وجود

... loading ...

وجود
وجود

پیغام اور ذمہ داری

هفته 26 جون 2021 پیغام اور ذمہ داری

بدھ کے روزجوہر ٹائون لاہور میں ہونے والے بم دھماکے نے ملک کو ہلا کر رکھا دیا ہے اِس دھماکے سے ملک دشمنوں نے پیغام دیا ہے کہ وہ کمزور ضرور ہوئے ہیں مگر ابھی اُن کا کُلی طورپر خاتمہ نہیں ہوا نیز ملک کا کوئی حصہ بھی اُن کے ناپاک عزائم سے محفوظ نہیں وہ ملک کے ہر حصے میں کاروائی پر قادرہیں کے پی کے اور بلوچستان میں تو عرصہ سے غیر ملکی سرگرم ہیں جنھیں ناکام بنانے کے لیے سیکورٹی اِدارے کاروئیاں کرتے رہتے ہیں لیکن اب لگتا ہے کہ فرائض کے حوالے سے چوکس نہیں قدرے آرام پسند ہو گئے ہیں لاہور دھماکے سے ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گرد ہروقت ملک کے تمام علاقوں میں جانی و مالی نقصان کی پوزیشن میں ہیں جس کے لیے لازم ہے کہ سیکورٹی اِدارے دیگر مصروفیات ترک کریں اور فرائض پرتوجہ دیں ملک دشمن عناصر کی سرکوبی پر مامور اِداروں کے لیے مزید غفلت کی گنجائش نہیں کیونکہ معمولی سی نرمی،سُستی یا غفلت کسی بڑے حادثے کاپیش خیمہ بن سکتی ہے۔
حافظ سعید عرصہ ہواعملی طورپرغیر متحرک ہیں بلکہ نظر بندی میں ایام گزاررہے ہیں مگر جب وہ متحرک تھے تو کشمیر یوں کے لیے کافی کام کیا اسی بنا پر بھارت کی ناپسندید ہ ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں لاہور دھماکہ اُن کے گھر کے اتنا قریب ہوا ہے کہ تین شہدا کے ساتھ شدید زخمیوں میں سیکورٹی پر مامور کانسٹیبل بھی شامل ہے اِس لیے حافظ سعید کو نقصان پہنچانے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا اِس لیے دھماکے میں بین الا قوامی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے چاہے تاحال کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن سوال یہ ہے کہ ایک نظر بند شخص جو آزادانہ نقل و حمل سے محروم ہے اُس سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے لامحالہ قوی خیال ہے کہ جس ملک کے وہ نا پسندید ہ ہیں وہ اُنھیں خوفزدہ کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرسکتا ہے اِس پہلوکو دھیان میں رکھ کر ایجنسیوں کو تفتیش کا دائرہ کار وسیع کر نا چاہیے۔
لاہور بم دھماکہ ایسے حالات میں ہوا ہے جب بھارت کو کشمیر میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور مودی کی پوری کوشش ہے کہ دنیا کو یقین دلایا جائے کہ کشمیری تبدیل شدہ حالات کو قبول کر چکے ہیں لیکن اِس حوالے سے ہونے والا ہر ڈرامہ فلاپ ہورہا ہے کٹھ پتلی قیادت بھی کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کرنے لگی ہے جمعرات کو نئی دہلی میں ہونے والے ساڑھے تین گھنٹے کے اجلاس میں ایسے سیاسی رہنما بھی حکومت پر برستے رہے جن کی سیاست کا دارومدار ہی بھارتی قیادت کی چاکری پر ہے کانگرس اور ممتا بینر جی جیسے اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے بھی شدید تنقید ہو رہی ہے عمر عبداللہ جیسا نسلی کشمیری غدا ر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کرنے لگا ہے حالانکہ مودی نے تمام کشمیری قیادت کو دعوت دینے کی بجائے صرف بھارت نواز رہنمائوں کو ہی بلایا تھا پھر بھی کسی سیاسی رہنما نے بھارتی حکومت کے یکطرفہ فیصلے کی تائید نہیں کی جس کے جواب میں جنونی مودی کہنا پڑا کہ پہلے ریاستی اسمبلی کے انتخاب ہو جانے دیں بعد میں مناسب وقت پر ریاستی حثیت بحال کر دوں گا پاکستان کی طرف سے بھی کشمیر کے حوالے سے اپنائے موقف میں کوئی لچک نہیں آئی بلکہ سفارتی تعلقات محدود کرنے کے بعد مسلسل کشمیریوں کو حقِ خود اِرادیت دینے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے اِس دبائو کو کم کرنے کے لیے بھارت کا دہشت گردانہ کاروائیوں کی سرپرستی بعید ازامکان نہیں ۔
نیٹو انخلا کے بعد کابل حکومت ختم ہونے کے آثار نظر آنے لگے ہیں طالبان کابل کے نواحی علاقوں تک پہنچ چکے ہیں اور معافی کا اعلان ہونے کے بعد سرکاری فوج کے ہتھیارڈالنے کا عمل تیز ہو چکا ہے صدر جو بائیڈن سے مشاورت کے لیے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دو نوں امریکا پہنچ چکے ہیں اسی دوران امریکا نے اعلان کیا ہے کہ طالبان کا بزور طاقت کنٹرول تسلیم نہیں کر یں گے پاکستان نے مطالبے کے باوجود امریکا کو اڈے نہیں دیے جس کی بنا پر دونوں ملکوں میں سفارتی سطح پر قدرے تنائو ہے علاوہ ازیں پیشِ نظر رکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکا وبھارت آج کل ایک دوسرے پر ریشہ ختمی ہیں اور عالمی معاملات پر دونوں میں مکمل یگانگت پائی جاتی ہے کشمیریوں کے دبائو کو کم کرنے اور اڈے نہ دینے پر غصے کے اظہار کے لیے دونوں ممالک کی مشترکہ کاروائی کا امکان خارج ازامکان نہیں علاقائی تنازعات اور چیلنجز کو زہن میں رکھتے ہوئے اِدارے تحقیقات کا دائرہ وسیع کریں تو اصل زمہ داران تک پہنچا جا سکتا ہے بلوچستان اور کے پی کے کی مقامی آبادی میں غیر ملکی حاشیہ برداروں کے خلاف فضا ہموار ہونے لگی ہے اگر ہماری ایجنسیاں ٹھوس لائحہ عمل بناکر کام کریں تو ایسے واقعات کا تدارک آسان ہو سکتا ہے لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ فرائض کی طرف دھیان رکھیں اور غیر متعلقہ مصروفیات میں الجھ کا وقت ضائع نہ کیا جائے۔
پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں ہاتھ نچاتے اور گلے پھاڑکر چیختے چلاتے حکومتی و اپوزیشن رہنمائوں کا طرزِ عمل کسی طور ذمہ دار نہیں کہہ سکتے بلکہ سیاسی قوتوں میں ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے ایسے حالات غیر ملکی قوتوں کو کھل کرکھیلنے کی دعوت دیتے ہیں پہلے ہی لڑ جھگڑ کا آدھا ملک گنوا چکے مزید ایسے کسی صدمے کے متحمل نہیں ہو سکتے اگر حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر ذمہ داریوں کا تعین کرلیں اور انتقامی رویے اور تنقید برائے تنقید کا سلسلہ ترک کر دیا جائے تو دشمن قوتوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے لیکن اِس کے لیے سب کو انا کے خول سے نکلنا ہو گا لاہور دھماکے کا پیغام بڑا واضح ہے کہ دشمن سے کوئی علاقہ محفوض نہیں بلکہ وہ ہر جگہ وار کر سکتا ہے تو ملک کی سیاسی قیادت متفقہ لائحہ عمل کے لیے ایک کیوں نہیں ہو سکتی؟
لاہور بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ پیٹر پال ڈیوڈ سمیت تمام سہولت کاروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے تفتیشی ٹیموں نے را کی طرف سے فنڈنگ کا نکشاف کیا ہے بابو صابو ناکے پر تعینات سیکورٹی اہلکار کی طرف بارود سے بھری گاڑی کو گزرنے کی اجازت دینے کی پاداش میں شاملِ تفتیش کیا جا چکا ہے لیکن تحقیقات میں کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں رہنا چاہیے اور ظاہری کے ساتھ پوشیدہ ذمہ داران کے خلاف بھی کاروائی ہو نی چاہیے بھارت اور امریکا گٹھ جوڑ میں کسی کو ابہام نہیں لیکن ہمارے سیکورٹی اِداروں کو بھی دفاعی کاروائیوں کے علاوہ بھی اپنی استعداد کا مظاہرہ کرنا چاہیے بھارتی جاسوس کلبھوش سمیت کئی غیر ملکی حاشیہ بردار جو دہشت گردانہ کاروائیوں کی سہولت کاری میں پیش پیش ہیں اُن کی سرکوبی میں کسی قسم کی نرمی یا رحم دلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں نتیجہ خیز کاروائی حالات کا تقاضا ہے جس سے پہلو تہی عوامی اعتماد میں کمی کا باعث بن سکتی ہے اور سیاسی قیادت اور اِدارے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے مصلحت پسندی کا دامن جھٹک دیںاگر دشمن قوتیں ہر علاقے میں کاروائی کرنے کی طاقت رکھنے کا پیغام دے سکتی ہیں تو ہمیں بھی سرکوبی کرنے کی قوت رکھنے کا پیغام پہنچا نے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر