وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان حکومت کا قیام اور امریکا کا انجام

پیر 12 جولائی 2021 طالبان حکومت کا قیام اور امریکا کا انجام

امریکی صدر جوزف بائیڈن نے ذرائع ابلاغ کے نمائندو ں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’امریکا افغانستان میں تعمیر و ترقی یا جمہوریت کے قیام کے لیے نہیں بلکہ نائن الیون کے واقعہ پر القاعدہ رہنما، اسامہ بن لادن کو سزا دینے کی’’عسکری نیت‘‘ سے داخل ہواتھا اور 2014 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ساتھ ہی امریکا اپنا یہ دیرینہ ہدف مکمل کرچکا ہے‘‘۔ امریکی صدر کا یہ معنی خیز بیان ظاہر کرتاہے کہ امریکا نے افغانستان میںحاصل ہونے والی ’’تاریخی شکست‘‘ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرکے ساری دنیا پر واضح کردیا ہے کہ آئندہ ، امریکا بہادر ،افغانستان کے کسی بھی معاملے میں وہ اپنی سیاسی،سفارتی اور عسکری مداخلت نہیں کرے گا۔ یعنی امریکا نے افغان حکومت سے مکمل طور پر لاتعلقی اختیار کرکے اُسے طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اشرف غنی حکومت کے ساتھ امریکا کے اظہار لاتعلقی کے بعد افغان حکومت کے وزراء کے معاندانہ رویے بھی بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہو گئے ہیں اور وہ سب کے سب بھارت نواز افغان رہنماجو اکثر اپنے زہرآلود بیانات سے پاکستان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ اَب حالات کا نیا رخ دیکھ کر پاکستان سے ملتجائی انداز میں درخواست گزار ہیں کہ ’’ ہمیں پاکستان سے بہت زیادہ امیدیں ہیں، ہم نے پاکستان کی جانب سے امن عمل کی حمایت میں اُٹھائے گئے اقدامات کی پہلے بھی کھل کر تعریف کی ہے اور اَب بھی کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ مستحکم باہمی تعلقات کا خواہاں ہے۔ نیز ہماری پاکستان سے توقع ہے کہ وہ طالبان کی ظالمانہ مہم، سپلائی اور سپورٹ کو روکنے میں ہماری مدد کرے اور پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں خصوصی دلچسپی لے‘‘ ۔
سب سے زیادہ حیرانگی تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی اپنے خصوصی ویڈیو بیان میں کچھ یوں رطب اللسان نظر آ رہے ہیں کہ ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ افغانستان کے تمام گنجلک مسائل کے حل کی کنجی پاکستان کے پاس ہے اور چین ،پاکستان کے ساتھ مل کر بغیر کسی بیرونی امداد کے باآسانی افغانستان میں سیاسی و انتظامی استحکام پیدا کرسکتاہے‘‘۔یا درہے کہ امریکی انخلاء سے قبل یہ ہی حامد کرزئی، بھارت کے ایما پر افغانستان میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کا ذمہ دار پاکستان حکومت کو قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔بلکہ کئی مواقع پر حامد کرزئی نے نیٹو افواج کو پاکستان کے علاقوں میں فضائی کارروائیاں کرنے کے لیے بھی قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ نیز اُن کے دورِ اقتدار میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اے نے مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی کارروئیاں کی تھیں ۔ وہ سب کی سب حامد کرزئی کی نیم رضامندی کے ساتھ ممکن ہوئی تھیں۔ لیکن آج اُسی حامد کرزئی کے نزدیک افغانستان کی سب سے بڑی خیر خواہ پاکستان حکومت بن چکی ہے۔ دراصل حامد کرزئی کی شدیدترین خواہش ہے کہ چین اور پاکستان ، طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے آئندہ افغانستان میںبننے والی وسیع البنیاد افغان حکومت میں اُنہیںبھی کسی چھوٹے ، بڑے عہدے پر فائز فرمادیں۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے حامد کرزئی اپنی فطرت میں ایک انتہائی موقع پرست شخص واقع ہوئے ہیں ۔جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا آغاز ہوتے ہی پاکستان اور چین حکام کے سامنے اپنے آپ کو ایک آپشن کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ مگر حامد کرزئی بھول رہے ہیں کہ چلے ہوئے کارتوس ،کسی بھی کام کے نہیں ہوتے ۔
دوسری جانب اشرف غنی حکومت کے بعض وزراء کی جانب سے عالمی ذرائع ابلاغ پر یہ شکوہ کرنا کہ ’’امریکا نے افغان افواج کو اعتماد میں لیے بغیر جس طرح خاموشی کے ساتھ بگرام ایئر بیس سے رات کے تاریکی میں اپنی افواج کا مکمل انخلاء کرکے انہیں سخت صدمہ پہنچایاہے‘‘۔ اُن کی شدید بے کسی ، بدترین پریشانی اور بے وقوفی کا غماز ہے۔ کیونکہ امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات یا معاہدہ کرتے وقت انہیں کون سا اعتماد میں لیا تھا جو وہ اپنے فو جی انخلاء کے اختتامی لمحات میں اُن پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتا۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر امریکا کو اشرف غنی حکومت اور افغان افواج کی صلاحیتوں پر ذرہ برابر بھی یقین ہوتا تو وہ طالبان کے ساتھ ’’امن معاہدہ ‘‘ کرتاہی کیوں؟ دراصل گزشتہ بیس برسوں کی سرپھٹول کے بعد امریکی حکام اچھی طرح سے سمجھ چکے تھے کہ اشرف غنی قسم کی زرخرید حکومتوں پر اگر وہ ایک لاکھ سال تک بھی خطیر رقم خرچ کرتے رہیں ،تب بھی افغانستا ن میں طالبان کے مقابلے میں دھیلے کی کامیابی حاصل ہونے کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی۔ اس لیے امریکا نے افغانستان کے معاملے پر اُن ہی قوتوں کے ساتھ رابطے، مذاکرات اور معاہدہ کرنے کا اُصولی فیصلہ کیا کہ جن کی طاقت پر وہ مکمل اعتماد، بھروسہ اور یقین رکھتے تھے ۔یعنی طالبان اور پاکستان ۔
واضح رہے کہ چین بھی افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا ء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے اپنی کمر پوری طرح سے کس چکا ہے۔ مگر چین ،افغانستان میں اختیار کی گئی ،امریکی حکمت عملی کے یکسر برعکس ، یعنی عسکری طاقت کے زور پر نہیں بلکہ دیرپا تجارتی فوائد اور پائیدار سفارتی تعلقات کے بل بوتے پر افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کی خواہش رکھتاہے۔ نیز چین یہ بھی چاہتا ہے کہ اُس کے دیگر حلیف اور پڑوسی ممالک بھی افغانستان میں استحکام کے لیے اُس کے ساتھ مل کر کام کریں ۔ بالخصوص ایران اور روس افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں ۔
گزشتہ دنوں طالبان اور ایران کے سرکردہ رہنماؤں کے درمیان ہونے والی تفصیلی ملاقاتیں بھی اس سلسلے کی وہ مضبوط کڑیاں ہیں ،جن کی مدد سے چین افغانستان میں متوقع خانہ جنگی کے تمام مذموم راستے روکنا چاہتاہے۔دراصل چین ،روس، ایران اور پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ آنے والے ایام میں افغانستان میں طالبان کے زیرنگیں ایک ایسی مستحکم حکومت قائم کی جائے ،جو ہر افغان گروہ کے لیے یکساں قابل قبول ہو۔ سردست اس راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ اشرف غنی ہے ،کیونکہ اُس کی خواہش ہے کہ طالبان اُس کی حکومت میں شریک اقتدار ہوجائیں ۔مگر تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے اشرف غنی کی حکومت کو سخت شکست و ریخت کا شکار کردیا ہے ۔جبکہ طالبان اپنی موثر حکمت عملی اور جارحانہ سفارتی پالیسی کے باعث مضبوط سے مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ طالبان رہنماؤں نے عالمی سیاست کی نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود بین الاقوامی امدادی تنظیمیں کام جاری رکھیں، خاص طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق گروپس مشن بند نہ کریں۔ نیزطالبان نے عندیہ دیا ہے کہ نئے نظام کی تشکیل کیلئے افغان قیادت سے بات چیت جاری ہے، اگر دوحہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو حملے روک دیں گے۔مزید برآں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بعض علاقوں میں افوا ہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ طالبان عوام، میڈیا اور عورتوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔ہم اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہیں، تازہ مفتوحہ علاقوں میں رہائش پزیر افغان غیور مسلمان ہیں اور پہلے سے اسلام کے دائرے میں زندگی گزار رہے ہیں،ان پر پابندیاں لگانے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی انہیں کسی چیز سے منع کیا جائے گا، اسکولوں سمیت تمام ادارے کھلے ہیں، میڈیا شرعی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے غیرجانبدار اور آزاد نشرات کرسکتے ہیں۔اسی طرح کلینک اور صحت کے مراکز کسی رکاوٹ کے بغیر کام کرسکتے ہیں، فلاحی ادارے اور دیگر آزاد این جی اوز عوام کے لیے خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ سرکاری ملازمین، صحافی اور مختلف سروس فراہم کرنے والے اداروں کے ملازمین بلا خوف و خطر زندگی اورفرائض انجام دے سکتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ طالبان کے مصالحانہ رویے نے افغانستان میں خانہ جنگی ہونے کے تمام امکانات یکسر معدوم کردیے ہیں اور ایسا محسوس ہورہاہے کہ طالبان کو افغانستان میں اپنی حکومت کا اعلان کرنے کی قطعاًکوئی جلدی نہیں ہے۔ اس وقت طالبان کی سب سے پہلی ترجیح افغانستان میں پائے جانے والے ایسے عناصر اور گروہوں کا قلع قمع کرناہے ،جو افغان سرزمین پر کبھی بھی ممکنہ خانہ جنگی کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ بظاہر یہ ایک بہترین سیاسی اور سفارتی حکمت عملی ہے، جس کی پشت پر درپردہ چین،روس اور پاکستان بھی پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔اگر طالبان کچھ مزید مدت تک اسی حکمت عملی کو اختیار کیے رکھیں تو قوی امکان ہے کہ اگلے ایک ، دو ماہ میں افغانستان میں مکمل سیاسی استحکام پیدا ہوسکتاہے۔ یہ ہی وہ مناسب وقت ہوگا کہ جب طالبان کو افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کا باضابطہ سرکاری اعلان کردینا چاہئے ۔ دنیا بھر میں عام خیال یہ ہی پایا جاتا ہے کہ پاکستان ، چین ، روس اور ایران سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے۔ جبکہ امریکا کے لیے بھی طالبان حکومت کو زیادہ دیر تک تسلیم نہ کرنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ بس ایک بار طالبان کی حکومت کو عالمی حمایت حاصل ہوجائے ،اُس کے بعد افغان سرزمین پر کسی بھی قسم کا عدم استحکام پیدا کرنا ،کسی بھی عالمی یا علاقائی قوت کے لیے ممکن نہ ہوسکے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر