وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان اور ایران

جمعرات 26 اگست 2021 طالبان اور ایران

 

نو،دس محرم پر افغانستان میں طالبان کی جانب سے مذہبی روداری کے جو مناظر دیکھنے میں آئے ۔وہ یقینا بہت سے افراد کے لیے لائق تحسین ہی نہیں بلکہ حیران کن بھی ضرور ہوں گے۔خاص طور پر پاکستا ن میں بسنے والا،وہ اقلیتی لبرل طبقہ جس کا یہ عام خیال تھا کہ طالبان مسلکی اور فقہی معاملات میں انتہائی پرتشدد ہیں ، کم ازکم حالیہ ایامِ محرم میں کابل کی اہم شاہراؤں پر طالبان کے سیکورٹی حصار میں عاشورہ کے ماتمی جلوس اور تعزیے دیکھ کر انہیں زبردست مایوسی ہوئی ہوگی ۔ واضح رہے کہ مستقبل قریب میں ایران اور طالبان کے تعلقات کی مضبوطی اور خطے میں دیرپا استحکام کے لیے از حد ضروری تھا کہ افغانستان کے تمام بڑے اور معروف شہروں میں عزادری کے اجتماعات کا انعقاد پرامن انداز میں بہر صورت یقینی بنایا جائے۔
نیزنئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بالخصوص دنیا بھر میں بسنے والی شیعہ برادری کے نقطہ نظر سے بھی طالبان کے معتدل رویے کے اَب تک کے تمام تر دعووں کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے یہ ایک بہت مشکل ٹیسٹ کیس بھی تھا ،جس میں طالبان بلا شک و شبہ امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہونے میں کامیاب رہے۔ہوسکتا ہے کہ عالمی ذرائع کے نزدیک طالبان کا یہ مثبت رویہ بڑی خبر نہ ہو۔ لیکن ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے لیے یہ واقعی ایک انتہائی اطمینان بخش بات ہے کہ طالبان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے نہ صرف بہت کچھ سیکھ لیا ہے بلکہ وہ اپنی گزشتہ غلط اقدامات کو درست کرنے کے لیے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات بھی اُٹھارہے ہیں ۔
یادرہے کہ اسلامی دنیا میں ایران اکثریتی شیعہ آبادی رکھنے والا واحد ملک ہے ۔ اس لیے دنیا بھر میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ہر بڑی مشکل یہ کسی بھی قسم کے سرد ،گرم سیاسی حالات وواقعات میں مدوو اعانت کی غرض سے سب سے پہلے ایرانی حکومت کی جانب ہی اُمید بھری سے نظر وںسے دیکھتا ہے ۔ جبکہ ایران نے بھی ہمیشہ اپنے سیاسی و سفارتی اثرورسوخ کو شیعہ آباد ی کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے کے لیے بھرپورانداز میں استعمال کیا ہے۔ چونکہ افغانستان میں کثیرتعداد میں ہزار ہ قبائل بستے ہیں ۔جن کا شیعہ مسلک سے تعلق ہے ۔اس لیے اِن کے مستقبل کے متعلق ایرانی حکومت کا پریشان ہونا بالکل ایک فطری بات ہے ۔جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ہر سیاسی تبدیلی اور اقتدار کی کشمکش کا براہ راست اثر سب سے زیادہ ہزارہ آباد ی پر ہی پڑتا ہے ۔
ماضی میں جہاں طالبان کا رویہ افغانستان میں بسنے والی ہزارہ برادری سے کچھ مناسب نہیں رہا تھا تو وہیں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے قبائل نے بھی طالبان کی حکومت کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا تھا اور طالبان کے خلاف ہونے والی ہر مزاحمت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس لیے کابل پر طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے بعد افغانستان میں استحکام کے لیے مخلصانہ کوششیں کرنے والی قوتوں کو اہم ترین مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ملک میں بسنے والی ہزاری آبادی اور طالبان کے آپسی معاملات مستقبل میں کس نوعیت کے ہوں گے؟۔اچھی بات یہ ہے کہ یوم عاشورہ کے موقع پر طالبان قیادت نے ہزاری برادری کے مذہبی اجتماعات میں شرکت فرما کر، انہیں جس طرح سے فول پروف سیکورٹی فراہم کی ۔اُس کے بعد طالبان ،ایران اور ہزاری برادری کے درمیان تفریق اور منافرت پھیلانے والی تما م اندیشے ، خبریں اور تجزیے اپنی موت آپ مرگئے ہیں ۔
شاید ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس وقت ایران اور طالبان رہنما ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی اور مثالی روابط استوار کرنے کے لیے ’’باہمی اعتماد‘‘ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہیں ۔ غالب امکان یہ ہی ہے کہ اگر دونوں فریقین کے درمیان اسی طرح تیزی رفتاری سے مثبت پیش رفت ہوتی رہی تو بہت جلد ایران اور طالبان اسلامی اُخوت اور بھائی چارے کے اٹوٹ بندھن میں بندھ جائیںگے۔ جس کا اولین ثبوت ایران نے طالبان کی درخواست پر افغانستان کو گیسولین، گیس اور پیٹرول کی برآمدات دوبارہ شروع کرکے دے بھی دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی تیل، گیس اور پٹرو کیمیکل ایکسپورٹرز یونین نے بتایا ہے کہ ’’طالبان نے ایرانی حکومت کو پیغامات بھیجے تھے کہ آپ پٹرولیم مصنوعات کی برآمدات کو جاری رکھ سکتے ہیں‘‘۔جس کے جواب میں نہ صرف ایران نے گیسولین ،گیس اور پیٹرول کے برآمدات کا ایک بار پھر سے آغاز کردیا ہے بلکہ طالبان نے بھی خیر سگالی کے طور پر ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر ٹیکس میں 70 فیصد تک حیران کن کمی کردی ہے۔
علاوہ ازیں طالبان کی سفارتی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے تہران میں پریس بریفنگ کے دوران ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ’’ افغانستان کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ہم افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور وہاں کے مختلف گروہوں سے رابطے میں بھی ہیں،جبکہ ہماری حکومت ایران افغان گروپوں کے درمیان تعاون اور مذاکرات کو آسان بنانے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ افغانستان میں تمام گروپوں اور سیاسی سیاستی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کریں اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں‘‘۔سعید خطیب زادہ کا مزید کہناتھا کہ ’’ ایران افغانستان میں ایک متفقہ حکومت کو اقتدار کی پرامن منتقلی کا حامی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ ایک متفقہ اور جامع حکومت غیر ملکی افواج کے انخلا کے اہم ترین موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کی تعمیر میں کامیاب ہو جائے گی‘‘۔
ایران کی جانب سے حاصل ہونے والی غیر مشروط حمایت سے طالبان کے ازلی حریف شمالی اتحاد اور اس سے منسلک جنگجو گروہوں کی متوقع اور غیر متوقع مزاحمت کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں ۔اس وقت صرف پنج شیر کے علاقے میں شمالی اتحاد کے جہادی جنگجو احمد شاہ مسعود کے صاحب زادے احمد مسعود اور سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح طالبان کو مزاحمت کی دھمکی دے رہے ہیں ۔ مگر صورت احوال یہ ہے کہ پنج شیر کے اردگرد کا سارا علاقہ طالبان کے کنٹرول میں اور طالبان نے حقیقی معنوں میں پنج شیر کا سخت محاصرہ کیا ہوا ہے ۔اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ امراللہ صالح اور احمد مسعود کے جنگجوؤں کو طالبان سے لڑنے کے لیے بیرونی امداد میسر آئے گی ۔نیز ایران اور روس کی جانب سے بھی پنج شیر میں موجود شمالی اتحاد کے جنگجو گروہ سے مکمل اعلانیہ لاتعلقی کا اظہار کردیا گیا ۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایران کی حمایت کے بغیر شمالی اتحاد کے رہنما اور جنگجو ایسے ہی ہیں جیسے سانپ بغیر زہر کے ہوتا ہے۔ یعنی شمالی اتحاد اگر طالبان کے ساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھ جائیں تو اُن کے حق میں بہت بہتر ہوگا۔وگرنہ اگلے چند روز میں اُنہیں طالبان کے غیض و غضب کا سامان کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار رہنا چاہئے ۔
ویسے بھی شمالی اتحاد کی تمام عسکری قوت اور سیاسی بھرم صرف ایرانی حمایت کے دم قدم سے ہی قائم تھا۔ اَب چونکہ ایران نے افغانستان سرزمین پر کام کرنے والے اپنے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے تمام گروہوں کو طالبان کے ساتھ مفاہمت کرنے کا حکم صادر کردیا ہے ۔اس لیے اَب آپ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں کھینچ سکتے ۔جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ شمالی اتحاد کے معروف جہادی رہنما گل بدین حکمت یارہیں ۔جنہوں نے گزشتہ کئی دہائیاں ایرانی اور روسی حمایت سے طالبان کی مخالفت میں بسر کردی تھیں ۔ آج کل وہ بھی کابل میں اہم ترین طالبان رہنماؤں کے ہمراہ افغانستان میں مستقبل کی وسیع البنیاد حکومت ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ رواں ہفتے اہم ترین طالبان رہنماؤں کے ہمراہ لی گئی ایک تصویر عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا خوب وائر ل ہورہی ہے ،جس میں گل بدین حکمت یار، باجماعت نماز کی امامت فرمارہے ہیں اور اُن کے پیچھے طالبان کے جید رہنما پورے خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہِ الہیٰ میں سجدہ ریز ہورہے ہیں ۔ ہمارے خیال میں یہ اُجلی تصویر ایران اور طالبان کے تعلقات میں بگاڑ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے کسی ڈروانے خواب سے کم نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان کی مستحکم اور وسیع البنیاد حکومت قائم ہونے سے ایران کو پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ایران کے سرحدی علاقے مغربی قوتوں کی جانب سے پلانٹ کی گئی ایران مخالف پراکسیز سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ایران کو گیسولین ،گیس اور پیٹرول کی فروخت کے لیے کئی ممالک پر پھیلی ہوئی ایک وسیع منڈی میسر آ جائے گی۔ جس کی وجہ سے ایران کو درپیش مختلف طرح کے معاشی مسائل سے چھٹکارا پانے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ جبکہ اگر افغانستان میں آباد ہزارہ آباد ی ،امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے اور ان مظلوموں کو بھی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے خوب مواقع میسر آتے ہیں تو ایران کو مستقبل قریب میں افغان سرزمیں سے کثیر تعداد میں ایسے مذہبی سیاح بھی میسر آسکتے ہیں ۔ جو ایران سرزمین پر موجود مقدس زیارات سے حاصل ہونے والی آمد نی میں غیرمعمولی اضافہ کا باعث بھی بن سکتے ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کی موجودگی ایران کے لیے چین کے عظیم الشان معاشی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ میں شمولیت کی راہ بھی ہموار کرے گی۔یہ ہی وہ بیش بہا سیاسی ،سفارتی اور معاشی فوائد ہیں، جن کو پیش نظر ایران نے بھارت نواز شمالی اتحاد کو یکسر نظر انداز کر کے طالبان کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز بھرپور انداز میں کردیا ہے۔
دوسری جانب طالبان کو بھی ایران کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے صلے میں بے شمار فوائد ملنے کی اُمید ہے ۔ جیسے ایران کی سرحد سے منسلک افغانستان کا طویل علاقہ پرامن ہوجائے گا۔ نیزطالبان حکومت کو درکار پیٹرول کی ایک بڑی ضرورت بھی ایران باآسانی پورا کرسکے گا۔ جبکہ ایران افغانستان کی تعمیرو ترقی خاص طور اسکولوں ،ہسپتالوں اور تباہ حال سرکاری اداروں کا نیا جال بچھانے میں بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال سکتا ہے ۔خاص طور پر ہزارہ اکثریتی علاقوں کی بحالی کے کام کے لیے طالبان نے ایران کو کہا تو غالب امکان یہ ہی ہے کہ ایرانی حکومت لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر افغانستان کی تعمیر و ترقی میں دامے ، ورمے ،سخنے مصروف ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ ایران کے قریب آنے سے طالبان کو دنیا بھر میں اپنا مسلکی طور پر پرتشدد ہونے کا تاثر ، زیادہ بہتر بنانے کا موقع میسر آئے گا۔مسلم امہ کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ اگر ایران اور طالبان مختلف عالمی معاملات اور تنازعات پر مشترکہ موقف اختیار کرتے ہیں تو۔اُن کے اس طرز عمل سے سنی اور شیعہ ممالک کے درمیان ،مسلم دشمن قوتوں کی جانب سے ایک سازش کے تحت پیدا کی جانے والی صدیوں پرانی مسلکی مخاصمت، افقہی ختلافات اور سیاسی خلیج ختم نہیں تو،بہرحال کم ضرور ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر