وجود

... loading ...

وجود
وجود

اب حلال گوشت پر بھی اعتراض

پیر 12 جولائی 2021 اب حلال گوشت پر بھی اعتراض

بی جے پی اقتدار کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ فسطائی ٹولہ جس چیز پر بھی اعتراض درج کراتا ہے ، اس کے خلاف پولیس اور انتظامیہ فوراً سرگرم ہوجاتے ہیں۔ خواہ یہ اعتراض آئین وقانون کے سراسر خلاف ہی کیوں نہ ہو۔اس کا ایک ثبوت حال ہی میں بی جے پی کے اقتدار والی ریاست اتراکھنڈ میں دیکھنے کوملا ہے ، جہاں ایک بورڈنگ اسکول کی ’حلال گوشت ‘کی سپلائی کے لیے ٹینڈر جاری کرنا اتنا مہنگا پڑا ہے کہ اس کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج ہوگیا ہے ۔یہ کارروائی بجرنگ دل کی شکایت پر عمل میں آئی ہے ۔ حالات کا دباؤ اتنا شدید ہے کہ پوری طرح قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کے باوجود اسکول انتظامیہ دفاعی پوزیشن میں ہے اور اسے معافی تلافی کرنی پڑرہی ہے ۔
سبھی کو معلوم ہے کہ ملک کا دستور اور قانون ہر شہری کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے اور کھانے پینے کی اشیاء کا انتخاب کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ یہی معاملہ مذہب اور عقیدے کا بھی ہے ، لیکن ان دنوں ملک میں فرقہ واریت کی جوخطرناک لہریں چل رہی ہیں ، ان میں نہ تو مذہبی آزادی باقی رہ گئی ہے اور نہ ہی لوگوں کو اپنی پسند کے کھانے چننے کا اختیارہے ۔آج فرد کی آزادی کوجو خطرہ لاحق ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ایسی تمام آزادیوں پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں جن کی ضمانت ملک کے سیکولر جمہوری آئین نے ہرشہری کو فراہم کی ہے اور جس کے طفیل ہندوستانی عوام امن وچین کی زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ختم ہونے والا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک کے تمام باشندے کچھ فسطائی عناصر کی شرانگیزیوں کے اسیر ہوکر رہ جائیں گے ۔ملک کی رنگارنگی کو ختم کرکے یہاں یک رنگی قایم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یعنی اکثریت کے مذہب ، کلچر اور زبان کے علاوہ باقی سب کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ پورے ملک کی فضا کو زعفرانی بنانے کی کوششیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ بقول محترم اظہرعنائتی
جو باقی رنگ ہیں ، وہ کیا کریں گے
فضا سب زعفرانی ہوگئی ہے
اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرہ دون میں ایک مشہور عیسائی بورڈنگ اسکول کی انتظامیہ کے ساتھ مقامی پولیس نے بجرنگ دل کے دباؤ میں جو رویہ اختیار کیا گیاہے ، وہ نہ صرف جابرانہ ہے ، بلکہ دستور اورقانون کے اعتبار سے بھی درست نہیںہے ، لیکن چونکہ شکایت سنگھ پریوار کی ایک جارحیت پسند تنظیم کی طرف سے کی گئی ہے ، اس لیے پولیس نے سب کچھ پس پشت ڈال کراسکول کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے ۔اسکول کے منیجر ، پرنسپل اور نائب پرنسپل پر دوفرقوں کے درمیان منافرت کو فروغ دینے کا مقدمہ درج کرلیاگیا ہے ۔ قصور محض اتنا تھا کہ انھوں نے اسکول میس کے لیے حلال گوشت کی فراہمی کا ٹینڈر شائع کرایا تھا۔ واضح رہے کہ اس اسکول میں تمام فرقوں کے بچے زیرتعلیم ہیں اور انتظامیہ ان کے عقیدے کے مطابق انھیں غذا فراہم کرنے کا پابند ہے ۔ لیکن آرایس ایس کی ذیلی تنظیم بجرنگ دل کویہ اشتہار اتنا ناگوار گزرا ہے کہ اس نے حلال گوشت کو بھی جبری تبدیلی مذہب سے جوڑ کر ایک ہنگامہ برپا کردیا ہے ۔بجرنگ دل کی دہرہ دون اکائی کے لیڈر وکاس ورما نے دالن والا پولیس اسٹیشن میں گزشتہ ۲۹ جون کو یہ شکایت درج کروائی کہ اسکول نے حلال گوشت کی فراہمی کا ٹینڈر دراصل ’مذہبی تبدیلی ‘ کی منشا سے جاری کیا ہے ، جس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ورما نے کہا کہ’’ اسکول کی طرف سے حلال گوشت سپلائی کرنے کا ٹینڈر جاری کرنا دراصل تبدیلی مذہب کی جانب پہلا قدم ہے ‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کچھ دیگر اسکول اور اسپتال بھی یہی کام کررہے ہیں ، لہٰذاہم پورے صوبے میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مہم چلارہے ہیں‘‘۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس اسکول کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ، اس میں کسی کا نام نہیں ہے بلکہ صرف ملزمان کے عہدوں کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس معاملے کی تحقیقات کررہے سب انسپکٹر مہاویر سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ505(2)کے تحت دوفرقوں کے درمیان عداوت کو فروغ دینے والا بیان شائع کرنے کے لیے درج کیا گیا ہے ، تاہم شکایت درج کرانے والے بجرنگ دل لیڈر وکاس ورما کا کہنا ہے کہ’’ اس معاملے میں مزید سخت دفعات عائد کی جانی چاہئے ، کیونکہ وہ جو کچھ کررہے تھے وہ قطعی طورپر ناقابل معافی ہے ۔ وہ ہندو طلبا کو صرف حلال گوشت کی فراہمی کی دعوت دے رہے تھے ، جس کی ہندو مذہب میں اجازت نہیں ہے ‘‘۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب ہندو طلباء گوشت کھاتے ہی نہیں ہیں تو انھیں‘حلال گوشت’ فراہم کرنے کی دعوت دینے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ اسکول کے ہاسٹل میں مقیم مسلم اور عیسائی طلبا ء کے لیے حلال گوشت کی فراہمی کا اشتہار جاری کیا گیا تھا جوپوری طرح ایک قانونی سرگرمی تھی، لیکن اس پر پولیس نے جس انداز میں آناً فاناً کارروائی انجام دی ہے ، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی سرکاروں میں انتظامیہ اور پولیس پوری طرح سنگھ پریوار کا دست نگر ہے اورسنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں کی ہٹ دھرمی کے سامنے قانون اور دستور کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
اسکول کے وائس پرنسپل مہیش کنڈپال نے اس سلسلہ میں ایک جوابی بیان اور نئے اشتہار کی کاپی ’ انڈین ایکسپریس ‘کو دکھائی جس میں کہا گیا ہے کہ کسی غلطی کی وجہ سے ٹینڈر نوٹس میں کچھ باتیں شائع ہونے سے رہ گئی تھیں جنھیں اب دوسرے ٹینڈر میں شائع کرایا جارہا ہے ۔ اسکول کی طرف سے اس معاملے میں کسی فرقے یا فرد کے مذہبی جذبات کو جانے انجانے میں ٹھیس پہنچنے پر معافی بھی طلب کی گئی ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘‘۔مگر یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس ٹینڈر کی اشاعت سے کسی دوسرے فرقہ کے مذہبی جذبات کا کیا تعلق ہوسکتا ہے اور اس میں تبدیلی مذہب پر اکسانے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے ۔اگر کسی کے کھانے پینے کے طریقوں سے متاثر ہوکر کسی مذہب کے لوگ اپنا دھرم تبدیل کرلیتے ہیں تو پھر اس مذہب کے ٹھیکیداروں کو اپنے مذہب کی اس کمزوری پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔
ہم یہاں حلال گوشت کے تعلق سے بعض بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہیں گے ۔ اوّل یہ کہ ملک بھرمیں جتنے بھی میس یا بڑے ہوٹل ہیں ، وہ اپنے یہاں حلال گوشت کو ہی فوقیت دیتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حلال گوشت سائنٹفک طور پر زیادہ محفوظ اور صحت مند تصور کیا جاتا ہے ۔ اس کو زیادہ عرصہ تک فریز کیا جاسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں جتنے بھی گوشت کے ایکسپورٹرہیںوہ حلال گوشت ہی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ان ایکسپورٹروں میںاکثریت غیرمسلم برادران وطن کی ہے ۔تمام فائیواسٹار ہوٹل بھی حلال گوشت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کی پارلیمنٹ کی کینٹین میں بھی حلال گوشت ہی سپلائی ہوتا ہے ۔ لیکن حلال گوشت کے ساتھ چونکہ مسلمانوں کا نام وابستہ ہے ، اس لیے بجرنگ دل کو اس معاملے میں ہنگامہ آرائی کا موقع مل گیا۔دوسری بات یہ ہے کہ بجرنگ دل نے اس معاملے میں مرچ مسالہ لگانے کے مقصد سے اسے تبدیلی مذہب سے جوڑنے کی ناکام بھی کوشش کی ہے ۔ آج کل چونکہ تبدیلی مذہب کا موضوع نفرت پھیلانے کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے ، اس لیے پر اس کا تڑکا لگانا بے حد ضروری ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب سے انتہاپسند تنظیموں نے غیرقانونی ذبیحہ کے نام پر مہم چلائی ہے تب سے گوشت کا قانونی کاروبار کرنے والوں کا بھی جینا حرام ہوگیا ہے ۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ملک میں گوشت کے ایکسپورٹ سے حکومت کو اربوں روپوں کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے ، لیکن گوشت کے چھوٹے تاجر انتہائی پریشانی میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ کہیں بھی ان پر گاؤ کشی کا الزام لگاکر ان کی گاڑیاں روک لی جاتی ہیں اور انھیں ہراساں کیا جاتا ہے ۔ اب حلال گوشت کے خلاف بجرنگ دل کی اس نئی مہم سے ہراسانی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔گئورکشکوں نے پہلے ہی ملک میں اپنا متوازی نظام قائم کررکھا ہے اور وہ جہاں چاہتے ہیں قریش برادری کے لوگوں کو تشدد اور ناجائز وصولی کا نشانہ بناتے ہیں۔حلال گوشت کی سپلائی کے جائزاورقانونی کام کوبھی اب غیرقانونی قرار دے کر اس پر بندشیں عائد کی جاسکتی ہیں۔ دہرہ دون کے واقعہ سے تو ایسا ہی لگتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر