وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان میں فورسز پر حملوں کے پیچھے کون؟

بدھ 09 جون 2021 بلوچستان میں فورسز پر حملوں کے پیچھے کون؟

بلوچستان کے اندر پھر فورسز پر حملوں میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ خصوصاً 8اکتوبر2001ء کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کی گئی تو بلوچستان میں واضح طور شورش ، بم دھماکوں، اغواء برائے تاوان اور ہدفی قتل کے واقعات ہونے لگے۔ افغانستان پر امریکی قبضے اور بھارتی بالادستی کے بعد بلوچستان کی بلوچ شدت پسند تنظیموں کے لیے پناہ گاہ تربیت گاہ بنا۔ سابق فاٹا میں ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف جون2014ء شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے بعد ان مذہبی تنظیموں کا محفوظ ٹھکانہ بھی افغانستان بنا ہے۔ یہاں تک کہ سندھ کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیم ’’سندھو دیش ریولوشنری آرمی ‘‘کے سربراہ سید اصغر شاہ بھی قندھار میں مقیم ہے۔ کالعدم ایس آر آر دیگر کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ ری پبلکن گارڈز کے ساتھ ’’ بلوچ راجی آجوئی سنگر ‘‘یعنی ’’ براس ‘‘ نامی اتحاد میں بھی شامل ہے۔ گویا ان تمام تنظیموں کی افغانستان میں کابل کی حکومت اور وہاں موجود بھارتی جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک سرپرستی کرتی ہے۔پاکستان کی جاسوسی کے ادارے ، فوج اور دوسری فورسز کی کامیابیوں کے باوجود ان تنظیموں کا قلع قمع نہ ہونے کی وجہ ہی دراصل کابل کی حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آہی جاتا ہے۔ادھر افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی ، کالعدم داعش اور کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے افراد بھی ہدف بن ہی جاتے ہیں۔
31مئی2021ء کو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے اسلم اچھو دھڑے نے مارواڑ کے علاقے میں ایف سی پر کاری وار کیا۔ یہ علاقہ صوبائی دار الخلافہ کوئٹہ سے جنوب مشرق میں 80سے90کلومیٹر پر واقع ہے۔ کوئلہ کی کانیں وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کی حفاظت کی خاطر فرنٹیئر کور عرصہ دار سے تعینات ہے۔ البتہ کوئلہ صنعت سے وابستہ مزدور، ٹھیکیدار اور مائنز مالکان فورسز سے بھی بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ جنہیں ہر جانب سے مسائل اور تنگی حالات کا سامنا ہے۔ غرض یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا کہ جب افواج پاکستان کے سربراہ کوئٹہ کے دورے پر تھے۔حملے کے ایک دن وزیراعظم عمران خان بھی کوئٹہ اور زیارت کے دورے کے لیے پہنچے۔ اسٹاف کالج کوئٹہ میں دونوں شخصیات نے فوجی افسران سے خطاب کیا۔ ازیں بعد سیاحتی مقام زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی میں تقریب سے خطاب کیا۔ چناں چہ اس حملے میں 12اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ البتہ کالعدم گروہ نے تعداد پچیس بتائی ہے اس دعوے کی مگر آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہوئی۔یہ گروہ دو اہلکاروں کو ہمراہ بھی لے گئے تھے، جنہیں بعد میں قتل کردیا گیا۔ تنظیم نے اپنے تین کارندوں کی شناخت واضح کردی، ان کی تصاویر جاری کیں جو اس دوران فورسز کی فائرنگ سے جان سے گئے۔ ہنگل مری عرف لیلا، آفتاب جتک عرف وشین اور شاویز زہری عرف سارنگ کئی سالوں سے تنظیم سے وابستہ تھے۔ ان میں آفتاب جتک پنجاب سے معاشیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ 31مئی کو تربت میں ایف سی کے ایک کانوائے پر بھی حملہ ہوا جس میں لیفٹیننٹ کرنل عاطف سمیت چار اہلکار زخمی ہوئے۔ ایک اہلکار بعد ازاں دم توڑ گیا۔
کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) بلوچستان 26مئی کو کو بتایا کہ کوئٹہ کے نواح اغبرگ کے علاقے میں چار دہشت گرد مقابلے میں مار دیئے گئے۔ جن کی شناخت پشین کے رہائشی ریاض الدین ، رمضان ، مستونگ کے رہائشی مطیع اللہ اور جنوبی وزیرستان کے رہائشی فضل الرحمن محسود کے نام سے ہوئی۔یہ افراد ان کی قید میں تھے۔ چناں چہ اس روز مقابلہ ظاہرکیا گیا ،جو جنگ میں سب کچھ جائز کے مصداق ہے۔ وہاں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مفتی خالد مارا گیا۔29مئی کو ان کی لاش ملی تھی۔ مفتی خالد ملا فضل اللہ کے معتمدین خاص میں سے تھے۔خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر کا رہائشی یہ شخص دہشتگردی کے کئی سنگین واقعات میں پاکستان کو مطلوب تھے۔ مفتی خالد ٹی ٹی پی اور بھارتی جاسوسی کے ادارے ’’را‘‘ کے درمیان رابطے کی ذمہ داری پر مامور تھے۔ داعش خراساں کا سربراہ اسلم فاروقی ( عبداللہ) بھی کابل حکومت کی حفاظت میں ہے۔داعش خراسان کا سربراہ ننگرہار میں افغان طالبان سے روپوش تھے۔ 4اپریل2020ء کومحاصرہ ہوا تو فورا کابل کی فورسز کو اطلاع کردی۔ جس پر ہیلی کاپٹر آئے اور اسے لے گئے۔ دیکھا جائے تو سارے گروہ خواہ خیبر پختونخوا سے ہو یا بلوچستان سے، افغانستان میں بھی محفوظ نہیں ر ہیں۔ بی ایل اے اسلم اچھو دھڑے نے پاکستان کے اندر چین کے کراچی میں واقع قونصل خانہ پر فدائی حملہ کرایا۔کراچی اسٹاک ایکسچینج میں گھسنے کی کوشش کی۔ گوادر کے پرل کانٹینٹل (پی سی ) ہوٹل کے اندر گھس گئے۔ وہاں سے گوادر پورٹ اور چینیوں پر حملہ مقصود تھا۔ افغانستان میں ہی رپوش گروہ ٹی ٹی پی نے چند ہفتے پہلے حملے میں کو ئٹہ سرینا ہوٹل میں چینی سفیر اور سفارت خانے کے دیگر عملے کو خودکش بم دھماکے کے ذریعے مارنے کی کوشش کی۔پیش ازیں دالبندین میں سیندک کمپنی کے چینیوں کو لے جانے والی کوسٹر پر خودکش حملہ کیا گیا۔ یہ بم دھماکا اسلم اچھو کے بیٹے نے کیا۔ چناں چہ اسلم اچھو قندھار کے پوش علاقے ’’عینو مینہ ‘‘ میں چار دوسرے جنگجوں سمیت بم حملہ میں جاں بحق ہوا۔ یہ واقعہ دسمبر2018ء میں پیش آیا تھا۔ نمروز میں ایک بلوچ رہنماء حضرت گل کے بیٹے کی لاش برآمد ہوئی۔
حضرت گل افغانستان میں پاکستان سے جانے والے بلوچ افراد کی رہائش وغیرہ کے لیے سہولت کار تھا۔ ڈیرہ بگٹی کا گلبہار بگٹی اپنے بیٹے مراد علی کے ہمراہ قندھار میں فائرنگ کے واقعہ میں مارے گئے۔معلوم یہ بھی ہوا ہے کہ گلبہار بگٹی کا ایک اور بیٹا ، پوتا، اور بھتیجا بھی افغانستان میں ہدف بنے ہیں۔ ماہ اپریل میں افغانستان کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقے اسپین بولدک میں چار بگٹی افراد جان سے گئے۔ حال ہی میں یعنی27مئی2021ء کو کالعدم بی ایل اے کا ایک اور اہم کمانڈر عبدالنبی بنگلزئی قندھار میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ تنظیم کے ترجمان جئیند بلوچ نے تصدیق کرلی ہے۔ عبدالنبی بنگلزئی عرف چھوٹا میر2002سے شدت پسندی کی راہ پر تھے۔ یہ شخص سرمایہ داروں، وکلاء اور تاجروں کے اغواء کے متعدد واقعات میں ملوث تھا۔ رہائی کے بدلے بھاری رقوم بطور تاوان وصول کرتا۔تاوان کی غرض سے اغواکی وارداتیں اور بھتہ وصولی تمام مسلح گروہوں کا عام وطیرہ ہے۔ ایسا اپنے اخراجات اور مالی ضروریات کے لیے کرتے ہیں۔ سرکار کے حمایت افراد بھی اغوا، بھتہ اورزمینوں پر قبضے سمیت اس نوع کے قبیح جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں نصف درجن سے زائد حملوں میں 20سے زائد ایف سی اہلکارجاں بحق ہوچکے ہیں۔ 9 مئی کو مارواڑ میں ایف سی کی چوکی پر حملے میں تین اہلکار جاں بحق ہو ئے تھے۔ پانچ مئی کو افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع ڑوب میں سرحد پرباڑ لگانے والے اہلکاروں پر ٹی ٹی پی کے شدت پسند وں نے حملہ کیا نتیجے میں ایف سی کے سات اہلکاروں کی جانیں گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر