وجود

... loading ...

وجود
وجود

غلامی سے نجات !

منگل 15 جون 2021 غلامی سے نجات !

حقیقت اور دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں ، یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور دعوے مگر اس سے بھی زیادہ لیکن جب حقیقت آشکارہوتی ہے تو دل کو بہت رنج ہوتا ہے جیسے نازک سے آبگینوں کو ٹھیس پہنچتی ہو ۔ تازہ ترین ایک خبر ملاحظہ فرمائیں دل و دماغ کے دریچے کھل جائیں گے۔ ہرروز اس قوم کی تنزلی کی داستانیں پڑھ پڑھ کر دل دکھتاہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے، اس ملک کے ساتھ کیا کِیا جارہاہے ۔ ماضی کا ایک ورق ملاحظہ فرمائیں سابقہ خادم ِ اعلیٰ کے دور ِ حکومت میں پنجاب حکومت کی طرف سے اورنج ٹرین لائن منصوبے کے خلاف درخواستوںکی پیروی کے لئے خواجہ حارث ایڈووکیٹ کو دی جانے والی خطیر فیس ایک کروڑ 25لاکھ فیس پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل نوید رسول مرزا کی قربانی بھی ضائع ہوگئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ کو فیس کی مد میں ایک کروڑ 25لاکھ اداکردئیے گئے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بھاری بھرکم فیس لینے کے باوجود وکیل صاحب اورنج ٹرین لائن منصوبے کے بارے فاضل جج کو قائل نہ کرسکے جس پر عدالت کو حکم ِ امتناعی جاری کرنا پڑا۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ اورنج ٹرین لائن منصوبے کے لئے خواجہ حارث کو وکیل کرنے اور بھاری فیس دینے کے معاملے پر ایڈووکیٹ جنرل نوید رسول مرزا اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس پرنوید رسول مرزا نے بھاری فیس کی ادائیگی کی فائل پر دستخط کرنے سے انکارکردیا اور مستعفی ہونا زیادہ بہتر خیال کیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو قومی خزانوں کی پائی پائی ایمانداری سے خرچ کرنے کے دعویدار ہیں ان کی دریا دلی سے مغل بادشاہوں سے بھی زیادہ ہے ۔ ایک بات سب لکھ لیں اورنج ٹرین لائن منصوبہ پر شاندار کارکردگی کی مثالیں دینے والے ایک روز روتے پھریں گے کہ یہ منصوبہ ملکی معیشت کے لئے سفیدہاتھی ثابت ہوگا کیونکہ اورنج ٹرین لائن چلی تو سالانہ کروڑوں کی سبسیڈی دینا پڑے گی اگر اورنج ٹرین لائن نہ چلی تو پاکستان،چین کو جرمانہ د ے گا ۔اب تلک حکومت ِ پاکستان کروڑوں روپے جرمانہ اداکرچکی ہے۔ یہی حشر نشر LGP منصوبے میں بھی ہمارا ہوچکا ہے ۔ اب تک اربوں روپے جرمانہ اداکیا جا چکاہے۔ عدالتوں میں دائر کیس یعنی پرویزاشرف ، شہبازشریف،اعظم سواتی سمیت سینکڑوں شخصیات کے خلاف ایکشن لیا گیا۔مقدمات درج ہوئے۔عدالتوںمیں پیشی پر پیشی لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر زیرو جمع زیرو قومی خزانے کے ساتھ مال ِ مفت دل بے رحم کی اتنی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم ایک غریب ملک کے شہری ہیں اور حکمرانوںکو کوئی خوف ِخدا نہیں۔ میاں نوازشریف کو عدالتوںسے جوفوری انصاف کی نادرمثالیں قائم ہوئی ہے۔ اس تناظرمیں تو انا للہ وانا الیہ راجعون ہی کہاجاسکتاہے کیا آئین اس کی اجازت دیتاہے ؟ اب کس منہ سے عاران خان یہ کہتے پھرفں گے کہ دونہیں ایک پاکستان میرا منشورہے کیا ہرپاکستانی کو عدالتیں ایسا ریلیف دے رہی ہیں اشرافیہ کب تلک انصاف کے ساتھ یوں کھلواڑکرتی رہے گی ۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف دائرریفرنس میں بھی وکلاء کروڑں اربوںکی سرکاری خزانے سے ادائیگی کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلا۔ سابق صدر تمام مقدمات میں بری ہوگئے۔ اب تلک راجہ پرویزاشرف، سید یوسف رضا گیلانی ،خواجہ سعدرفیق ،سیدخورشید شاہ، فریال تالپور، اسحاق ڈار،حمزہ شہبازشریف، ان کے بہنوئی علی عمران اور نہ جانے کتنے نامی شخصیات کے خلاف مقدمات بڑے دھڑلے سے چلانے کااعلان ہوا لیکن کوئی کیس بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔ الٹا ’’نامزد ملزمان‘‘ وکٹری کا نشان بناتے عدالتوں میں اس طرح پیشی پر آتے رہے جیسے وہ وہ کرپشن مقدمات میں نہیں کشمیر فتح کرکے آئے ہوں۔ اس وقت حکومت میں شامل متعددورزاء کے خلاف بھی نیب نے تحقیقات کا آغازکیا پھر نہ جانے کیاہوا تمام انکوائرایاں ٹھپ ہوگئیں۔یعنی حاصل حصول کچھ نہیں ہوا بلکہ قومی خزانے سے اربوں روپے ان مقدمات پر خرچ کئے جاچکے ہیں ۔ مطلب ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ‘‘ کا مقولہ سچ ثابت ہوا۔ اسی لیے سچی بات تو یہ ہے کہ حقیقت اور دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں ۔یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور دعوے بھی بہت۔ سندھ میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ ہی لے لیجئے محض چند لوگوں کو بچانے کے لئے پیپلزپارٹی کی حکومت جس حد تک جا سکتی ہے چلے جانے سے دریغ نہیں کرتی سال میں کئی مرتبہ حکومت اڑجاتی ہے پھر سندھ میں رینجرز کے اختیارات دینے کی سمری پر دسنخط بھی ہوجاتے ہیں اب پتہ ان کا موقف کب درست ہوتاہے کب نہیں؟ درحقیقت پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی حکومت اپنے بندوںکو بچانے کیلئے آخری حد تک چلی جاتی ہے آخر ’’جمہوریت‘‘ کا تحفظ بھی اسی طرح کیا جا سکتاہے آخر انسان انسان ہوتے ہیں فرشتے تو نہیں اور انسان ہی انسان کے کام آتاہے ۔پاکستان شایددنیاکا واحدملک ہے جس کے کسی بھی حکمران نے کبھی عوام دوست پالیسی اختیارنہیں کی ہمیشہ ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے مختلف مافیا راتوں رات کروڑ پتی سے ارب پتی بن جاتے ہیں اور غریبوںکو دودھ پتی بھی پینے کو نہیں ملتی۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان حالت ِ جنگ میں ہے ۔ہم ایک جنگ ِ مسلسل اپنی جغرافیائی سرحدوںکی حفاظت کیلئے لڑرہے ہیں ۔ایک جنگ دہشت گردوں کے خلاف جاری ہے ۔ایک جنگ اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوںنے ہم پر مسلط کر رکھی ہے۔ لیکن اس سے بڑی جنگ غربت اور جہالت ہے جس نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایاہے۔ یہ جنگ جیتنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنے دیگر محاذوںپر ہم توجہ دے رہے ہیں۔اپنے ہم وطنوں کا استحصال، انہیں مایوسی اور محرومیوں کے گہرے غار میں دھکیل کر کوئی بھی جنگ نہیں جیتی جا سکتی ۔ لیکن حیرت ہے ہمارے حکمرانوں کو یہ سادہ سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی ڈپوئوںکی الاٹمنٹ سے سستی روٹی سکیم تک اورLGP کوٹہ، ییلوکیب، نام نہاد آسان شرائط کے قرضے،ا سٹوڈنٹس لون اور ہرطرح کے مراعاتی پیکج کا فائدہ اشرافیہ کو ہی پہنچتاہے جن کی پہلے ہی یانچوں گھی میں ہیں غریبوںکی تو یہ حالت ہے کہ بیمار ماں ایک بچے کے علاج کے لئے دوسرے کوفروخت کرنے کیلئے بازارمیں سڑک پر بیٹھ جاتی ہے۔ حکمرانوںکو پھربھی شرم نہ آئے تو اس ڈھٹائی اور بے شرمی کا کیا علاج کیا جائے؟ سرکاری دفاتر، تھانوںاورعدالتوںمیں عوام کتنے ذلیل و خوارہوتے ہیں یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ یا مخفی نہیں ہے صدر،وزیرِ اعظم، وزرائے اعلیٰ، دیگروزیر مشیر غیرملکی دورے بھی کرتے رہتے ہیں وہاں کی حکومتوں کے اقدامات ، عوام کی کے لئے ترجیحات کا مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں ایک بات سمجھ سے بالاہے پھروہ اپنے ملک میں آکر کیوں بھول جاتے ہیں؟۔کیا ترقی، خوشحالی اور سنہرے مستقبل کے خواب کی تعبیر پاکستانی عوام کا حق نہیں ؟کیا روزگار،علاج ، تعلیم کی ضرورت صرف امیروں کو ہے غریبوں کا اس ملک میںجینا کیوںعذاب بن کررہ گیاہے ۔ سچائی بڑی تلخ ہوتی ہے اور سچ تو فقط یہ ہے کہ حقیقت اور دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور دعوے بھی بہت۔ لیکن غریبوں کے لئے عملاً کچھ نہیں کیاجارہا ۔ کچھ نہیں کیا جائے گا۔ اب کی بار کراچی گیا تو مزار ِقائد ؒ پر ان کی تربت پرکھڑے ہوکر ان سے ایک سوال کرنے کی جسارت ضرور کروں گا ۔ ان سے پوچھوں گا بابا آپ نے ہمیںانگریزوںکی غلامی سے نجات دلاکر اس قوم پر بڑا احسان کیا۔بابا بتائیں ہمیں انگریزوںکے غلاموں کی غلامی سے نجات کب ملے گی؟


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر