وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہد۔وانہ۔۔

اتوار 06 جون 2021 ہد۔وانہ۔۔

دوستو، گرمیوں میں تربوز کھانے کا الگ ہی مزہ ہے، گزشتہ کالم میں ہم نے گرمیوں کی ایک اور سوغات آم کا ذکر کیا تھا، اس بار تربوز کی باری ہے، جسے پنجابی میں ’’ہدوانہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ جب آپ تربوز والے سے تربوز خریدتے ہیں تو وہ پہلے ایک تربوز اٹھاتا ہے، اسے ٹھوک بجا کر رکھ دیتا ہے، پھر دوسرے والے کو اٹھا کر اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتا ہے، پھر تیسرا تربوز اٹھا کر اس کے ساتھ بھی ایکشن ری پلے کرتا ہے اور وہی آپ کے ہاتھ میں تھمادیتا ہے۔۔لیکن جب آپ گھر آکر چیک کرتے ہیں تو وہ آپ کی امیدوں پر پانی پھیردیتا ہے۔۔تربوز گرمیوں کی ایک مرغوب غذا ہے۔ لیکن آپ یہ کیسے جان پائیں گے کہ اندر سے بہترین پکا ہوا اور لال ہے؟ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر آپ تربوز کو ٹھوک بجا کر دیکھیں تو اس میں سے آنے والی مخصوص آواز یہ بتائے گی کہ یہ کھانے کے قابل ہے یا نہیں۔ایسا کبھی سوچئے گا بھی نہیں۔۔ تربوز خریدنے کے تین اصول یاد رکھئے۔۔تربوز کا وزن دیکھیں کیونکہ جتنا بھاری ہوگا اتنا اچھا ہوگا۔۔یہ مضبوط ہونا چاہیے اگر یہ دبانے پر واپس آ جاتا ہے تو یہ کھانے کے لیے تیار ہے
اس پر بنے نشانات کو غور سے دیکھیں۔ اس کے ایک سرے پر پیلے رنگ کا دھبہ بتاتا ہے کہ یہ پک چکا ہے۔۔ہاں، اگر یہ سب طریقے ناکام ہو جاتے ہیں تو یقیناًپھر آپ اسے ٹھوک بجا کرخرید لیں۔
عربی میں بطیخ تربوز کو کہتے ہیں۔ محد ثین نے بطیخ کو تربوز قرار دیا ہے مگر آج کل کی عربی میں بطیخ خربوزہ کو کہا جاتا ہے اور تربوز کو حب حب کہتے ہیں۔ حجازیوں نے ان دنوں عربی کے اور الفاظ میں بھی مشکل پیدا کردی ہے جیسے کہ لبن۔ پرانی عربی میں لبن دودھ کو کہتے آئے ہیں۔ آج کل دہی کولبن اور دودھ کو حلیب کہا جاتا ہے۔۔۔تربوز دنیا کے اکثر گرم ملکوں میں جب کہ مشرق وسطیٰ کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں بھی عام ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ریتیلے علاقوں کا تربوز زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ دنیا میں اس وقت پاکستان کے ضلع سکھر کے علاوہ گڑھی یٰسین کے تربوز ذائقہ اور حجم میں بہترین مانے جاتے ہیں۔تربوز کی عمدگی اس کے گودے کی سرخی اور مٹھاس پر قرار دی جاتی ہے۔ ملاوٹ کے اس دور میں دیکھا گیا ہے کہ پھل فروش سرخ رنگ میں ’’اسکرین ‘‘ملا کر تربوز میں انجکشن لگا کر ان کو مصنوعی طور پر سرخ اور میٹھا کرلیتے ہیں۔بنیادی طور پر یہ افریقا کا پھل ہے جو سیاحوں کی بدولت دنیا بھر میں مقبول ہوگیا۔ آج کل پاکستان میں چین کے درآمدی بیج سے چھوٹے حجم کے ایسے تربوز کثرت سے پیدا ہورہے ہیں جو لذیذ بھی ہیں۔ پھل وزنی ہونے کی وجہ سے اس کا پودا زمین پر رینگنے والا ہے۔ بیج بونے سے چار ماہ میں پھل پک کر تیار ہوجاتا ہے۔ ۔یہ تھا تربوز کا حدوداربعہ۔
باباجی اپنے بچپن کا ایک قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب میں راستے میں تربوز کھاتے ہوئے جا رہا تھا اور اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا کہ۔۔اے اللہ تو نے اتنے بڑے تربوز کو تو بیل میں پیدا کیا مگر چھوٹے سے آم کو درخت میں۔۔اتنے میں میرے سر پر ایک آم آگرا پہلے تومیں گھبرا گیا پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولا۔۔شکر ہے اے اللہ تو نے تربوز کو درخت میں پیدا نہیں کیا۔۔باباجی مزید فرماتے ہیں کہ جب وہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے تو جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا۔۔افطاری کے وقت ہدوانہ (تربوز) بد ذائقہ نکلا تو دادی جان نے کہا ،جا یہ کسی کو دے آ ۔۔میں نے دادی سے پوچھا۔۔کسی کو بھی؟؟ دادی بولیں۔۔آہو میریا بچیا۔۔میں نے فٹ سے کٹا ہوا تربوز اٹھایا اور گلی کے کونے پر پھوپھو کے گھر جاپہنچا اور کہا۔۔ پھوپھو ،دادی جان نے آپ کے لیے ہدوانہ بھیجا ہے ۔۔
ایک سیاح پہلی مرتبہ پاکستان میں آیا۔ ایک پھل کی دکان پر جا کر اس نے کیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔۔’’یہ کیا ہے؟‘‘۔ دکان دارنے بتایا یہ کیلے ہیں۔۔ سیاح کہنے لگا’’ہمارے ملک میں تو ڈھائی ڈھائی فٹ لمبے کیلے ہوتے ہیں‘‘۔ پھر اس نے سیب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ دکاندار نے جواب دیا’’یہ سیب ہیں‘‘۔ سیاح جھٹ بولا’’ہمارے ملک میں تو پانچ پانچ کلو کے سیب ہوتے ہیں‘‘۔ پھر اس نے تربوز کی طرف اشارہ کیا تو دکاندار عاجزی سے بولا’’جناب! یہ انگور ہیں‘‘۔۔ایک آدمی گھبرایا ہوا ڈاکٹر کے پاس آیا اور بولا۔۔ڈاکٹر صاحب غضب ہو گیا، رات کو میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے ایک بہت بڑا تربوز کھا لیا ہے؟ڈاکٹر نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا۔۔ پھر ؟؟ وہ آدمی کہنے لگا۔۔جناب! پریشانی کی بات یہ ہے کہ جب میں صبح سوکر اٹھا تو بستر سے میرا تکیہ غائب تھا۔۔ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ اس کی رعایا میں سے جو شخص ایک ایسا پھل اس کی خدمت میں پیش کرے جو کہ بادشاہ کی پسند کے مطابق ہو تو بادشاہ اس پھل کے برابر اس شخص کو ہیرے جواہرات سے نوازے گا اور اگر پھل پسند نہ آیا تو اس شخص کو ثابت نگلنا ہو گا۔سب سے پہلے ایک مسلمان بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بیر پیش کیا۔بادشاہ نے اس کو نا پسند کر دیا اور اس نے بیر کو نگل لیا۔پھر ایک ہندو نے سیب پیش کیا بادشاہ نے اس کو بھی نا پسند کر دیا تو وہ ہندو پہلے رونے لگا پھر تھوڑی دیر بعد ہنسنے لگا۔بادشاہ نے پوچھا کہ تم پہلے روئے اور بعد میں ہنسے کیوں؟ہندو نے جواب دیا ۔۔بادشاہ سلامت، میں رویا اس لیے کہ میں سیب کو نگل نہیں سکتا اور ہنسا اس لیے کہ باہر ایک سکھ تربوز لایا ہے۔
بچپن میں ہمیں کبھی بھی تربوز زیادہ پسند نہیں آتے تھے، سارے ہاتھ گیلے، بعد میں چِپ چِپ، جہاں کھاؤ وہ جگہ بھی گیلی اور مکھیوں کا میلہ الگ۔۔ اوپر سے اتنی بڑی بڑی قاش کاٹ کر دیتے تھے کہ کھاؤ تو گالوں تک منہ دھونا پڑے، ساتھ ساتھ یہ بھی سنتے جاؤ کہ خبردار جو پانی پیا تو۔ہیضہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔۔ آج کل کے بچے تو ’’کیوبز‘‘ کاٹ کے کانٹوں سے کھاتے ہیں، یہ فیشن کافی تاخیر سے آیا۔۔ بازاروں میں جا بجا مکھیوں کی کالونیوں کے سائے میں چھلکوں اور ادھ کھائے تربوزوں کا ڈھیر۔ چلتے چلتے پیاس لگی، ایک دھوانا لیا اور گوڈے پہ رکھ کْہنی ماری، ہاتھ سے کھایا، جتنا کھایا ٹھیک باقی وہیں چھوڑ چھاڑ، یہ جا وہ جا۔۔اب اگر ’’ہدوانہ‘‘ لینے جائیں تو چالیس،پچاس روپے کلو سے کم میں نہیں ملتا، اور ایک ہدوانہ کم سے کم تین سے چار کلو وزنی تو ہوتا ہی ہے۔۔یعنی ایک تربوز لیاتو کم سے کم دوسوروپے تو ’’کھیسے‘‘ سے ڈھیلے کرنے پڑجاتے ہیں۔۔سنتے تھے کہ باہر کے ملکوں میں آم کی ایک ایک قاش ڈالروں میں بِکتی ہے۔۔ ان کا تو پتا نہیں، ہمارے تربوز ضرور اب ‘پھاڑیوں’ کے حساب سے بِکا کریں گے۔ دس روپے کی تو وہ اوپر والی ‘‘ٹک زدہ’’ تکونی کاش ملا کرے گی۔ یعنی کہ اب ہدوانا ایک تعلیم یافتہ، مہنگا اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ والا فروٹ بن گیا ہے، اب ہدوانا واقعی تربوز بن گیا ہے۔۔
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ہم ہرکامیابی کے پیچھے چاہے وہ علم ہو ،تجارت یا پھر دولت کمانا ہو،اپنی محنت اور زہانت کو کریڈٹ دیتے ہیں اور ہر ناکامی پر کہتے ہیں، بس جی رب کی یہی مرضی تھی، خدا کے چاہنے یا نہ چاہنے کو غلط انداز میں پیش نہ کیا جائے، اللہ پاک کسی انسان کا کبھی برا نہیں چاہتا، ہاں البتہ ہمارے اعمال ہی اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر