وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزیراعظم پاکستان کا کامیاب دورۂ ازبکستان

پیر 19 جولائی 2021 وزیراعظم پاکستان کا کامیاب دورۂ ازبکستان

 

برسوں پہلے امریکا بہادر کی گود میں بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کا ایک خواب دیکھا تھااور اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے اسباب کی دنیا میں جتنے بھی اچھے ،برے، کھوٹے ،کھرے، جائز اور ناجائز اقدامات کیے جاسکتے تھے ، وہ سب کرنے میں بھارتی حکام نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔مگر آخر میں نتیجہ کیا نکلا کہ و ہی دھاک کے تین پات ۔یعنی بھارت کا دیرینہ خواب اپنی جگہ پر اَب بھی بدستور موجود ہے لیکن تعبیر ندارد ۔سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت کو اپنے پاکستان مخالف اس ’’مذموم خواب‘‘ کی تعبیر کبھی حاصل ہو بھی نہیں سکتی تھی ،کیونکہ جس امریکا کی گود میں بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو عالمی تنہائی کے بلیک ہول میں دھکیلنے کے’’مذموم سپنے‘‘ اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔ اُس امریکا کے اپنے بھی تو بے شمار خواب تھے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس منافقانہ رویے کی امریکی سیاست سے اُمید کی جاسکتی تھی ۔عین وہی کچھ ہوا ، اور امریکا نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے سپنے افغانستان میںقربان ہونے کے لیے کچرے کی مانند ایک طرف پھینک دیے ۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں بھارت کی جانب سے تعمیر کی جانے والی سڑکوں ، پلو ں ،افغان پارلیمنٹ ، خفیہ ایجنسی را کا ہیڈ کواٹر اور ڈیم کے باعث اربوں ڈالر کا کتنا کثیر سرمایہ ڈوب گیا ۔بھارتی قیادت کا اصل دردِ سر تو یہ ہے کہ آس ،پڑوس کے ممالک اور دنیا بھر میں اُس کی عسکری حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت کی جس بدترین طریقہ سے بھد اُڑی ہے۔ اُس کے بعد تو بھارت کی عالمی ساکھ دو کوڑی کی بھی نہیں رہی ۔ جبکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان، تاشقند میں دنیا ئے سیاست کے بڑے بڑے بزرجمہروں کی قیادت کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں سہ سرخیوں میں جگہ بنانے والی خبر کے مطابق ’’تاشقند کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے فرداً فرداً تمام سربراہانِ مملکت اور وزرائے خارجہ سے ہاتھ ملایا لیکن بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے مصافحہ نہیں کیا جبکہ شنکر کے ساتھ کھڑے روسی وزیر خارجہ سے غیررسمی گفتگو بھی کی‘‘۔ ذلت کے اس مقام پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھارت کی ’’عالمی بے عزتی ‘‘ کا درست ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر احتجاجاً اسٹیج سے اُتر جاتے یا پھر تاشقند کانفرنس کا ہی بائیکاٹ کردیتے ۔ویسے بھی اس کانفرنس میں بھارت کے لیے رکھا ہی کیا تھا ،سوائے رسوائی ،ہزیمت اور بدنامی کے۔ مگر شاید بھارت افغانستان میں اچانک سے اُلٹ جانے والی ’’سیاسی بازی ‘‘کو اپنے حق میں دوبارہ سے پلٹنے کے لیے آخری حد تک جانا چاہتاہے۔
حالانکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سوچنا چاہیے کہ افغانستان میں گزشتہ 20 برسوں میں امریکا اور 42 ممالک کی نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود بھی اگر افغانستان میں سے اپنے لیے کچھ خاص حاصل نہیں کرسکا ہے تو اَب امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کے بعد سوائے عبرت کے بھارت کو اور کیا حاصل ہوسکتاہے۔ حالیہ تاشقند کانفرنس میں بھارت کی حیثیت وہی رہی ہے ، جو ہمارے محاورے میں ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کی ہوتی ہے۔ شاید عبداللہ دیوانہ سے بھی کہیں زیادہ ترس اور قابلِ رحم ۔ کیونکہ عبداللہ دیوانہ تو بیچارہ ،فقط غیر کی شادی میں خوشی خوشی ناچتا تھا اور بس ۔ مگر یہاں بھارت تو طالبان کے جشن میں بھنگ ڈالنے کے لیے اشرف غنی اور دیگر افراد کے کان بھرنے اور لگائی بجھائی میں مصروف ہے۔ جس کا اثراُس وقت نظر بھی آیا جب،
افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان نے افغانستان میں حالات خراب کروانے کے لیے 10 ہزار جنگجوؤں کو بھیجا ہے اور طالبان کو پاک فضائیہ امداد فراہم کررہی ہے‘‘۔مگر اشرف غنی کے اس بیان سے کسی کے کانوں پر جوں تک بھی نہ رینگی۔یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اشرف غنی کی حیثیت دنیا بھر میں اَب، رہ بھی کیا گئی ہے ،اور کون سا بدنصیب ملک ہے سوائے بھارت کے جو اشرف غنی کے ارشاد عالیہ کو توجہ کے ساتھ سننا چاہتاہے۔ بے چارہ اشرف غنی جس کو اُس کے آقا و مولا یعنی امریکا نے طالبان کے ساتھ اپنے مذاکرات کی بھنک بھی نہ لگنے دی ، ایسے راندہ درگاہ شخص کو بھلے دنیا کے دیگر ممالک کیوں منہ لگانے یا سر چڑھانے لگے۔
وزیراعظم عمران خان نے تاشقند میں ’’سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا 2021:ریجنل کنیکٹیوٹی: چیلنجز اینڈ اپرچونیٹیز‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ’’ افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا شدید ناانصافی ہے، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے زیادہ کسی نے کردار ادا نہیں کیا،ہم پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے۔کیونکہ افغانستان میں امن کیلئے سب سے زیادہ پاکستان نے قربانیاں دیں، پاکستان پر الزامات لگائے جانے سے مجھے مایوسی ہوئی۔جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو اور امریکی افواج موجود تھیں اس وقت طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کیے گئے ۔طالبان کو بات چیت کی دعوت غیر ملکی افواج کے انخلاسے قبل دی جانی چاہیے تھی۔اَب جب کہ طالبان کو افغانستان میں فتح نظر آ رہی ہے تو وہ اب پاکستان کی بات کیوں سنیں گے؟ سمجھوتا کیوں کریں گے؟اسلحے کے زورپر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا‘‘۔وزیراعظم پاکستان کا یہ جواب آں غزل صرف افغان صدر اشرف غنی کے ہی حسب حال نہیں تھا بلکہ بین السطور بھارت کے لیے بھی ایک تنبیہ تھی کہ اَب اُن کی پکائی جانے والی دال گلنے کی نہیں ۔ جبکہ بھارت کو’’سفارتی چرکا‘‘ لگانے کے لیے عمران خان نے لگے ہاتھوں کشمیر اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کا تذکرہ بھی چھیڑ دیا ،تاکہ بوقت ضرورت بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کے لیے سند رہے کہ جہاں بھی بھارت زبردستی کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرے گا ،وہاں سے اُسے اُٹھاکر کشمیر میں لے جاکر ہی چھوڑا جائے گا۔
واضح رہے تاشقند میں منعقد ہونے والی ’’سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا 2021:ریجنل کنیکٹیوٹی: چیلنجز اینڈ اپرچونیٹیز‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس افغانستان اور پاکستان کے مستقبل کے لیے کئی حوالے سے اہم تھی ۔کیونکہ ازبکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے جنوب میں اور افغانستان کے شمالی علاقے سے متصل مملکت ہے اس کی باقی سرحدیں تاجکستان، کرغزستان، قازقستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں یہ سارا خطہ چین، روس، ایران اور ترکی کے ممالک میں گھرا ہوا ہے جو تجارتی نقطہ نگاہ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ وسط ایشیائی ریاستیں1920ء کی دہائی سے 1991ء تک سوویت یونین کے قبضے میں رہیں جس کے بعد انہوں نے آزادی حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان ریاستوں کے ہمارے ساتھ سفارتی، تجارتی، ثقافتی، سیاسی تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان تواتر کے ساتھ وفود کے تبادلوں کے نتیجے میں جو سب سے بڑی پیش رفت سامنے آئی وہ تین ماہ قبل ازبک وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ازبکستان کو پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی میں سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی، جس کے تحت تاشقند کو مزار شریف کے ذریعے پشاور سے ریلوے لائن کے ذریعے ملانے کا منصوبہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دو روزہ حالیہ دورہ ازبکستان میں اسے مرکزیت حاصل رہی۔
علاوہ ازیں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی ازبک صدر شوکت مریوف کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور اقتصادی امور پر تفصیلی بات چیت بھی ہوئی اور اس تاریخی موقع پرپاکستان اور ازبکستان کے درمیان مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔نیز دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کا مرکزی نقطہ ازبکستان کو پاکستان کے ذریعے بڑی مارکیٹ تک رسائی دینے سے متعلق تھا۔ تاشقند میں منعقد ہونے والے ازبک پاکستانی بین الحکومتی کمیشن برائے تجارت، معاشی اور سائنسی و تکنیکی تعاون (آئی جی سی) کے چھٹے اجلاس کے حوالے سے جاری بیان میں دونوں ملکوں نے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم اور معدنی شعبوں میں مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر نیز اس بات پر بھی اتفاق کیاکہ ٹرانس افغان راہداری جو ازبکستان اور پاکستان کو ملاتی ہے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔مزید برآں ٹیکسٹائل انڈسٹری، زرعی مشینری کی تیاری، پھل سبزیوں کی پروسیسنگ اور پیکیجنگ کے شعبے میں مشترکہ پروگرام، مواصلات، افرادی قوت، سیاحت، ہائوسنگ، شہروں کے درمیان اشتراک، موسمیات، ثقافت اور نوجوانوں کے امور ایسے شعبے ہیںجن پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے ان شعبوں میں نئی راہیں کھلیں گی۔ اس پروگرام کے فروغ کیلئے تاشقند اور اسلام آباد میں ازبک پاکستان اسپیشلائزڈ نمائشوںکے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا جس سے دونوں ملکوں کی برآمدی اشیا، ادویہ سازی، ٹیکسٹائل، چمڑے، تعمیراتی سامان، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک سروسز کیلئے بڑی کمپنیوںکو ترغیب ملے گی۔
بلاشبہ کامل اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے حالیہ دورہ ازبکستان میں طے پانے والے مذکورہ بالا تمام امور مستقبل کے تناظرمیں پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت اور دوررس نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔ مزیدبرآں وطن عزیز کو قدرتی گیس کے جس بحران کا سامنا ہے، اس سلسلے میں روس کے ساتھ چار کھرب روپے مالیت کی اسٹیم گیس پائپ لائن کی تعمیر کے معاہدہ کا باضابطہ طور پر طے پاجانا بھی حکومت ِ پاکستان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔لیکن وسطی ایشیائی ریاستوں ، روس اور چین کے سی پیک منصوبوں کی کامیابی کا تمام تر انحصار افغانستان میں امن و استحکام سے وابستہ ہے ۔ بظاہر پاکستان نے اپنی موثر سفارتی حکمت عملی اور سیاسی دور اندیشی سے بھارت کو افغانستان سے اپنا مال و اسباب چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔لیکن یہاں پر بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی اگر وہ افغانستان میں اپنے قدم نہیںجماپایا تو افغانستان میں انارکی اور خانہ جنگی کے وسیع مواقع پیدا کرکے پاکستان کو افغانستان سے مستفید نہ ہونے دیا جائے۔ لیکن اس نازک مقام پر پاکستان کی اولین کوشش اور ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ امریکا کی مرعوبیت سے نکل کر روس اور چین کی مدد و اعانت سے افغانستان میں جلد ازجلد دیرپا امن و استحکام کو یقینی بنائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر