... loading ...
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اسٹیٹ بینک نے اگلے 2ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے زوم پر پریس کانفرنس میں مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مسلسل پانچویں بار پالیسی ریٹ کو مستحکم رکھا گیا ہے جب کہ مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا تھا کہ کورونا وبا اور لاک ڈاو ن کے دوران بھی معاشی اعشاریے بہتر ہیں، جون میں مہنگائی کی شرح 8.9 فیصد رہی اور کرنٹ اکاو نٹ خسارہ ایک اعشاریہ 8 ارب ڈالر پر ٹریڈ کررہاہے ، بروقت اور بہتر فیصلوں کے باعث معیشت میں استحکام دکھائی دے رہاہے ، افراط زر کی شرح 9.7 سے کم ہوکر 8.7 فیصد ہوگئی ہے جب کہ کرنٹ اکاو نٹ خسارے کے بجائے سرپلس ریکارڈ ہوا۔تفصیلات کے مطابق زری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی) نے اپنے منگل27 جولائی کے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مئی میں پچھلے اجلاس کے بعد ایم پی سی کو مسلسل ملکی بحالی اور غذائی قیمتوں اور قوزی مہنگائی میں حالیہ کمی کے بعد مہنگائی کے بہتر منظر نامے سے حوصلہ ملا۔مزید برآں، اعتماد ِصارف اور اعتماد ِکاروبار کئی سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں اور مہنگائی کی توقعات کم ہوئی ہیں۔ اس مثبت پیش رفت کے نتیجے میں پیش گوئی ہے کہ نمو مالی سال 21ء میں 3.9 فیصد سے بڑھ کر اس سال 4ـ5 فیصد تک پہنچ جائے گی اور اوسط مہنگائی حالیہ بلند شرح سے معتدل ہوکر اس سال 7ـ9 فیصد ہوجائے گی۔ ملکی بحالی اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں تیزی کے باعث درآمدات کے مسلسل بڑھتے رہنے کی توقع ہے گوکہ مالی سال 21ء کے مقابلے میں کچھ معتدل انداز میں۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ مارکیٹ پر مبنی لچکدار شرح مبادلہ نظام، ترسیلات ِ زر میں استقامت، برآمدات کے بہتر ہوتے ہوئے منظر نامے اور مناسب معاشی پالیسی طرز ِعمل کے نتیجے میں جاری کھاتے کے خسارے کو مالی سال 22ء میں جی ڈی پی کے 2ـ3 فیصد کی پائیدار شرح تک محدود رہنا چاہیے ۔اس معتدل جاری کھاتے کے خسارے سے قطع نظر بیرونی مالکاری کی کافی دستیابی کے سبب ملک کی زر ِمبادلہ کے ذخائر کی کیفیت اس سال متوقع طور پر بہتر ہوتی رہے گی۔ اس پس منظر میں ایم پی سی کی رائے تھی کہ پاکستان میں کووڈ کی جاری چوتھی لہر سے پیدا شدہ غیریقینی کیفیت اور اس وائرس کی نئی شکلوں کے دنیا میں پھیلاو کے پیش نظر گنجائشی زری پالیسی کے ذریعے بحالی کو تقویت فراہم کرنے پر بدستور زور دیتے رہنے کی ضرورت ہے ۔گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق نادیدہ حالات کی غیرموجودگی میں ایم پی سی کو توقع ہے کہ مستقبل میں زری پالیسی کو مختصر مدت میں گنجائشی رہنے کی ضرورت ہے اور پالیسی ریٹ میں ردّوبدل محتاط اور بتدریج ہونا چاہیے تاکہ وقت گذرنے کے ساتھ قدرے مثبت حقیقی شرح سود حاصل کی جاسکے ۔ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ اگر مہنگائی پر طلبی دباو کے آثار یا جاری کھاتے میں کمزوریاں نمودار ہوں تو گنجائش کے درجے میں بتدریج کمی کے ذریعے زری پالیسی کو معمول پر لانا دانشمندی ہوگی۔ اس سے اس امر کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ مہنگائی بلند درجے پر پختہ نہ ہوجائے اور مالی حالات منظم رہیں جس سے پائیدار نمو کو تقویت ملے ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے فیصلے تک پہنچنے میں زری پالیسی کمیٹی نے حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں کے اہم رجحانات اور امکانات، اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کو مدِنظر رکھا۔پاکستان کی اقتصادی بحالی کا عمل جاری ہے ، جس میں صنعت بالخصوص بڑے پیمانے کی اشیاسازی (ایل ایس ایم)اور تعمیرات اور خدمات کا کردار ہے ۔ بلند تعدّد کے کئی اظہاریوں بشمول جلد فروخت ہونے والی صارفی اشیا (ایف ایم سی جی) کی فروخت، فولاد کی پیداوار، سیمنٹ کی فروخت، پیٹرول مصنوعات کی فروخت اور بجلی کی پیداوار سے مضبوط سال بسال نمو ظاہر ہوتی ہے ۔ چند اظہاریوں میں جو حالیہ ماہ بہ ماہ کمی دکھائی دے رہی ہے وہ موسمی نوعیت کی ہے ، اور جہاں تک گاڑیوں کی فروخت کا تعلق ہے ، مالی سال 22ء کے بجٹ میں معاون اقدامات کی توقع کے باعث بکنگ میں تاخیر سے یہ عنصر اور بڑھ گیا۔ سرگرمی میں اضافے کے باوجود اشیاسازی میں استعداد کا استعمال اب بھی مالی سال 16ء تا 18ء کے نقطہ عروج کی سطح سے نیچے ہے ، اور نقل و حرکت پر وقفے وقفے سے پابندیاں لگنے کے باعث شعبہ خدمات کی سرگرمیاں بھی تاحال معمول کی سطح پر نہیں پہنچ سکی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ مالی سال 22ء کے دوران نمو میں مزید بہتری آنے کی توقع ہے ، جس کے اسباب بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات، گنجائشی زری حالات اور اسٹیٹ بینک کی ٹی ای آر ایف سہولت برائے سرمایہ کاری اور دیگر ری فنانس سہولتوں کے تحت رقوم کی تقسیم ہیں۔ ترقیاتی اخراجات میں اضافہ اور ریگولیٹری ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور خام مال و سرمایہ جاتی اشیا پر سیلز ٹیکس میں کمی بجٹ کے اہم اقدامات میں شامل ہے ۔ ان سے تعمیرات اور منسلکہ صنعتوں اور اس کے ساتھ برآمدی صنعتوں کو بھی براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ ریف کی فصلوں کی بوائی کے شروع میں بتائی گئی پانی کی قلت کے باوجود زرعی پیداوار بھی بھرپور رہنے کی توقع ہے ۔ نمو میں کمی کا بڑا خطرہ ملکی اور عالمی سطح پر کورونا وائرس کی نئی شکلوں کے سبب کووڈ کیسوں میں پھر اضافہ ہے کیونکہ ویکسین لگوائے جانے کی شرح اب بھی پست ہے ۔بیرونی شعبہ کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ جاری کھاتے کا خسارہ ابتدائی مہینوں میں فاضل رقوم کے بعد مالی سال 21ء کی دوسری ششماہی میں بڑھ گیا، جس سے ملکی سرگرمیوں میں تیزی نیز درآمدی ادائیگیوں کی موسمی کیفیت، اجناس کی بلند عالمی قیمتوں اور ویکسین کی درآمدا ت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں، سرمایہ جاتی اشیا کی درآمدات بڑھ گیئں جس سے معیشت میں سرمایہ کاری کے منظر نامے میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے ۔ گذشتہ زری پالیسی اجلاس کے بعد سیپاکستانی روپے کی قدر میں تقریباً4فیصد کمی ہو چکی ہے جو دیگر ابھرتی منڈیوں کی کرنسیوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے ، اور اس کا ایک جزوی سبب امریکہ میں زری پالیسی کے معمول پر آنے کی توقعات ہیں۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ پورے مالی سال21ء میں پاکستان کی بیرونی پوزیشن پچھلے کئی برسوں کے مقابلے میں مضبوط ترین تھی۔اسٹیٹ بینک کی پیش گوئیوں کے مطابق مارچ2021ء میں جاری کھاتے کا خسارہ گر کر جی ڈی پی کا صرف0.6فیصد رہ گیا۔ یہ گذشتہ10برسوں میں جاری کھاتے کا کم ترین خسارہ ہے ، جسے برآمدات اور ترسیلات ِزر دونوں کے تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہونے سے مدد ملی۔ اس کے ساتھ مالی سال21ء میں اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں5.2ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 17ارب ڈالر سے زائد ہوگئے جو تقریباً تین مہینوں کی درآمدات کے لیے کافی تھے اور یہ ساڑھے چار برسوں میں ان کی بلند ترین سطح ہے ۔ مزید برآں، مالی سال 20ء کے آغاز سے اسٹیٹ بینک کے خالص بیرونی ذخائر کی بفرز (مجموعی ذخائر منہا پیشگی واجبات) میں14.1 ارب ڈالر کا ضافہ ہو چکا ہے ۔انہوں نے بتایا کہزری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ یہ توقع رکھنے کی خاصی وجوہات موجود ہیں کہ پاکستان کی نمو میں بہتری کی بعض پچھلی مدتوں کے مقابلے میں حالیہ معاشی بحالی کے ساتھ بیرونی استحکام بھی آئے گا۔ ترسیلات ِزر کی متوقع استقامت اور برآمدات کے بہتر امکانات کے پیش نظر توقع ہے کہ مالی سال 22ء میں جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے 2تا3فیصد کی پائیدار حد میں رہے گا۔ یہ مالی سال17ء اور مالی سال18ء کے مقابلے میں بہت کم ہے ، جب جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر بالترتیب جی ڈی پی کا تقریباً4اور 6فیصد ہو گیا تھا اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں بالترتیب 2ارب ڈالر اور6.4ارب ڈالر کمی ہو ئی تھی۔ مزید برآں، توقع ہے کہ رواں سال درآمدات کا جھکائو مشینری کی سمت ہو گا، جو مالی سال17ء میں صَرف کی جانب تھا اور مشینری کی درآمدات سے زیادہ شعبے استفادہ کریں گے جبکہ مالی سال18ء میں یہ بجلی اور ٹیلی مواصلات میں مرتکز تھا۔ اب جبکہ جاری کھاتے کا خسارہ محدود ہے اور تجارتی، سرکاری، پورٹ فولیو اور براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی رقوم کی آمد معقول ہے ، توقع ہے کہ مالی سال 22ء میں پاکستان کی بیرونی قرضے کی تقریبا 20 ارب ڈالر کی ضروریات بخوبی پوری ہو جائیں گی۔ نتیجے کے طور پر زرِ مبادلہ کے ذخائر مزید بڑھیں گے ۔ ستمبر 2020ء سے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اسٹیٹ بینک کی روشن ڈجیٹل اکاو نٹ اقدام سے مزید 1.8ارب ڈالر جمع ہوئے ہیں۔ پاکستان نے جولائی میں اپنے یورو بانڈ کے ایک اجرا سے اضافی ایک ارب ڈالر کامیابی سے جمع کیے ہیں، جس کے تحت مارچ میں 2.5 ارب ڈالر جمع کیے جا چکے ہیں۔ توقع ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے منصوبے کے تحت ایس ڈی آر کے نئے اختصاص(ایلوکیشن) سے پاکستانی ذخائر کے بفرز اگست میں مزید2.8 ارب ڈالر بڑھ جائیں گے ۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ کسی غیرمتوقع دھچکے کی صورت میں، مثال کے طور پر تیل کی غیرمتوقع طور پر بلند قیمتوں یا ترقی یافتہ ملکوں میں مالی صورتِ حال سخت ہونے کی بنا پر سرمائے کی ابھرتی ہوئی منڈیوں سے پرواز کی صورت میں، مارکیٹ پر مبنی شرحِ مبادلہ کا لچک دار نظام اور ملکی سرمایہ کاری کے لیے بہتر منظرنامہ توازنِ ادائیگی کو پائیدار رکھے گا۔ علاوہ ازیں، ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ اگر توازنِ ادائیگی کا دبائوسامنے آیا تو زری پالیسی کو کچھ معمول پر لانے کی بھی ضرورت ہوگی بالخصوص اگر طلب کا دبائوموجود ہوا۔مالیاتی شعبہ کے حوالے سے ڈاکٹر باقر نے بتایا کہ توقع ہے کہ مالی سال 22ء کا بجٹ مہنگائی کے معاملے میں نیوٹرل ہوگا کیونکہ ٹیکس کی اکثر شرحوں کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ حکومت توقع کرتی ہے کہ مالی سال 22ء میں بجٹ خسارہ کم ہوکر جی ڈی پی کے تقریبا 6.3 فیصد تک آ جائے گا جو گذشتہ سال جی ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا۔ اس توقع کا سبب یہ ہے کہ بنیادی طور پر آمدنی اور سیلز ٹیکس کی بنا پر اور ساتھ ساتھ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے باعث ٹیکس (سال بسال 24.6 فیصد) اور نان ٹیکس محاصل (24.7 فیصد) دونوں میں طاقتور نمو ہوگی۔ محاصل میں اس بلند نمو سے ترقیاتی (وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے 71 فیصد) اور غیر سودی اخراجاتِ جاریہ (بنیادی طور پر سبسڈی اور گرانٹ کی شکل میں 12.8 فیصد) دونوں میں معقول نمو کا ازالہ ہو جانے کی توقع ہے ۔ دریں اثنا حکومت کا تخمینہ یہ ہے کہ سرکاری قرضہ جو مالی سال 20ء میں جی ڈی پی کا 87.6 فیصد اور مالی سال 21ء میں 83.1 فیصد تھا، مزید گر کر مالی سال 22ء میں 81.8 فیصد رہ جائے گا۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ دورانِ سال مالیاتی اعدادوشمار میں تبدیلیوں، اور نمو اور مہنگائی کے منظرنامے پر ان کے مضمرات پر محتاط نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔زری پالیسی اور مہنگائی کا منظرنامہ کے بارے میںایم پی سی نے نوٹ کیا کہ مالی حالات مناسب طور پر گنجائشی ہیں اور مارکیٹ کی منافع کی شرحیں اور بینچ مارک شرحیں زیادہ تر وہی ہیں جو پچھلے ایم پی سی اجلاس کے وقت تھیں۔بنیادی طور پر پست شرح سود کے ماحول اور کووڈکے دوران اسٹیٹ بینک کے اعانتی اقدامات کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضے میں مسلسل بحالی آرہی ہے ۔ مالی سال 22ء میں توقع ہے کہ نجی شعبے کے قرضے میں نامیہ جی ڈی پی کے مطابق اضافہ ہوگا اور اسٹیٹ بینک کے اسٹریس ٹیسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ منفی منظرناموں میں بینکاری شعبہ مستحکم رہے گا، سسٹم میں موجود غیرفعال قرضے قابو میں رہیں گے اور کفایت سرمایہ ملکی ضوابطی بینچ مارک سے کافی اوپر رہے گی۔مہنگائی اپریل میں 11.1 فیصد (سال بسال)سے کم ہوکر جون میں 9.7 فیصد ہوگئی۔ جنوری سے اب تک پہلی بار جون میں غذائی قیمتیں ماہ بہ ماہ بنیاد پر کم ہوئیں جس کا سبب حکومت کے انتظامی اقدامات اور گندم اور چینی کی درآمدات ہیں۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں کمی ملکی سطح پر منتقلی کو محدود کرنے میں مدد دی ہے ۔ مزید یہ کہ قوزی مہنگائی بھی شہروں اور دیہات دونوں میں پچھلے دو ماہ میں کم ہوئی جس سے اس نقطہ نظر کی تصدیق ہوتی ہے کہ توانائی اور غذا کی بنا پر ہونے والی مہنگائی جسے حالیہ زری پالیسی بیانات میں اجاگر کیا گیا تھا عام قیمتوں تک نہیں پہنچی اور یہ کہ مہنگائی کی توقعات کافی حد تک قابو میں ہیں۔ مالی سال 21ء میں اوسط مہنگائی 8.9فیصد تھی جو مئی 2020ء میں اعلان کردہ اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کی حدود کے مطابق ہے ۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ مہنگائی اسٹیٹ بینک کی سال کے آغاز میں پیش گوئی کی حدود کے اندر یا کسی قدر اس کے نیچے رہی ہے جس سے پیش گوئی کی مضبوط کارکردگی اجاگر ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں یہ نتیجہ مہنگائی کی توقعات کو قابو کرنے میں اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کی حدود کے کلیدی کردار کی اہمیت بھی ظاہر کرتا ہے جس سے زری پالیسی کو معتبر انداز میں مہنگائی کے عارضی دبائوسے نمٹنے میں مدد ملتی ہے ۔مہنگائی میں حالیہ کمی ایم پی سی کے اس نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہے کہ قیمتوں کا حالیہ دبائوبیشتر رسد کی بنیاد پر ہے اور عارضی ہے ۔ سال کی دوسری ششماہی میںجب فروری کا بجلی کے نرخوں میں اضافہ بیس سے ہٹ جائے گا تو عمومی مہنگائی زیادہ نمایاں طو رپر کم ہونے لگے گی اور وسط مدت میں 5ـ7 فیصد ہدف کی حدود میں آجائے گی۔جو خطرہ مہنگائی کم کرسکتا ہے وہ ملک کے اندر اور عالمی سطح پر کورونا وبا کا پھر سر اٹھانا ہے ۔ اس کے برخلاف جو خطرات مہنگائی میں اضافہ کرسکتے ہیں ان میں اجناس کی توقع سے زیادہ عالمی قیمتیں خصوصاً اگر ان کے ساتھ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور توانائی کے ملکی نرخوں میں اضافہ کیا گیا ، نیز مالیاتی رسائو ہے جو سال کے دوران زیادہ طلبی دبائو کی طرف لے جاتا ہے ۔ ایم پی سی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات پر اثر انداز ہونے والے حالات کا بغور جائزہ لیتی رہے گی اور جب ضرورت ہوگی مناسب کارروائی کرنے کے لیے تیار رہے گی۔
ہنستے کھیلتے بچوں کی سالگرہ کا منظر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ، 24 افراد موقع پر لقمہ اجل الباقا کیفے، رفح، خان یونس، الزوائدا، دیر البلح، شجاعیہ، بیت لاحیا کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی کی یہودی فوج نے ظلم کے انہتا کردی،30جون کی رات سے یکم ج...
ستائیسویں ترمیم لائی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیںاور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنا دیں،حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں یہ شرمندہ نہیں ہوتے 17 سیٹوں والوں کے پاس کوئی اختیار نہیںبات نہیں ہو گی، جسٹس سرفراز ڈوگرکو تحفے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگای...
عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں توریلیف نہیں، تھوڑا بڑھیں تو بوجھ عوام پر،امیر جماعت اسلامی معیشت کی ترقی کے حکومتی دعوے جھوٹے،اشتہاری ہیں، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مسترد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ردعمل آگیا۔انہوں...
وفاقی وزیر توانائی نے تمام وزرائے اعلی کو خط لکھ دیا، محصولات کی وصولی کے متبادل طریقوں کی نشاندہی ،عملدرآمد کے لیے تعاون طلب بجلی کے مہنگے نرخ اہم چیلنج ہیں، صارفین دیگر چارجز کے بجائے صرف بجلی کی قیمت کی ادائیگی کر رہے ہیں، اویس لغاری کے خط کا متن حکومت نے بجلی کے بلوں میں ...
پاکستان، ایران اور ترکی اگراسٹریٹجک اتحاد بنالیں تو کوئی طاقت حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتی گیس پائپ لائن منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے، ایران کے سفیر سے ملاقات ،ظہرانہ میں اظہار خیال پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے خلاف ایران کی حم...
پارلیمان میں گونجتی ہر منتخب آواز قوم کی قربانیوں کی عکاس ، امن، انصاف اور پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے کسی کو بھی پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے،عالمی یوم پارلیمان پر پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ خودمختار پا...
ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پانے کے بعد لیگ سے باہر آئرلینڈ کی جگہ نیوزی لینڈ یا پاکستان کی ٹیم کو اگلے سیزن کیلیے شامل کیا جائے گا،رپورٹ ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پ...
درندگی کا شکار فلسطینیوں میں بیشتر کی نعش شناخت کے قابل نہ رہی ،زخمیوں کی حالت نازک جنگی طیاروں کی امدادی مراکز اور رہائشی عمارتوں پر بمباری ،شہادتوں میں اضافے کا خدشہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر انسانیت کو شرما دیا۔ گزشتہ48گھنٹوں کے دوران صیہونی افواج کے وحش...
حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...
جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...
پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...
پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...