وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں مسلم دشمن کارروائیوں پر پولیس کا تساہل

جمعرات 09 ستمبر 2021 بھارت میں مسلم دشمن کارروائیوں پر پولیس کا تساہل

(مہمان کالم)

پروفیسر اپورو آنند

دو ہفتے قبل‘ جنترمنتر کے موقع پر نفرت پر مبنی نعرے لگانے اور مسلمانوں کو قتلِ عام کی دھمکی دینے کے الزام میں دہلی پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کو دہلی پولیس کی ایک مثالی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا۔ کئی لوگ خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے اور صحیح کام انجام دینے پر پولیس کی ستائش کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک پولیس کی مداخلت سے متعلق اپنی توقعات ہیں‘ وہ بہت کم ہیں اور خاص طور پر دہلی پولیس کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا کسی بھی طرح غلط نہ ہوگا کہ پولیس نے ملزمین کے ناموں کے اعلان کرنے اور ان کے خلاف کارروائی میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کی کیونکہ ملزمان حکمران جماعت بی جے پی کے نظریات کے ماننے والے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پولیس گرفتاریوں سے قبل اپنی جبلت سے لڑ رہی تھی کیونکہ دہلی پولیس کے بارے میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ وہ سنگین جرم کے مرتکب ملزمان کا پس منظر بھی دیکھتی ہے‘ اگر ان کا تعلق حکمران جماعت کے نظریات ماننے والوں سے ہو‘ تو پھر انہیں نظرانداز کردیتی ہے۔ ویسے بھی دہلی پولیس اس قدر قابل اور قانون کی پاسداری کرنے والی ہے کہ وہ دہلی فسادات کے دوران ایک مسلم شخص پر حملہ کرنے اور اس کی آنکھ میں گولی مارے جانے کے واقعہ کے ضمن میں ایف آئی آر درج کرنے سے اب تک گریز کررہی ہے، حالانکہ دہلی ہائیکورٹ نے پولیس کو اس کیس میں ایف آئی آر درج کرنے کا واضح حکم دیا ہوا ہے۔ پولیس اعلیٰ عدالت کا حکم ماننے کے بجائے پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے اور دہلی پولیس کا حال یہ ہے کہ وہ اب تک ملزمان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ وہ گزشتہ سال جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)میں توڑ پھوڑ کرنے والے عناصر کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے بھی قاصر رہی ہے۔ فسادیوں نے جے این یو پر حملہ کرتے ہوئے کئی طلبہ اور اساتذہ کو زخمی کردیا تھا۔ ان حملوں میں ملوث چہرے جانے پہچانے ہیں، وہ اب بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں لیکن دہلی پولیس یہ ضروری نہیں سمجھتی کہ انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ دہلی پولیس نے اس بی جے پی لیڈر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے بھی انکار کردیا تھا جس نے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کی موجودگی میں عوام پر تشدد کی دھمکی دی تھی جبکہ زیادہ تر لوگ مسلم شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی ہائیکورٹ نے اس بی جے پی لیڈر کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے دہلی پولیس کو حکم دیا تھا۔ دہلی پولیس کی خوبی یہ ہے کہ وہ جے این یو سے نجیب احمد نامی ایک طالب علم کے لاپتا ہونے کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کی ضرورت کو بھی اہم نہیں سمجھتی اور نہ ہی اس کی نظر میں یہ معاملہ کوئی سنگین معاملہ ہے۔ چار سال ہوچکے ہیں اور نجیب کا اتا پتا لگانے میں پولیس بْری طرح ناکام رہی ہے اور اس نے اس معاملے کو داخلِ دفتر کررکھا ہے۔
گزشتہ سال چند بی جے پی قائدین‘ بشمول ارکانِ پارلیمنٹ اور مرکزی وزرا‘ نے انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کیں، نعرے لگائے لیکن دہلی پولیس نے اس پر کارروائی کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ شمال مشرقی دہلی میں زبردست خون ریزی ہوئی اور اس میں کم از کم 23 قیمتی جانوں کا اتلاف ہوا۔ مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان فسادات میں 14 مساجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ بے شمار مکانات، دکانیں اور تجارتی اداروں کو نذرِآتش کر دیا گیا اور لوٹ لیا گیا۔ یہ مکانات اور دکانیں‘ سب مسلمانوں کے تھے۔ مسلمانوں نے برسرِعام دہلی پولیس کی جانبداری اور تعصب کے بارے میں شکایت بھی کی۔ دہلی پولیس کے ریکارڈ کا جہاں تک تعلق ہے، شہریوں کو ہمیشہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود شہریوں نے قانونی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
میں خاص طور پر مسلمانوں کے بارے میں سوال کررہا ہوں۔ نوجوان تعلیم یافتہ مسلمان اب نفرت پر مبنی تقاریر اور جرائم کا مکمل ریکارڈ مرتب کر رہے ہیں اور اس طرح کے واقعات کی پولیس میں رپورٹ درج کرانے پر بھی زور دے رہے ہیں۔ یہ واقعات چھوٹے ہوں یا بڑے‘ مسلم نوجوان ان واقعات کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں جس کا مقصد عوام کو چوکس کرنا ہے۔ حال ہی میں مسلم خواتین کی آن لائن بولی لگائی گئی اور فحش باتیں اْن سے متعلق پھیلائی گئیں۔ بے شمار مسلم خواتین مختلف سائٹس پر اپنی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ انہیں نشانہ بنائے جانے کا اچانک پتا چلا لیکن اْن مسلم خواتین نے ہار ماننے یا پریشان ہونے کے بجائے پولیس سے رجوع ہوکر ملزموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ پولیس سے شکایت کا نتیجہ برآمد نہیں ہوا لیکن ان مسلم خواتین نے بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کو آن لائن ایکشن کے بارے میں نہ صرف بتایا بلکہ ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی طرح این سی آر یعنی قومی دارالحکومت کے علاقہ اور ہریانہ میں ایسے اجلاس منعقد ہوئے جن میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی، مسلم نوجوان بشمول صحافی حرکت میں آئے اور فرقہ پرستوں کی اشتعال انگیز اور بکواس کے خلاف شکایت درج کرائی۔ ان لوگوں نے پولیس اور سیاسی جماعتوں کو اس تعلق کو بے نقاب بھی کیا۔ ان قابل مسلم نوجوانوں نے فرقہ پرستوں کی جانب سے کھیلے جانے والے نفرت کے کھیل سے تمام کو روشناس کرایا تاکہ لوگوں کو اس بارے میں علم و اطلاع ہو کہ بھارت میں نفرت کے سوداگر کون ہیں۔ اس مرتبہ 8 اگست کو جنترمنتر کے موقع پر مسلمانوں کے خلاف بکواس کرنے والے اجتماع سے پہلے ہی دہلی کے دوارکا علاقے میں ایک نہیں‘ کئی اجلاس منعقد ہوئے جن میں وہاں نئے حاجی کیمپ کی تعمیر کی شدت سے مخالفت کی گئی۔ دوارکا میں مسلم دشمن عناصر کو متحرک کرنے سے پہلے دہلی کے ہی اتم نگر میں مسلم میوہ فروشوں کیخلاف مہم چلائی گئی۔ ان مسلم صحافیوں اورتعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں نے اس واقعے سے بھی عوام کو واقف کرایا۔
ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلمانوں کے یہ گروہ پوری طرح متحرک نہ ہوتے تو جنترمنتر میں نسلی منافرت پھیلانے والے گرفتار نہ کیے جاتے لیکن نوجوان مسلمانوں نے جنترمنتر پر دی جانے والی دھمکیوں اور وہاں کی جانے والی اپنی توہین کو قبول کرنے سے انکار کردیا، ان لوگوں نے ببانگ دہل کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا، انہیں قتل کرنے کی دھمکی دینا مجرمانہ فعل ہے اور یہ کارروائیاں اپنے ا?پ میں تشدد ہیں، ان سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے، ان کے احساس وقار اور حرمت ان سے مجروح ہوتے ہیں اور اس طرح کے واقعات سے ایسی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں جہاں مسلمانوں کو جسمانی طور پر زدوکوب کیا جائے یا ذبح کر دیا جائے‘ جیسا کہ جنترمنتر کے نعروں میں مطالبہ کیا گیا تھا۔کیا یہ درست نہیں کہ گزشتہ سال ایک مرکزی وزیر نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ’’غداروں‘‘ کو گولی مارنے کا مشورہ دیا تھا؟ اس کے بعد کیا ہوا ؟دہلی میں 53 افراد مارے گئے، تشدد برپا کیا گیا اور جب بھی نفرت پر مبنی مہم چلائی جاتی ہے تو لوگوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس صورتحال کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی یہی چاہتی ہے کہ تشددکا خاتمہ ہوجائے مگر اس کے لیے ملزمان پر کڑا ہاتھ ڈالنا لازمی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر