ ۔۔یہ ہے کہ ہم مسلمان کسی نہ کسی اندازمیں کبھی اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں اور کبھی یہود ونصاری کے ہاتھوںکی کٹھ پتلیاں بن کر ان کے اشاروںپرناچنا فخر سمجھتے ہیں غورکیا جائے تو محسوس ہوگا اب صلیبی جنگ امریکہ ،برطانیہ اور دیگرعیسائی ممالک میں نہیں عالم ِ اسلام کے بڑے مراکز عراق، کشمیر، شام ، فلسطین،افعانستان،پاکستان کے اندر لڑی جارہی ہے اورکئی مسلم ممالک اس کی زدمیں آنے والے ہیںاور ہم مسلمانوںکو ذرا ہوش نہیں ہے اس وقت دنیا کے بیشترمسلم ممالک میں مختلف حیلوں بہانوںسے مسلمانوںکا خون بہایا جارہاہے کہیں دہشت گردی کی آگ پھیلی ہوئی ہے ۔۔کہیںفرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں کہیں جمہوریت۔۔کہیں خلافت اور کہیں اسلام کے نام پراپنے ہم مذہب بھائیوںکامعاشی استحصال ہورہاہے یاان کے حقوق غصب کیے
جاتے ہیں خودکش حملے، بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ایک الگ مسائل ہیں جنہوںنے پوری مسلم امہ کا جینا حرام کررکھاہے عرب ممالک کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازاہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کے لیے خرچ ہونی چاہیے ۔عوام کی حالت بہتربنانے پر صرف کی جانی چاہیے۔۔غربت کے خاتمہ کے لیے منصوبہ بندی کے لیے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کے لیے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے اگرایسا نہیں ہورہا تویہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا شکری ہے اور اللہ ناشکری کرنے والوںکو پسند نہیں کرتا۔۔لوگ غربت کی وجہ سے ناپسندیدہ سرگرمیوںمیں ملوث ہو جاتے ہیں ملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔۔ دانستہ یا دیدہ دانستہ اپنے مسلمان بھائیوںکی تباہی وبربادی میں حصہ ڈال رہے ہیں یہ طرز ِ عمل۔۔ایسی سوچ اور فکرنے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، سماجی انصاف نہ ہونے اور میرٹ کا قتل ِ عام ہونے کے باعث لوگ مختلف گروہوں، غیرممالک اور تنظیموں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں ہمارے دل و دماغ میں ایک جنگ لڑی جارہی ہے ۔ اپنی ذات کی داخلی اور خارجی کیفیت پر ہی موقوف نہیں ضمیر بھی مفادات کی مرہون ِ منت ہوجاتاہے توانسان کے نظریات بدل جاتے ہیں اگر کوئی مسلمان کسی کے آلہ ٔ کار بنا ہواہے تو یہ جنگ ۔صلیبی جنگ بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ جنگیں اب میدانوں میں نہیں ذہنی سوچ تبدیل کرنے سے لڑی جارہی ہیں جس سے فکری زاویے کا رخ بدل جانے سے نظریہ اپنی موت آپ مر جاتاہے ہمارے ارد گرد ایسی کتنی ہی نظریاتی لاشیں بے گورو کفن پڑی ہوئی ہیں لالچ، جھوٹ، مکرکی پٹی آنکھوں پر پڑ جائے تو اپنے ہاتھوں اپنے گھرکو آگ لگاکر تماشہ دیکھنا بھی برا نہیں لگتا صلیبی جنگ کے تھنگ ٹینک بھی یہی چاہتے ہیں اور ہم آنکھیں بند کرکے ان کے ایجنڈے پر عمل پیراہیں کیا اب بھی غور کرنا لازم نہیں ہے کہ صلیبی جنگ امریکہ ،برطانیہ اور دیگرعیسائی ممالک میں نہیں عراق، کشمیر، شام ، فلسطین،افعانستان،پاکستان کے اندر لڑی جارہی ہے اورکئی مسلم ممالک اس کی زدمیں آنے والے ہیں۔ بیشترمسلم ممالک میں سیاسی بے چینی، معاشی عدم استحکام،دھماکے، خودکش حملے، انتہا پسندی،اشرافیہ کا ا نتہائی طا قتور نیٹ ورک اور حکمرانوںکی ہر قیمت پر اقتدار میں رہنے کی خواہش بھی اسی کڑی کا تسلسل ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر