وجود

... loading ...

وجود
وجود

بے نظیربھٹوعہدسازشخصیت

منگل 22 جون 2021 بے نظیربھٹوعہدسازشخصیت

21جون سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا یوم پیدائش ہے اس سال 68ویں سالگرہ کی تقریبات دنیابھر میں منائی گئیں جو چاروں صوبوں کی زنجیر نعرہ بے نظیر کے نام سے موسوم اور شہید بے نظیر بھٹو کی قومی خدمات کا اعتراف ہے۔ انہوں نے اپنے نظریئے کے تحت آئین کی بالادستی پارلیمنٹ کی تکریم کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ قوم کی بیٹی نے آمریت اور دہشتگردی کے خلاف مردانہ وارجنگ میں ملک پر جان نچھاور کردی جس کی بناء پر بے مثال قومی راہنما بے نظیر بھٹو شہید کی ملکی جمہوری، سیاسی و عوامی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی ،انہی اوصاف کی بدولت بے نظیر بھٹو شہید کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ سال گذریں یا صدیاں بیت جائیں ہم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی طویل سیاسی جدوجہد، عظیم قربانی اور لازوال انسان دوست فلسفہ کو ہمیشہ یادرکھیں گے جس کی بدولت وہ کئی دہائیوں تک پاکستانی عوام کے دلوںکی حکمران بنی رہیںجبکہ عوام دشمن قوتوں شہید محترمہ بینظیر بھٹو پر کیے جانے والے مظالم پر انسانیت ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔ عوام نے ایک لمحے کے لیے بھی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو فراموش نہیں کیا کیونکہ تاریخی طور پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو فراموش کرتی ہے نہ دشمنوں کو پہچاننے میں غلطی کرتی ہے۔ تاریخی اعتبارسے بے نظیر بھٹو عالم ِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ پہلی بار آپ 1988ء میں پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا الزام لگا کر اپنے خصوصی اختیارت سے اسمبلی کو برخاست کیا اور نئے الیکشن کروائے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو 21 جون، 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول (Lady Jennings Nursery School) اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری (Convent of Jesus and Mary) کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ (Rawalpindi Presentation Convent) میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انہیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا۔ انھوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اپریل 1969ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے درمیان کافی مقبول تھیں بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی پہلی خاتون تھیں جنہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیااور امریکا بھیجا گیا۔ اس موقع پر ذوالفقارعلی بھٹو اپنی بیٹی کو آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش لیکر گئے، اس دوران باپ بیٹی میں یہ مکالمہ ہوا ’’تم امریکامیں بہت سی ایسی چیزیں دیکھو گی جو تمہارے لیے حیرت کا سبب بنیں گی اور کچھ ایسی بھی جو ذہنی صدمے کا باعث بنیں گی لیکن مجھے اْمید ہے کہ تم میں حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت ہے۔بے نظیر بھٹو برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔ لیکن ان کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اتحاد PNAکی احتجاجی تحریک نے پرتشدد مظاہروںکا روپ دھارلیا ،بھٹو نے کئی بڑے شہروںمیں مارشل لاء لگادیا تحریک ِ نظام مصطفیٰ نامی تریک کے دوران سینکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے گھمبیرحالات کی بناء اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا بھٹو فیملی اور پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوںکو گرفتارکرلیا گیا ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذو الفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ 1981ء میں مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا۔ جس میں آمریت کے خلاف 14 اگست 1983ء سے بھر پور جدوجہد شروع کی، تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مصطفیٰ جتوئی نے دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن عوام نے جدوجہد جاری رکھی۔
1984ء میں بے نظیر بھٹو کو جیل سے رہاکردیاگیا جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیا میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد جب اپریل 1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اگلے سال بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جِدوجْہد کا دامن نہیں چھوڑا۔ 17 اگست، 1988ء میں ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا دروازہ کھل گیا۔ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔ جس نے نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ اور بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اگست، 1990ء میں بیس ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ 2 اکتوبر، 1990ء کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے الائنس بنایا۔ جس کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔ جس کے بعد اکتوبر 1993ء میں عام انتخابات ہوئے۔ جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق لغاری نے 1996ء میں بے امنی اور بد عنوانی، کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک الزام یہ بھی تھا کہ بے نظیر بھٹو اپنے پہلے دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو امریکا کے کہنے پر رول بیک کرنے کے لیے تیار ہوگئیں تھیں لیکن آرمی کے دباؤ کی وجہ سے نہ کر سکیں اس بات کو بے نظیر بھٹو کی پاکستان دشمنی تصور کیا گیا خود بے نظیربھٹو اور آپ کے خاوند آصف علی زرداری پر مالی کرپشن کے بیشتر الزامات میں مقدمات قائم کردئیے ہیں جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس سلسلہ میں ان پر کرپشن کے الزامات میں مقدمات درج ہوئے ۔ اکتوبر 2007ء میں بینظیر امریکی امداد سے پرویز مشرف کی حکومت سے سازباز کے نتیجے میں اپنے خلاف مالی بدعنوانی کے تمام مقدمات ختم کروانے میں کامیاب ہو گئی مقدمہ کی سماعت کے دوران نیب نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کیے ۔ بلاول بھٹو زرداری پی پی پی چیئرمین نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ اپنی شہید ماں کے اس نامکمل مشن کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے جو پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور عوام کو خوشحال بنانے کا مشن تھا۔بے نظیر بھٹو کا ایک بیٹا دو بیٹیاںبلاول بھٹو زرداری، محترمہ بختاور بھٹو زرداری، محترمہ آصفہ بھٹو زرداری ہیں 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیربھٹو نے روالپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ ان کی گاڑی جلسہ گاہ سے نکل رہی تھی کہ ایک خود کش دھماکے دوران بے نظیر بھٹو ہلاک ہو گئیں۔ ان کی ہلاکت پر ملک بھر، بالخصوص صوبہ سندھ میں بد امنی پھیل گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ایک ٹریبیونل نے بھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات کی تھیں لیکن تاحال ان کے قاتلوںکو بے نقاب نہیں کیا جاسکا لگتاہے یہ قتل بھی ایک معمہ بن کررہ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر