وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’ایف آئی آر‘‘ کے خلاف سندھ حکومت کی قانونی کارروائی

بدھ 21 جولائی 2021 ’’ایف آئی آر‘‘ کے خلاف سندھ حکومت کی قانونی کارروائی

ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں قطعا کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ موثر اور مفید قانون سازی سے آئین پاکستان میں مثبت ترامیم کا اضافہ کرنا ہمیشہ سے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے قیام سے لے کر اَب تک کثرت سے ایسے ماہر، قابل اور زیرک قانون دان رہنماؤں کی بطور سیاسی کارکنان خدمات حاصل رہی ہیں ۔ جو انسانی حقوق، سماجی برتری اور عوامی مسائل کے حل کی راہ میں حائل غیر ضروری قانونی پیچیدگیوں اور رکاؤٹوں کو دور کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔اس لیے اگر آپ گزشتہ 75 برسوں میں پاکستانی پارلیمان میں ہونے والی قانونی سازی کا تفصیلی جائزہ لیں تو منکشف ہوگا کہ ، انسانی حقوق کی بحالی، جمہوریت کے تحفظ اور سماجی بہتری کے لیے کی جانے والی زیادہ تر آئینی ترامیم کی پس ِ پشت پاکستان پیپلزپارٹی کا کلیدی ،متحرک اور مثالی کرداررہاہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے آئین پاکستان میں مفید قانون سازی کرنے میں اپنا حصہ بقدر جثہ نہیں ڈالا ۔ یقینا ہر سیاسی جماعت اپنے دورِ اقتدار میں اپنی دانست میں موثر اور مفید قانون سازی کرنے کی بھرپور کوشش کرتی آئی ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کو ہمیشہ سے ہی قانون سازی کے میدان عمل میں اپنی دیگر حریف سیاسی جماعتوں پر واضح برتری حاصل رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان پیپلزپارٹی نے سابقہ روایات کے عین مطابق ایسی ہی ایک منفرد قانون سازی کر کے اپنے تمام ناقدین کو خوشگوار حیرت میں مبتلاء کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ کابینہ نے پولیس رول 1934کے رول نمبر26 میں ترمیم کر کے ایف آئی آر کے بنیادی قانون میں ترمیم کردی دی ہے ۔جس کے تحت اب سندھ پولیس کسی شخص کو بھی صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار نہیں کر سکے گی۔یہاں اس بات کی وضاحت انتہائی ضرور ی ہے کہ اس قانون سازی کا مطالبہ سندھ پولیس کی جانب سے کیا گیا تھا۔یعنی آئی جی سندھ کی جانب سے باضابطہ طور پر کچھ عرصہ قبل پولیس قانون میں ترمیم کی درخواست کی گئی تھی جسے وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ کابینہ نے منظور کرلیا گیا۔اس نئی ترمیم کے مطابق سندھ پولیس کے افسران کوایف آئی آر میں نامزد کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے، سب سے پہلے اس شخص کے خلاف ناقابل تردید ثبوت حاصل کرنے ہوں گے ،جس کے بعد افسران بالا کی اجازت لینا بھی لازمی ہوگا۔ سندھ پولیس کے نقطہ نظر سے ملاحظہ کیا جائے تو اس ترمیم کے بعد نہ صرف پولیس پر سے ایف آئی آر میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے بااثر سیاسی افراد کا دباؤکم ہو جائے گا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج سے بھی کافی حد تک پولیس کی جان چھوٹ جائے گی۔ وگرنہ اس ترمیم کے متعارف ہونے سے پہلے تو عام مشاہدہ میں یہ ہی آتا تھا کہ چھوٹے موٹے لڑائی ،جھگڑوں اور تنازعات میں اپنے مخالف گروہ کو زیادہ سے نقصان پہنچانے یا بلیک میل کرنے کے لیے ایف آئی آر میں غیر متعلق افراد کو بھی نامزد کردیا جاتاتھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی کبھار تودرخواست دہندہ پولیس اسٹیشن میں ضد لگا کر بیٹھ جاتا تھا کہ ایف آئی آر میں اُس کے مخالف کے پورے خاندان کو ہی شامل دفتر کردیا جائے ۔حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات ایف آئی آر درج کروانے والا شخص اپنے مخالف محلے میں رہائش پذیر تمام کے تمام اہل محلہ کو نامزد کرنے کی ’’سیاسی فرمائش ‘‘کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔دراصل ایف آئی آر کا قانون ہمارے ملک میں انصاف کے حصول کے لیے کم اور مخالفین کو سبق سکھانے یا بے گناہ و معصوم افراد کا استحصال کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا جانے لگا تھا۔ جبکہ ایف آئی آر کے غلط اور غیر ضروری استعمال کا قصہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ ایک بار سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے اپنے دورِ اقتدار میں ترنگ میں آکر یہ تک فرمادیا تھا کہ’’ اگر سندھ حکومت چاہتی تو آصف علی زرداری کو بکری کی چوری کا مقدمہ قائم کر کے جیل میں رکھا جا سکتا تھا‘‘۔
المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ایف آئی آر کو بطور ایک ’’سیاسی ہتھیار‘‘ استعمال کرنے کا رواج صوبہ سندھ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ چند برس قبل گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے محمد زاہد نامی شخص پراس کے سابقہ مالک سجاد کی جانب سے 15 مرغیاں چرانے کا الزام لگا کر اُس کے خلاف ایف آئی آر کٹوادی گئی تھی۔حیران کن طور پر چوری کی اس مبینہ واردات کے دو ماہ اور دس دن گزر جانے کے بعد درخواست گزار راجہ سجاد نے، کورال کے تھانے میں چوری کی رپورٹ درج کروانے کا فیصلہ کیا۔سجاد نے پولیس کو درخواست دی کہ ’’6 فروری 2018 کی رات کو اس کے آفس سے نامعلوم فرد نے 15 مرغیاں، ایک پانی کا ڈسپینسر اور بیڈمنٹن سیٹ چرایا تھا، کچھ دن (یعنی دو ماہ اور دس دن) میں نے خود سے چور کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا۔اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے ملازم محمد زاہد نے ہی میری مرغیاں چرائی ہیں‘‘۔ پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے محمد زاہد کے خلاف 380/457 (پی پی سی 1860) کے تحت ایف آئی آر درج کرلی۔نیز پولیس نے محمد زاہد کو اسی دن گرفتار بھی کرلیا اور بعد ازاں میں اسے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ ملزم زاہد اپنے 5 بچوں کا واحد کفیل ہے۔ یہ خاندان گلگت کے شہر غذر کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤں کونوداس سے دس سال قبل اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔جبکہ اس غریب کے اہل خانہ کے پاس کیس لڑنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ دراصل محمد زاہد، سجاد نامی شخص کے پاس ملازمت کرتا تھا اور وہ اس سے اپنی تنخواہ کی مد میں 8000 روپے کا تقاضہ کر رہا تھا۔مالک سجاد نے بجائے تنخواہ کے پیسے دینے کے نہ صرف زاہد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ مرغی چوری کی ایف آئی آر کٹوا کر اُسے گرفتار بھی کروادیا ۔تاہم مالک سجاد اس بات کی وضاحت دینے میں ناکام رہا کہ اس نے چوری کی رپورٹ درج کروانے میں 9 ہفتے تک انتظار کیوں کیا؟۔ملزم زاہدکے والد کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست جمع بھی کروائی گئی تھی جو جوڈیشنل مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے 21 ستمبر 2018 کو مسترد کر دی گئی۔اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کو ضمانت کی درخواست دی گئی لیکن وہ بھی 9 نومبر 2018 کو مسترد ہو گئی۔ بالآخر مرغی چوری کی ایف آئی آر سے جان خلاصی کے لیے ملز م کے اہل خانہ نے ایک این جی او کی اعانت سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹاکر ملزم زاہد کی ایف آئی آر سے گلو خلاصی کروائی۔
سارے کالم کا لب لباب یہ رہاکہ سندھ حکومت اورسندھ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے متنازعہ فی قانون میں کی جانے والی ترمیم سراسر عوامی مفاد میںایک مستحسن حکومتی اقدام ہے۔جس سے نہ صرف معصوم ،بے گناہ اور غریب لاچار افراد کو بلاضرورت ایف آئی آر کے شکنجہ کا شکار ہونے سے نجات ملے گی بلکہ عدلیہ اور جیلوں پر اضافی بوجھ کم ہوگا۔ علاوہ ازیں یہ ترمیم پولیس افسران کو طاقت کا غلط استعمال کرنے سے روکنے میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔بعض عاقبت نااندیشن افراد کی جانب سے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ایف آئی آر قانون میں ترمیم کے بعد سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو کھلی چھوٹ مل جائے گی ،بالکل ایک لغو بات ہے۔ کیونکہ ایف آئی آر، تو کٹتی ہی بے چارے ،کمزور و ناتوں شخص کے خلاف ہے ، جبکہ طاقت ورافراد کے خلاف ایف آئی آر کٹنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی انہیں ضمانت قبل ازگرفتاری ’’قانونی پلیٹ ‘‘ میں رکھ کر پیش کر دی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر