وجود

... loading ...

وجود

اہم ترین کتاب۔۔۔؟

پیر 09 اگست 2021 اہم ترین کتاب۔۔۔؟

میاں محاورہ نے اپنی پوری زندگی میںکبھی بھی کتابوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ جب کتابیں انہیں ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتیں(اشارہ اِن کا کتاب میں اپنے تذکرے سے ہے) تو وہ کیوں اِن کو اہمیت دیں۔میاں محاورہ کے نزدیک کتابیں نہ پڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِن کے خیال میں جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں وہ لکھتے نہیں اور جو کتابیں لکھتے ہیں وہ پڑھتے نہیں (حوالہ کے لیے آج کل شائع ہونیوالی کتابوں کا معیار ملاحظہ کیا جاسکتاہے )وہ کہتے ہیں کہ کتاب نہ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص کبھی نہ کبھی کتاب ضرور لکھے گاحالانکہ جتنا میاں محاورہ کو کتابوں سے بیر ہے اس رو سے تو اب تک انہیں چار ،پانچ کتابیں ضرور لکھ دینی چاہیے تھیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج صبح جب بازار میں میں نے میاں محاورہ کو ایک بُک شاپ میں داخل ہوتے دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں اُن کا پیچھا کرتے کرتے بُک شاپ میں داخل ہوگیا،تاکہ معلوم کرسکوں کہ آخر میاں محاورہ یہاں کرنے کیا آئے ہیں ۔دُکان میں داخل ہوتے ہی میں نے سب سے پہلے میاں محاورہ کو تلاش کیا جو ایک بُک شیلف کے پاس کھڑے کتابوں کو اُلٹ پلٹ کر کے دیکھ رہے تھے ۔مجھ پر نظر پڑتے ہی میاں محاورہ کی زباں سے بے ساختگی میں نکلا۔
’’اخاہ ! تم یہاں کہاں ۔۔۔۔؟‘‘
میں نے کہا ’’میاں محاورہ یہ سوال تو میں تم سے کرنے کے لیے یہاں آیا ہوں کہ آخر تم میں اتنی تبدیلی کیسے آگئی کہ تم کتاب خریدنے بہ نفسِ نفیس یہاں تک آگئے ‘‘۔
میاں محاورہ نے خلامیں گھورتے ہوئے کہا’’یا ر بس کیا کریں ،بعض مرتبہ ضرورت انسان کی سوچ و فکر کو بھی تبدیل کر دیا کرتی ہے ۔ایک کتاب کی ضرورت تھی ،سو یہاں آگیا ہوں ۔میں نے سوچا تم جیسے کسی دوست سے اُدھار مانگ کر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی ذاتی کتاب ہی کیوں نہ خرید لی جائے‘‘۔
’’تو کیا اب آپ شاعری کی کتاب پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ‘‘۔میں ازراہِ مذاق کہا۔
’’ارے نہیں بھئی ،اصل میں دراصل شاعری کے بارے میں تو میرا یہ نظریہ ہے کہ اگر شاعری شاعر کے دماغ میں ہی رہے تو زیادہ بہتر ہے ،ویسے بھی شاعری تو وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں کوئی دوسرا ڈھنگ کا کام یا تو کرنے کو نہیں ملتا اور اگر ملتا ہے تو کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی جبکہ شاعری کو پڑھتے وہ ہیں جن کا مستقبل قریب میں خودکشی کو کوئی ارادہ ہو‘‘۔ میاں محاورہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو کیا آ پ کو تاریخ کی کتاب درکار ہے۔۔۔یا ‘‘ ابھی میرا سوال مکمل ہی نہ ہوا تھا کہ میاں محارہ نے کہا ’’ ارے تم بھی پاگل ہوگئے ہو ۔بھلا تاریخ بھی کوئی پڑھنے والی چیز ہے ،تاریخ پڑھنے سے تو بہتر ہے کہ آدمی دیواروں پر لکھے ہوئے نیم حکیموں اور سنیاسی بابوں کے اشتہارات پڑھ لے کم از کم کچھ نہ کچھ معلومات تو اُسے حاصل ہوگی‘‘۔
’’ستمگر ! تاریخ سے تو قومیں سبق حاصل کیا کرتی ہیں ‘‘۔ میں نے بھی لقمہ دیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔۔! مجھے اچھی طرح معلوم ہے قومیں تاریخ سے کیا سبق حاصل کرتی ہیں ،پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہمیں تاریخ سے صرف یہ ہی سبق ملتا ہے کہ لوگوں نے آج تک تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اگر تمہارے نزدیک تاریخ اقوام کے ماضی کے مطالعہ کا نام ہے تو بھائی صاحب! میرے لیے قوموں کے ماضی کا مطالعہ کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اپنے ماضی کا مطالعہ کروں ۔وہ کم ازکم ظلم و جبر ،ہوسناکی اور فتنہ و فساد سے تو مزین نہیں ہوگا‘‘ میاں محاورہ نے کچھ جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
’’تو آپ یقینا سیاست سے متعلق کوئی کتاب خریدنے آئے ہوں گے کیونکہ آج کل ملکی حالات ویسے بھی ناقابلِ فہم ہوتے جارہے ہیں ‘‘۔ میں نے میاں محاورہ کو قریب رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ہر گز نہیں ملکی سیاست کو تو میں ویسے بھی ملکی ضیافت سمجھتا ہوں ،جس کے ذریعے سیاست دان اقتدار کے ایوانوں میں آتے ہیں اور پورے ملک کو ہی ضیافت تصور کرتے ہوئے بغیر ڈکار لیے ہضم کرجاتے ہیں پھر اب تک سیاست پر ہمارے ملک میں جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سیاسی تجزیوں سے زیادہ سیاسی عمائدین کے قصیدے بیان کیے گئے ہیں ۔جن کے لکھنے کا واحد مقصد اپنی اور صاحبِ وقت کی تعریف مقصود ہوتا ہے ۔یہ کتابیں اُن لوگوں کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہیں ،جنہیں رات کو نیند نہ آنے کی شکایت ہو ۔ایسے افراد اگر اِن کتابوں کا مطالعہ شروع کردیں تو بہت جلد اِن کی بدخوابی کی شکایت رفع ہوسکتی ہے ‘‘۔
’’تو کہیں آپ کو جنرل نالج کی کتاب کی تو ضرورت نہیں ہے‘‘۔
’’اب میرا ذوق اتنا بھی خراب نہیں ہوا کہ جنرل نالج کی کتابیں پڑھوں جن میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے نالج کے ‘‘۔
’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ جنرل نالج کی کتابوں میں ہوتے ہی سوال و جواب ہیں ‘‘۔ میں نے میاں محاورہ کو رگیدتے ہوئے کہا
’’شاید کبھی تم نے ان کتابوں کو غور سے نہیں پڑھا ۔اطلاعاً عرض ہے کہ اِن میں صرف سوال ہی سوال ہوتے ہیں ،جواب نہیں ہوتے مثلاً جنرل نالج کی کتاب میں یہ سوال تو ہوتا ہے کہ مرزا غالب نے کتنی کتابیں لکھیں مگر اس سوال کا جواب ہی نہیں ہوتا کہ مرزا غالب شاعری کے علاوہ کیا کرتے تھے ۔اس میں آپ کو یہ سوال تو ملے گا کہ کولمبس نے امریکہ کب دریافت کیا مگر اس بات کا جواب نہیں ملتاکہ کولمبس کی دریافت سے پہلے کیا امریکہ نہیںتھا؟ ۔جنرل نالج کی کتاب میں یہ تو لکھا ہوتا ہے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے تو پھر یہ کیو ں نہیں لکھا ہوتا کہ اسلام پاکستان میں ایسی کونسی جگہ قیام فرما ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں ایک بار بھی نظر نہیں آیا‘‘۔
میاں محاورہ اس سے پہلے مزید کوئی بات کرتے میں نے بیزاری سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ’’ اچھا بابا!تو اب تم خود بتادو کونسی کتاب خریدنے آئے ہو‘‘۔
میاں محاورہ نے مسکراتے ہوئے کہا’’اتنی دیر میں پہلی مرتبہ تم نے کوئی عقل مندی کی بات کی ہے ،بھئی اصل میں دراصل بات یہ ہے کہ میں جو کتاب خریدنے آیا ہوں وہ اِن تمام کتابوں سے زیادہ اہم ،فائد ہ مند ،دلچسپ اور معلوماتی کتاب ہے جس کو پڑھنے سے ۔۔۔۔!!‘‘
’’اچھا توحضور ،اب اس اہم ترین کتاب کا نام بھی بتادو‘‘۔میں نے تنگ آتے ہوئے کہا
’’ارے بھئی میں شمع کا دسترخوان والی کھانا پکانے کی کتاب خریدنے آیا ہوں ،اب تم ہی ایمان سے بتاؤ ،ہے نا! ایک ایسی کتاب کہ جس کا نام لیتے ہی منہ میں پانی آجائے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فرانس کا فلسطین پرنیاموقف وجود جمعرات 31 جولائی 2025
فرانس کا فلسطین پرنیاموقف

بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ وجود جمعرات 31 جولائی 2025
بھارتی اقلیتوں کے خلاف ثقافتی جنگ

اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی! وجود جمعرات 31 جولائی 2025
اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!

مودی راج اور بھارتی سیکولر ازم وجود بدھ 30 جولائی 2025
مودی راج اور بھارتی سیکولر ازم

پاکستان میں جلد ایک نیا سورج اُگنے والا ہے! وجود بدھ 30 جولائی 2025
پاکستان میں جلد ایک نیا سورج اُگنے والا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر